Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Waqas Rashid
  4. Khuda Ka Qalamdan Usay Lauta Dijiye

Khuda Ka Qalamdan Usay Lauta Dijiye

خدا کا قلمدان اسے لوٹا دیجیے

جنابِ آدم کو خدا نے کہا "اب نیچے اتر جاؤ جہاں تمہیں ایک معینہ مدت کے لیے رہنا ہے اور خدا کی طرف سے ہدایت کا انتظار کرو۔ یہی اسلام کی سادہ ترین تعریف ہو سکتی ہے کہ قول و فعل سے اس امر کا اقرار کہ "ہمیں اپنے کیے کا اپنے خالق کو ایک دن جواب دینا ہے"۔

غور فرمائیے تو خدا تعالی کی آدم کو یہ نصیحت آدمی کے لیے وہ مشعلِ راہ ہے جو کم از کم اس سماج میں تو گل دکھائی دیتی ہے۔

غامدی صاحب کہتے ہیں خدا نے زندگی کو امتحان کے اصول پر بنایا ہے۔ اسکا مطلب یہ ہوا کہ دنیا کمرہِ امتحان ہے ہر انسان یہاں امیدوار ہے، حیات ایک امتحانی پرچہ ہے اور قلمدان مممتحن کے ہاتھ میں ہے جو کہ ایک ہی دن یعنی روزِ جزا کو سب کے نتائج کا اعلان کرے گا۔

بہت غور طلب مقام ہے جنابِ آدمؑ سے محمد رسول اللہ ﷺ تک اپنے پیغمبروں کے ذریعے خدا نے پوری انسانیت کے لیے نصاب مقرر کیا اور اسکے مطابق دیے گئے پرچے یعنی اعمال نامے پر حاصل کردہ نمبروں کے اعلان کا ایک دن مقرر کر دیا۔ کیونکہ نصاب خدا کی طرف سے نافذ کیا گیا اس لیے نتیجے کا قلمدان بھی اسی کے شایانِ شان ہے۔

مگر ہمارے ہاں غور فرمائیے کہ کیا روزِ حشر کا بھی حشر نشر نہیں کر دیا گیا؟ خدا کا قلمدان مٹی کے بتوں نے اپنے قبضے میں لے لیا۔ جو کام خدا نے انبیاء کو حکم نہیں کہا وہ انبیاء کے وارث کہلوانے والوں نے زبردستی اپنے تصرف میں کر لیا اور لوگوں کے نامہِ اعمال کو نہ صرف پرکھنے لگے بلکہ اس پر خدا کی جنت دوزخ کے فیصلے بھی صادر کرنے لگے۔ یا للعجب کیا شانِ بے نیازی ہے کہ خود کمرہِ امتحان سے کوئی اٹھے اور محض اپنی ظاہری حالت پر اپنے لیے خودساختہ نجات کا اعلان کرکے "بہت پہنچا ہوا" کی اجارہ داری قائم کرے اور عملاً یہ منادی کر دے کہ اب خدا کا قلمدان میرے ہاتھ میں ہے۔ جو میری اس خدائی کو مانے گا وہ مسلمان جو میرا منکر ہے، وہ کافر ہے۔

مذاہب کی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یونانی دیوتاؤں سے یورپ کے کلیساؤں تک دراصل اسی انسانی اجارہ داری سے چھٹکارہ پا کر مغرب اس سماجی امن و استحکام تلک پہنچا جہاں مندرجہ بالا شدت پسند اور اجارہ دارانہ مزہبی تفہیم بقاءِ باہمی کے آفاقی اصول کو متاثر نہیں کرتی۔ طالبعلم کے خیال میں در حقیقت جو مزہب کی اولین ترویج اور ترجیح ہوتی ہے اگر اسے انفرادی اور گروہی مفادات کی عصبیتوں کی زنجیروں میں نہ جکڑا جائے۔

