Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Waqas Rashid
  4. Jharu

Jharu

جھاڑو

ماں ! تو نے جھاڑو دے دیا، میں نے کچھ خواب یہاں رکھے تھے۔۔ اوہو۔۔ اب کہاں سے ڈھونڈوں انہیں۔۔ کہاں تلاش کروں۔ ماں۔۔ دراصل اوپر کہیں شیلف پر اس لیے نہیں رکھے تھے کہ کہیں تیرے کپکپاتے ہاتھوں سے گر کر ٹوٹ نہ جائیں اور تیری روتی آنکھیں اور بوڑھے ہاتھ انکی کرچیاں چن نہ سکیں۔۔

ہاں یہ فلک کے خواب تھے مگر میں نے زمین پر رکھ دیے غلطی میری ہے۔۔ مگر کیا کرتا سوچا کسی کی نظر میں نہ آئیں۔۔ کوئی چرا نہ لے۔۔ ہمارے پاس خواب ہی تو ہوتے ہیں وہ بھی چوری ہو گئے تو۔۔

بس ماں۔۔ مت رو۔۔ پہلے تو نے میرے خواب بننے میں اپنی آنکھیں چن دیں۔۔ اب انکے کھونے پہ اپنی آنکھوں کا موتیا بھی نہ بہا دینا۔۔ پہلے ہی تیرے نصیب کے چمن میں یہ واحد پھول کھلے ماں۔۔

اچھا ماں۔۔ اب میں چلتا ہوں ان خوابوں کو ڈھونڈنے خاک اور کچرے کے ڈھیر پر۔۔ کہیں سرکار انہیں لے نہ جائے۔۔ ہمارے خواب یہاں کی سرکاریں لے جاتی ہیں ماں۔۔

مت روک مجھے ماں۔۔ جانے دے خدارا۔۔ وہ خواب میری زندگی ہیں۔۔ میں نے سارا بچپن اور نوجوانی ان خوابوں کے گھروندے بنانے میں گزاری ماں۔۔ کیسے بھول جاؤں انہیں۔۔ چلتا ہوں ماں۔۔ میرا انتظار نہ کرنا۔۔ نہ جانے مجھے کتنا وقت لگے۔۔ سو جانا۔۔ بہت رتجگے کاٹے تو نے پہلے ہی میری خاطر۔۔ میرے خوابوں کی خاطر۔۔ خداحافظ

***

ماں ! ماں ! تو کہاں ہے ماں۔۔ سامنے آ ماں۔۔ دیکھ میں لوٹ آیا۔۔ ہاں دیر لگ گئی۔۔ بہت دیر۔۔ مگر پہلے تو تو رستے پر ہوتی تھی۔۔

آج رستے پر تیری آنکھوں کے دیے نہیں تھے۔۔ ہاں واپسی کے رستے ہمیشہ اندھیرے ہوتے ہیں۔۔ مگر اتنا اندھیر ماں۔۔

کہاں ہے میری ماں۔۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ میری آنکھیں بھی ان خوابوں کی زینت ہوئیں۔۔ مگر تو دکھائی نہ دیتی سنائی تو دیتی۔۔ سنائی نہ دیتی۔۔ سجھائی تو دیتی۔۔ سجھائی نہ دیتی۔۔ تو تیرا لمس تیری خوشبو تجھ تک رسائی تو دیتی۔۔ مگر تو نہیں ہے۔۔ تو ہے کہاں ماں؟

دیکھ خواب ڈھونڈنے گیا تھا تیرا لعل۔۔ زمانے کے سمندر سے تعبیر کے گوہر ڈھونڈ لایا۔۔ یہ گوہر تیری پلکوں پر سجانے ہیں تو کہاں ہے۔۔

اچھا مجھے معاف کر دے۔۔ تعبیر ڈھونڈنے میں دیر تو لگتی ہے ماں۔۔ جفا نے تیرے ہاتھوں سے قسمت کی لکیریں مٹا دی تھیں۔۔ اہلِ جفا کے ہاتھوں میں قسمت کی نہیں محنت کی لکیریں ہوتی ہیں۔۔ مفلسوں کے بخت کے آسمان پر قسمت کے ستارے نہیں بخت کی زمین پر ہمت کی دیے ہوتے ہیں جو انکے لہو سے جلتے ہیں۔ چھالوں والے ہاتھوں پر خود زائچے بنانے میں وقت تو لگتا ہے ماں۔۔ تجھ سے بہتر کون جانتا ہے۔۔ اچھا معاف کر دے۔۔ اب کہیں نہیں جاؤں گا۔۔ تیرے قدموں میں بیٹھوں گا۔۔ سامنے تو آ۔۔

