Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Waqas Rashid
  4. Madrasse Ke Aik Bache Ka Khuda Ke Naam Khat

Madrasse Ke Aik Bache Ka Khuda Ke Naam Khat

مدرسے کے ایک بچے کا خدا کے نام خط

از زمین

"اللہ میاں کو ملے"

بمقام ساتواں آسمان

پیارے اللہ میاں، آج آپ سے میں نے کچھ دل کی باتیں کرنی ہیں۔ کیونکہ آپ نے ہماری طرف اپنا پیغام لکھ کر یا لکھوا کر بھیجا تو سوچا میں بھی یہی کام کرتا ہوں۔

میں ایک مدرسے کا طالبعلم ہوں، سکول نہیں پڑھا اس لیے مجھے نہیں پتا کہ خط کیسے لکھتے ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ آپ رحمان و رحیم ہیں مدرسے کے مولوی صاحب کی طرح چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر مجھے ماریں گے نہیں۔۔

اللہ جی! حضرت آدمؑ کو جنت سے نکل کر واپس جانے میں اتنی مشکل پیش نہیں آئی ہوگی جتنی یہاں ہم پاکستان کے بچوں کو پیش آ رہی ہے۔ حضرت آدم نے تو اپنی جنت واپس حاصل کرنی تھی اور وہ تو تھے بھی بڑے لیکن ہمیں تو اپنا بچپن دے کر اپنے ماں باپ کی جنت حاصل کرنی ہے۔ ہاں جی۔۔ مجھے پڑھنے لکھنے کا بہت شوق تھا۔۔ میں غریب بیمار لوگوں کو دیکھ کر سوچتا تھا کہ بڑا ہو کر ڈاکٹر بن جاؤں گا اور انکا مفت علاج کرکے جنت کماؤں گا لیکن میرے ابا کو مولوی صاحب نے بتایا کہ ایک حافظ اپنے ساتھ آٹھ لوگوں کو جنت میں لے کر جائے گا۔ لو جی انہوں نے مجھے سکول سے اٹھوا کر مدرسے بھیج دیا۔

کتنی عجیب بات ہے میری ماں کے پیروں کے نیچے میری جنت تھی اور میں اس جنت کو ترس کر اسکے لیے جنت کمانے نکل پڑا۔ اللہ جی! مجھے سمجھ نہیں آتی کہ یہ تو پھر آپکے انصاف کے خلاف بات نہیں کہ جو مرضی کرتے رہو بس اپنا ایک بچہ جنت کی بلی چڑھا دو اور بس بخشش کروالو۔ لیکن میں نے کیونکہ حدیث میں پڑھا تھا کہ والدین کا حق سب سے زیادہ ہے اس لیے میں اپنا جیون جہنم بنا کر انکے لیے جنت کمانے کو تیار ہوگیا لیکن مجھے لگتا ہے کہ آپ ایسا کریں گے نہیں۔۔ کیونکہ یہ ان آیات کے خلاف ہے جس میں آپ نے کہا کہ ہر کسی سے اسکے اعمال کا حساب لیا جائے گا۔

لیکن پیارے اللہ میاں! میں آ تو گیا یہاں لیکن بڑی مشکل میں ہوں سمجھ نہیں آتی کہ رحمان و رحیم خدا کی رحمت للعالمین پر اتری ہدایت کی کتاب پڑھتے ہم انکے ننھے امتی اتنی اذیت و تشدد کیوں سہتے ہیں۔ ہماری زبان اردو ہے ہم عربی جانتے نہیں محض ہماری زبانوں کی معصومانہ لکنت پہ ہمیں زنجیروں، ڈنڈوں، پائیپوں سے مارنا کہاں کا انصاف ہے اور تو اور ایک دن مولوی صاحب نے "وما ارسلناک الا رحمت للعالمین" والی آیت ایک بچے کو الٹا لٹکا کر یاد کروائی۔ اللہ جی! کیا خود رحمت للعالمین ﷺ نے صحابیوں اور انکے بچوں کو ایسے قرآن پڑھایا تھا؟

اللہ جی! چلو اسکے بھی ہمارے ننھے جسم عادی ہو جاتے ہیں۔ شروع شروع میں بہت درد ہوتا ہے، رونے آتے ہیں لیکن پھر آہستہ آہستہ ہم عادی ہو جاتے ہیں۔ جس طرف مار پڑتی ہے، رات دوسری طرف پہلو بدل کر سسکتے کراہتے سو جاتے ہیں۔ لیکن اللہ جی کیسے لکھوں یہ والی بات۔۔ بہت شرم آ رہی ہے۔۔

اللہ جی لیکن نہ لکھی تو بھی تو مشکل ہے۔۔ اللہ میاں! قاری صاحب ہم سے زبردستی گندی حرکتیں کرتے ہیں۔ جو بچہ زیادہ مزاحمت دکھائے اسے جان بوجھ کر سبق کے دوران زیادہ مارتے ہیں۔ آخر وہ ڈر کر مان جاتا ہے۔ لیکن میں سوچتا ہوں کہ سارا دن شرم و حیا کی آیتیں پڑھتے اور جمعہ کے خطبات میں لوگوں کو زنا سے بچنے کے وعظ کرتے خود خدا کے گھر میں چھوٹے چھوٹے بچوں سے یہ مکروہ خواہشات پوری کرنے سے نہیں چوکتے۔ میں سوچتا ہوں کہ ہمیں کہتے ہیں حفظ کرو کہ سینے میں قرآن ہو تو انسان تمام کبیرہ گناہوں سے محفوظ رہتا ہے تو میرا سوال ہے کہ انکے سینے قرآن اور اس گندگی کو ایک ہی جگہ پر کیسے محفوظ کیے ہوئے ہیں۔