آج کل راقم الحروف اپنی فیکٹری میں ایک اطالوی انجینئیر کے ساتھ مصروفِ عمل ہے جسکی کمپنی دنیا بھر میں سیمنٹ انڈسٹری میں پیکنگ پلانٹ پر اٹالین ٹیکنالوجی کے لیے معروف ہے۔ یہ وہی اٹلی ہے جہاں سولہویں صدی میں گلیلیو نامی ایک فلکیات کا سائینسدان اور انجینئیر اپنی ایجاد کردہ دوربین سے دیکھ کر سورج کے گرد باقی سیاروں کی حرکت کی تھیوری پیش کرنے پر اپنے مذہبی رہنماؤں کی طرف سے راندہِ درگاہ ٹھہرایا گیا اور اسے جان بخشی کے عوض معافی مانگنی پڑی۔ کچھ مماثلت محسوس ہوئی جی ہاں۔۔ ٹھیک پہنچے وہی بنوں، وہی علما، وہی پروفیسر شیر علی۔ وہی سائینس اور وہی معافی نامہ۔ جو وہاں سولہویں صدی میں گزر چکا وہ یہاں آج بھی جاری ہے۔

دراصل یہ احساسِ برتری کی نفسیات ہے۔ قولِ زریں ہے کہ وہ نیکی جو تکبر میں مبتلا کردے اس گناہ سے بدتر ہے جو شرمندگی پیدا کرے۔ ایک دوست نے اپنے پیر صاحب کی طرف مائل کرنے کی کوشش کی تھی تو بنیادی سوال تشنہ رہا تھا کہ پیر صاحب کیسے جانتے ہیں کہ وہ رشد کی اس منزل پر ہیں جہاں مرشد کہوا سکیں؟ ہدایت، ریاضت ہے یا وراثت؟ دونوں صورتوں میں دعویٰ باطل ہے۔

اسلام آباد میں نور مقدم نامی ایک لڑکی کو اسکے بوائے فرینڈ نے بے دردی سے قتل کر دیا تھا تو یہی نفسیات لٹھ لے کر میدان میں اتری تھی کہ کیونکہ Live-in Relationship میں تھی بدکردار تھی سو ماری گئی تو اچھا ہوا یہی انجام ہونا تھا۔ آج مولانا طارق جمیل کے بیٹے کی خودکشی پر ایک بار پھر خدا کا قلمدان تھام کر فتویٰ بازی کرنے والے آن پہنچے۔

کسی بھی شخص پہ مصیبت آئی نہیں کہ خود ساختہ زہد کے سپیروں نے اپنی پٹاری کھول کر مکافات کی بین بجانی شروع کی نہیں۔ مجھ پر آنے والی مصیبت تو آزمائش ہے مگر تم پر مکافاتِ عمل کیونکہ گنہگار صرف تم ہو۔ یہ ہے ساری کہانی حضور۔

بسا اوقات میں خدا کی اعلی ظرفی پر ششدر رہ جاتا ہوں کہ کائنات کی تمام قدرتوں کا قادرِ مطلق ہو کر خاموشی سے تکتا ہے زمین کے خداؤں کو اپنا قلمدان تھامتے ہوئے مگر گزارش یہ ہے کہ وہ خدا ہے ازلی شہنشاہ ہے جس نے بتا دیا کہ تم سارے کافر ہو جاؤ مجھے تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا سارے مسلمان ہو جاؤ تب بھی۔

نور مقدم سے لے کر عاصم جمیل تک ہماری سماجی بقاء کی امید وہی لوگ ہیں جنہوں نے خداکے قلمدان کو ہاتھ ڈالنے کی کوشش نہیں کی۔ خدارا خدا کا قلمدان اسے واپس کیجیے۔ نور مقدم سے عاصم جمیل تک خدا ہر کسی کا عذر قبول فرمائے۔

Check Also

Lucy

By Rauf Klasra