کیا؟ یہ رونے کی آواز کیسی ہے؟ کیا کہا۔۔ میں نے کہا تھا سو جا اور وہ مٹی اوڑھ کے سو گئی۔۔ میں نے کہا انتظار نہ کرنا تو اس نے راہوں پر بچھائی ازل سے منتظر آنکھیں ہی موند لیں۔۔ نہیں۔۔ ماں۔۔ نہیں۔۔ تو ایسا نہیں کر سکتی۔۔ نہیں یہ نہیں ہو سکتا۔۔ ماں۔۔ ماں۔۔ ماں ں ں ں

***

ماں۔۔ تو جب اپنی آنکھوں کی کرنوں سے میرے خواب بنتی تھی تو میں بہت کڑھتا تھا۔۔ سوچتا تھا ایک دن جب بختوں کے ستارے روشن ہوں گے تو سارے تیری پلکوں میں ٹانک دوں گا۔۔ تجھے تیری بینائیاں لوٹاؤں گا۔۔ دیکھ میں تیری آنکھیں لایا ہوں ماں۔۔ میں تیری لحد پر وہی جھاڑو دینے آیا ہوں ماں۔۔ یہ کتبہ بھی لکھ کے لایا ہوں۔۔ ماں۔۔ ماں

"جھاڑو"

(ماں کی آنکھوں کے نام)

ماں تو نے جھاڑو دے ہے دیا

کچھ خواب یہیں پر رکھے تھے

وہ خواب فلک کے خواب تھے ماں

پر میں نے زمیں پر رکھے تھے

سوچا تھا نہ شلف پہ رکھوں ماں

کہیں گر کر ٹوٹ نہ جائیں ماں

پھر تیرے بوڑھے ہاتھ انہیں

تاعمر نہ یوں چن پائیں ماں

کہیں ان پہ کسی کی نظر پڑے

کہیں ان کو کوئی نہ لے جائے

میرے خواب چرا کر جیون کا

احساسِ زیاں نہ دے جائے

پر سچی ہے تو خواب تھے وہ

تیری بینائی سے بُنے ہوئے

تیری آنکھوں کے سب تارے تھے

ان ہی خوابوں میں چُنے ہوئے

باہر کچرے کے ڈھیروں میں

میں انکو ڈھونڈنے جاتا ہوں

سرکار انہیں نہ لے جائے

جلدی سے ڈھونڈ کے لاتا ہوں

جب تک وہ خواب نہ مل جائیں

میں لوٹ کے گھر نہ آؤں گا

میری راہ نہ تکنا سو جانا

میں دور تلک ماں جاؤں گا

اچھا ماں اب میں چلتا ہوں

مت مجھکو ٹوک خدا حافظ

وہ خواب میری منزل ہیں ماں

رستہ مت روک خدا حافظ

***

ماں! ماں سامنے آ تو کہاں گئی

ہاں دیر سے لوٹ کے آیا ہوں

وہ خواب تھے ایسے گم گشتہ

دیکھ انکو ڈھونڈ کے لایا ہوں

جب خواب کہیں پر کھو جائیں

تعبیر میں دیر تو لگتی ہے

ہاتھوں سے بنائی جائے جو

تقدیر میں دیر تو لگتی ہے

ایسے بھی بھلا کوئی کرتا ہے

پہلے تو تو رستہ تکتی تھی

یہ منزل ہے وہ جس کے لیے

تو ساری عمر سسکتی تھی

تو مجھکو معافی دے دے ماں

تو کہاں پہ آخر کھوگئی ہے

میں نے ہی کہا تھا سو جانا

تو مٹی اوڑھ کے سوگئی ہے

ماں میں ہر روز سسکتا تھا

جب خواب تو میرے بُنتی تھی

اپنی آنکھوں کی سب کرنیں

ان خوابوں میں جب چنتی تھی

میں عہد یہ خود سے کرتا تھا

تیری آنکھیں میں لوٹاؤں گا

یہ کرنیں واپس چنوں گا میں

جب خواب وہ ڈھونڈ کے لاؤں گا

اب انکا میں کیا کروں اے ماں

تری آنکھیں ساتھ میں لایا ہوں

میں تیری لحد پر اب اے ماں

وہی جھاڑو دینے آیا ہوں

Check Also

Heera Mandi Se Cafe Khano Tak Ka Safar

By Anjum Kazmi