Janab Farnood Alam Se Pehli Mulaqat
جناب فرنود عالم سے پہلی ملاقات

آج وہ شاہکار طلسماتی ہاتھ تھامنے کا اعزاز حاصل ہوا جو لفظوں کا جادوگر ہے۔ جو نوکِ قلم سے اماوس کی رات ایسے کاغذ کے آسمان پر لفظوں کے ستارے یوں ٹانکتا ہے کہ قاری کے تصور میں تاروں بھری رات جگمگا اٹھتی ہے۔ جو بے آب و گیاہ قرطاس پر حروف کے بیج بو کر روشنائی سے انہیں یوں سیراب کرتا ہے کہ ان سے لفظوں کی کونپلیں پھوٹتی ہیں اور یکا یک مضمون کا ایک چمن سا آباد ہو جاتا ہے۔ جو لفظوں کے موتیوں کو تراش کر جملوں کے دھاگے میں یوں پروتا ہے کہ آنکھیں گویا تحریر کی تسبیح پڑھتی ہوں۔ کاغذ کو لفظوں کی تجربہ گاہ بنا کر مختلف موضوعات کی نئی ایجادات کرتے ایک ادبی سائینسدان کا ہاتھ۔۔ کیا لکھوں کہ اظہار اس عقیدت کی طمانیت کر سکے جو احساس میں جاگزیں ہے۔
زرخیز دماغ، پر سوز دل اور پر تاثیر روح کی جمالیاتی تکون لیے فطرت کا ایسا عاشق نہیں دیکھا۔ کیا ہی کہنے۔۔ ایسے شخص کا قلم تھامنا قاری پر احسان ہے۔ اک ذرا توقف۔۔ میرے لفظوں پر مبالغے کی مہر ثبت کرنے سے پہلے ایک بار اس "دیوار" کو تو دیکھ لیجیے جہاں لفظ دن میں تتلیاں بن کر جگمگاتے ہیں رات میں جگنو ہو کر ٹمٹماتے ہیں۔
انسانیت ارتقاء کے راستے پر چلتے عہود کے سنگِ میل طے کرتی پتھر کے دور سے آج مصنوعی ذہانت کی منزل تک پہنچ چکی۔ سفر ابھی جاری ہے۔ ہر عہد اپنے ساتھ تہزیب و تمدن کی نئی تبدیلیاں لے کر آتا ہے۔ بنیادی طور پر یہ علم ہے جو اس مسافت کا محرک ہے۔ علم جسکی بنیاد پر انسان فرشتوں کا مسجود ٹھہرا۔ یہ علم ہی ہے خدا نے انسانیت کو اپنا تعارف کروانے کے لیے جسکا راستہ اپنایا۔ خدا سے انسان کا رشتہ قلم، کتاب اور تعلیم سے مزئین ہے۔
دورِ جدید کو Age of Visualization کہتے ہیں سو کتاب بینی جاتی رہی۔ اب لوگ پڑھتے نہیں دیکھتے ہیں۔ یہ ویڈیوز کا دور ہے۔ یہ نظریہ آپ نے پڑھ سن رکھا ہے۔ طالبعلم لکھ چکا کہ سرکنڈے کا قلم بناتی انگلی خود قلم ہوئی اور گھاس پھوس کا کاغذ اب ایک حساس الیکٹرونک اسکرین کے کاغذ میں بدل چکا۔ اس نادرِ روزگار ہستی کے قلم کا نایاب کمال مگر یہ ہے کہ خوب حل نکالا اس قضیے کا۔ انکی تحریر ظاہری آنکھوں سے پڑھی دل کی آنکھوں سے دیکھی جاتی ہے۔
کسی ندیا کے پاس پڑاؤ کرکے قلم تھامیں تو اسکی لہریں موبائل سکرین پر لہرانے لگتی ہیں۔ بانسری یا رباب کی صدا لفظوں سے چھنتی سماعت کے پردوں کو گدگداتی ہے۔ پہاڑوں کا رخ کریں تو کاغذ سمت نما آلہ بن جاتا ہے مشرق مغرب اور جنوب کے قارئین انکے نوکِ قلم سے تصور کی سمت شمال ہی میں محسوس کرتے ہیں۔ کسی سیلِ رواں کے کنارے گھاس میں اگے پھول انکے قلم سے وہ جلا پاتے ہیں کہ پڑھتے سمعے انکی خوشبو چہار سو رقص کرنے لگتی ہے۔ دور افتادہ بے آباد علاقوں میں موجود رومانوی سکوت کی منظر کشی کریں تو شورزدہ شہری بستیوں میں پڑھنے والوں کو ہر طرف خاموشی محسوس ہونے لگتی ہے۔ کہیں کسی پہاڑی پر بنی کٹیا ہو کہ شہری بستی کا کوئی ڈھابہ، ایک ہاتھ میں چائے کی پیالی اور دوسری میں قلم تھامیں تو قاری کی رگوں میں دوڑتے لہو میں کیفین کی سطح بلند ہونے لگتی ہے۔
کیسے بھلا کیسے اپنے شاہکار قلم کی نوک سے نباتات و جمادات و حیوانات میں زندگی کریدتے شخص کی نگاہ سے آس پاس مر مر کر جیتے اور جی جی کر مرتے انسان محو ہوتے۔ میری نگاہ میں کسی شخص کے سماجی معمار کہلوانے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ بحیثیت باپ اپنی بیٹی کو خود اعتمادی دے۔ اس ضمن میں قابلِ رشک پایا صاحب بہادر کو۔