اللہ جی! بہت ڈر لگتا ہے بہت خوف آتا ہے۔ ہم مدرسے کے بچے سنتے رہتے ہیں کہ فلاں مدرسے میں مولوی صاحب نے بچے کو مار مار کر قتل کر دیا تو مرنے سے بہت ڈر لگتا ہے۔ کس کو بتائیں کہاں جائیں۔ ہم اس ملک کا مستقبل تو ہیں لیکن ہمارے لیے کوئی قانون نہیں بنتا۔ کوئی مولوی صاحب پکڑے جائیں تو بڑے بڑے مولوی صاحب آکر انہیں چھڑوالیتے ہیں اور اگلے ہی دن وہ پھر انہی بچوں کو پڑھا رہے ہوتے ہیں۔ مولوی صاحب ہمیں مارتے ہوئے کہتے ہیں ہمیں اس سے زیادہ مار پڑتی تھی۔ اے اللہ! میں اس دائرے کے سفر میں آنے والے کل کے بچوں کے لیے جلاد نہیں بننا چاہتا۔۔ میں کیا کروں، کہاں جاؤں، کس کو بتاؤں؟

اللہ پاک جی! ماں باپ کو بتائیں تو وہ تو خود "بچہ دو جنت لو" پر ہمارا سودا کر چکے۔ ہماری بات کا یقین ہی نہیں کرتے۔ شکایت کی صورت میں انہی مولوی صاحب کا چارہ بنا کر ہمیں انہی کے سامنے ڈال آتے ہیں۔ وہ کئی دفعہ مارتے ہوئے بڑے تکبر سے کہہ رہے ہوتے ہیں "ہاں دیکھ لیا شکایت لگا کر فلاں فلاں کے بچے"۔

پیارے اللہ میاں جی! ہمارے آخری نبی حضرت محمد ﷺ نے فرمایا تھا کہ بچے اللہ کے باغ کے پھول ہیں۔۔ ہم کیسے پھول ہیں کہ جو خدا کے گھر ہی میں مسل دیے جاتے ہیں۔ ہم کیسے پھول ہیں جنکی خوشبو خدا کے گھر کے گنبدوں میں آہوں سسکیوں، کراہوں اور حتی کہ نزع کی ہچکیوں میں بدل دی جاتی ہے۔ مگر نہ ہماری ماں ہماری جنت ہمیں بچانے آتی ہے نہ ہمارا باپ آٹھ جنتیوں کی قطار خراب کرنا چاہتا ہے نہ کوئی ریاست نامی چیز ہمیں ان انبیاء کے نام نہاد وارثوں، ظالموں سے بچاتی ہے اور تو اور آپ جسکے گھر میں یہ سب کچھ ہوتا ہے، آپ ہمیں بچاتے ہیں۔۔ اللہ میاں جی آپ شہہ رگ سے قریب ہیں تو آپ کی جنت اتنی دور کیوں ہے؟

اللہ جی میں نے کل روتے بلکتے ایک نظم لکھی ہے آپ کے نام۔۔

میں ننھا سا اک بچہ ہوں
اک مدرسے میں پڑھتا ہوں

میری ماں کے پیروں کے نیچے
کہنے کو میری جنت ہے

پر اس جنت کے سنگ رہنا
میرے اس دل کی حسرت ہے

میں اپنے بابا ماما کے
اس رب کو منانے نکلا ہوں

دوزخ میں رہ کر میں انکی
جنت کو کمانے نکلا ہوں

وہ رب جو ہے رحمان رحیم
جسکے ہیں پیغمبر نبی کریم

ہیں دونوں جہانوں پر رحمت
بچوں پہ سدا کرتے شفقت

ان پہ جو ہدایت کی اتری
زینہِ نبوت چڑھتے ہوئے

میں اتنی اذیت سہتا ہوں
اس ایک کتاب کو پڑھتے ہوئے

متشدد اس ماحول میں میں
اک لفظِ کاش ہوں بن جاتا

اس دین کی روح سے میں محروم
اک زندہ لاش ہوں بن جاتا

بچپن کی معصومیت کو
مدرسے میں ہوں کھو دیتا

رحمان خدا کے گھر میں ہی
میں گھٹ گھٹ کر ہوں رو دیتا

جسمانی، ذہنی، روحانی
ہر ایک تشدد سہتا ہوں

کوئی اور تو میری سنتا نہیں
میں اپنے خدا سے کہتا ہوں

تیرے گھر کے ان میناروں میں
بچوں کی آہیں گونجتی ہیں

ہیں سسکیاں بھرتے روزوشب
ہم سب کی کراہیں گونجتی ہیں

تو ان آہوں کو سنتا ہے
پھر ہر بچہ مجبور ہے کیوں

تو خود شہ رگ سے ہے نزدیک
تیری جنت اتنی دور ہے کیوں

"آپکا ایک چھوٹا سا بندہ"

Check Also

Bani Pti Banam Field Marshal

By Najam Wali Khan