Khabardar, Ye Akhri Lash Nahi
خبردار، یہ آخری لاش نہیں

خبردار! جو آپ نے مدارس کے خلاف اس جھوٹے پراپیگینڈے پر کان دھرے۔ اسلام دشمنوں کی سازش کا حصہ بنے۔ بھئی جنت کا حصول ہر مسلمان پر فرض ہے اور یہ تو اپنے ماں باپ کی جنت کما رہا تھا۔ آپ نے سنا نہیں کہ ایک حافظ اپنے ساتھ چھے لوگوں کو جنت میں لے کر جائے گا۔ دیکھیں اتنی سی عمر میں اس نے اپنے ماں باپ کی جنت کما لی۔۔ آفرین ہے اس پر۔۔ زندگی کا کیا ہے۔۔ روز پیدا ہوتے ہیں روز مرتے ہیں۔
خبردار! جو آپ نے اسکے ننھے جسم پر پڑنے والی سفاکیت کی مہروں پر اظہارِ افسوس کیا۔۔ کیا ہوگیا ہے آپ کو۔۔ لا حولا ولا قوۃ۔۔ یہ دین سے دوری ہے۔۔ بھئی آپ نے نہیں سنا کہ اسلامی تعلیم کے دوران جہاں جہاں سفاک ملائیت کے دلوں کی طرح سیاہ نشان پڑتے ہیں اس جگہ پر دوزخ کی آگ حرام ہوتی ہے۔۔ اب اگر چند نشانوں کے بدلے آپ دوزخ کی آگ سے بچ جائیں تو حرج ہی کیا ہے۔
خبردار! جو آپ نے اس عالمِ دین کو سفاک درندہ، بے رحم بھیڑیا، پتھر دل، ظالم اور وحشی کہا۔۔ یہ انبیاء کے وارث ہیں۔ انکی شان میں گستاخی نہ ہو۔۔ چہرے پر داڑھی، سر پر ٹوپی، ٹخنوں سے اوپر شلوار، مجسم سنت۔۔ اسے کوئی کچھ نہ کہے۔۔ توہینِ مذہب ہے یہ۔۔ اب دیکھیں ناں اگر ریاست اسے گرفتار کر لے تو اس بچے کا جنازہ کون پڑھائے گا آپ نے سنا نہیں کہ اگر علماءِ دین نہ ہوں تو کون پڑھائے گا آپ کے جنازے اور نکاح؟
خبردار! دراصل غلطی اس بچے کی ہے جو اتنا نازک واقع ہوا ورنہ اس جیسے لاکھوں بچے روزانہ جسمانی، روحانی، ذہنی اور تو اور جنسی تشدد برداشت کرتے ہیں جنکی خبر بھی نہیں بنتی۔ بھوک سے نچڑی ہڈیوں پر جہنم کی آگ سے پاک ہونے والے نشان کوئی نہیں دیکھتا۔ میرا تو خیال ہے اس نے مر کر محض مدارس کے خلاف خبر لگوانے کے لیے سازش کی۔ کہیں یہ بچہ کسی یہودی و نصرانی لابی کا حصہ تو نہیں تھا؟ سوچیں۔۔
خبردار! کہاں ہیں اسکے ماں باپ؟ بھئی جنت آپ نے کما لی۔۔ جیتے جی جنت کی یہ "بشارت" ملنے پر آپ کو بہت بہت مبارکباد۔۔ جلدی جلدی کسی اس سے بھی بڑے عالمِ دین کے رابطہ کرنے پر آپ اس بھیڑیے کو معاف کریں، صلح کریں اور اس ملاں کو دین کی "خدمت" کا اور دوسرے بچوں کو اپنے اپنے ماں باپ کی جنت کمانے کا "موقع" دیں اور ویسے بھی کیسی معافی، کیسی صلح؟ آپکو جنت دلوانا بے چارے ملاں کا کوئی جرم تھوڑی ہے۔۔
خبردار! جو آپ نے یہ سوچا کہ اسکے چلانے، کراہنے، کانپنے، کسمسانے، بلبلانے، ٹوٹ کر بکھرنے، منتیں کرنے، ہاتھ جوڑنے اور زندگی کی بھیک مانگنے پر دل کی جگہ بچوں سے شفقت کی حدیث کی قبر کا کتبہ لیے ملاں کو رحم کیوں نہیں آیا، اسے یہ خیال کیوں نہیں آیا کہ کہیں یہ مر نہ جائے۔۔ تو بات سیدھی سی ہے حروفِ قلقلہ کی ادائیگی ٹھیک نہ ہو تو یہ کلام اللہ کی بے حرمتی ہے۔ گستاخی ہے اور گستاخی کی سزا موت ہے۔۔
خبردار! موت بر حق ہے۔ میں ثابت کر سکتا ہوں۔ قاتل ملاں کی طرف سے پہلی چھڑی، پائپ، یا تار لگنے سے لے کر اس معصوم نے سسکیوں اور ہچکیوں میں "ماں" کہا ہوگا جس کے پیروں کے نیچے اسکی جنت تھی لیکن ماں نے سوچا کہ اسکی سعادت کیوں خراب کرے جب وہ اپنی جنت چھوڑ کر ماں کی جنت کما رہا ہے۔ پھر درد کی شدت و انتہا پر معصوم جسم کے قفس سے جان نکلتے اس نے کراہتے ہوئے باپ کو پکارا ہوگا لیکن وہ چھے جنتیوں کی قطار کیوں خراب کرتا اگر اس کے آنے پر کوئی اسکی جگہ لے لیتا تو؟
پھر نزع کی آخری ہچکی میں اس نے ریاست کو پکارا ہوگا لیکن اسلام کے نام پر بننے والی ریاست اب جنت کے راستے کی رکاوٹ بن کر "قراردادِ مقاصد" کی خلاف ورزی کرتے اچھی لگتی کیا؟ اور درد، ازیت، دکھ اور کرب کی آخری حد پر ٹیسوں، کراہوں، سسکیوں سے مجبور، زخموں سے چور جسم سے روح پرواز کرتے اس نے خدا کو پکارا ہوگا اور اگر قادرِ مطلق خدا نے بھی اسکو نہیں بچایا تو مان لیں اسکی لکھی ہوئی ہی ایسی تھی موت اور زندگی خدا کے ہاتھ میں ہے۔۔
خبردار! آپ صرف یہ سوچیں کہ پتا نہیں مولوی نے اسے جنت رسید کرتے کلمہ پڑھوایا یا نہیں۔۔ اسکی موت کلمے پر ہوئی یا نہیں۔۔ اگر یہ بغیر کلمہ پڑھے مر گیا ہوگا تو جنت میں تو نہیں جا سکے گا۔۔ یہاں بھی اپنی جنت سے دور وہاں بھی دور۔۔
حرفِ آخر یہ ہے کہ جنت کمانا آسان نہیں، اگر جنت کمانے کے راستے میں موت واقع ہو جائے تو آدمی شہید ہوتا ہے اور شہید کبھی مرتا نہیں۔۔ یہ بچہ زندہ ہے۔۔ اسطرح کی زندہ لاشیں ہر مدرسے میں سانسوں کی جگہ سسکیاں لیتی ہیں۔۔ یہ سسکیاں لیتی رہیں گی۔ خبردار! یہ آخری لاش نہیں۔