کہیں جنگ زدہ لوگوں کی گھائل روحوں سے بارود صاف کرکے زخموں پر لفظوں کے مرہم رکھتے، کہیں ریاستی جبر و استبداد کے خلاف مظلوموں کے سینوں میں گھٹی ہوئی سسکیوں اور آہوں میں اپنی صدا شامل کرتے، کہیں جمہور کی سلطانی کے جاں بہ لب خواب کو اپنے لفظوں کا لہو عطیہ کرتے، کہیں انسانی حقوق کو محرومی کی قبر میں زندہ درگور ہونے سے بچانے کی سعی کرتے۔ کہیں یہ کام کرتے دوسرے لوگوں کی ستائش سے ان پر حوصلہ شکنی کے نشتروں میں حصہ دار بنتے۔ کہیں ملائیت کی گھٹن میں دم توڑتی انسانیت کی لفظوں کی سانسوں سے سی پی آر کی مسیحائی کرتے، کہیں اپنی عظیم پہلی درسگاہ کی ممتا کے تذکرے سے دل پگھلاتے اور کہیں اپنے کسی استادِ محترم کے احوال پر گویا قلم ہی توڑ ڈالتے۔
ایک چیز کا تذکرہ نہ کرنا تشنگی کا سبب ہوگا۔ سچائی کی اس منزل پر رختِ سفر میں لطافت اور بزلہ سنجی ساتھ لانا عظمت ہے۔ آنسووں کے ہنگام مسکراہٹ کو کاندھا دینا ریاضت ہے۔ یہ سب جمالیات سے عشق بنا ممکن نہیں۔ تلخ بات کو بھی گاہے ایسے لطیف طنز و مزاح کے پیرائے میں کہہ جاتے ہیں کہ رشک آتا ہے۔ انسان ہنس چکے تو پیغام خاموشی سے دل میں اتر جاتا ہے۔
اسلام آباد لٹریری فیسٹیول میں انکا پروگرام جناب منیر نیازی کی نظم کا احوال ہوا "ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں"۔ پارکنگ میں موٹر سائیکل کھڑی کرتے اپنے یار بھائی وقار سے کہا یار۔ پروگرام سے تو لیٹ ہو گئے خدا کرے صاحب بہادر سے ملاقات ہو جائے۔ خدا شاہ رگ سے قریب نکلا۔ پروگرام "سوشل میڈیا فری سپیچ ورسز سینسرشپ" آخری دموں پر تھا۔ اقبال ہال کی سیڑھیوں سے اوپر چڑھتے میں نے انہیں دیکھ لیا۔ دو لوگوں سے مل کر اپنی فراخ دل مسکراہٹ کے ساتھ میری جانب بڑھے تو فیض صاحب یاد آئے "جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آ جائے"۔ ساتھ انکا ایک اور مداح ہو لیا جو کہنے لگا میں آپ کو فالو اس لیے کرتا ہوں کہ آپ قومی سطح پر ہماری آواز بنتے ہیں وہ کہہ دیتے ہیں جو ہم کہنا چاہتے۔ میں نے سوچا دراصل وہ کہہ دیتے ہیں جو ہم کہنا چاہتے ہیں، کہہ نہیں سکتے۔ بہت خوشی ہوئی مل کر۔ رات سونے سے قبل انہیں لکھا۔
مرشدی! خدا پر ایمان تازہ کر دیا آپ نے۔۔ پارکنگ میں موٹر سائیکل کھڑی کرتے بھائی سے کہا یار پروگرام سے تو لیٹ ہو گئے خدا کرے فرنود عالم صاحب سے ملاقات ہو جائے اور چند ہی لمحوں میں دعا قبول ہوگئی۔۔ جس اپنائیت سے آپ ملے، عمر بھر کے لیے مقروض کر گئے۔۔
دل سے شکر گزار۔۔ ایک اور طرح سے بھی۔۔ دل کے صنم خانے میں بت تراشنا عمر بھر کی ریاضت ہے۔۔ ٹوٹتے بنتے رہے۔۔ تصور کے بت حقیقت سے مختلف ہوتے گئے ٹوٹتے گئے۔۔ میرے دل میں آپکے بت کی پیشانی پر کوئی بل نہ تھا۔۔ آپ نے کشادہ جبیں میرے لیے وا کرکے مجھے ہی نہیں اپنے بت کو بھی جلا بخشی۔۔
محبت و عزت آپکے لیے۔۔ سلامت رہیں۔۔
جواب وہ تھا کہ وہ نہ دیتے تو کون دیتا۔۔
"ارے ارے اس میں بت اور صنم کی کیا بات۔ مجھے بہت خوشی ہوئی آپ سے مل کر بلکہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ آپ یہاں۔ آپ سے ملاقات نہیں تھی مگر لگتا یہی تھا کہ ملاقات ہے۔ جلد ملاقات ہوگی تفصیل سے"۔
لٹریری فیسٹیول والوں کا خصوصی شکریہ کہ ان کے توسط سے دورِ جدید کے ایک عظیم مفکر و قلمکار سے میری پہلی ملاقات حاصلِ حیات ہے۔۔ قلم و کتاب جئیں علم جاوداں رہے۔
شکریہ فرنود عالم صاحب۔۔ آپ جئیں کہ آپ جیسوں کے دم سے زندگی کے یہاں جی اٹھنے کی امید کو بقا ہے۔۔
(ایک فی البدیہہ شعر ان کے نام)
عالم میں وہ ہیں یا ان میں ہے موجود عالم
اس سوچ میں ڈال دیتے ہیں فرنود عالم

