Janab e Sahil Adeem Sahab
جنابِ ساحل عدیم صاحب
آپ کا ایک پرستار ہونے کے ناطے میں نے آپکی تقریباً تمام ویڈیوز دیکھ رکھی ہیں۔ ان ویڈیوز میں سب سے زیادہ جن دو چیزوں کا تذکرہ ملتا ہے۔ ان میں ایک یعنی "ڈوپامین" پر میں مضمون لکھ چکا دوسری پر حاضرِ خدمت ہے۔
آپکی وہ ویڈیو میرے دل پر نقش ہے۔ جس میں آپ نے اپنے ہاتھوں اور بالوں کو ہلا ہلا کر قرآن کی آیت کے تناظر میں مجھے اب تک ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے پر غیرتِ ایمانی سے عاری ہونے کا طعنہ دیا تھا۔ آپکی وہ ویڈیو تو میری آنکھوں سے سیدھا دماغ پر جا کر چسپاں ہوئی، جس میں آپ جوشِ خطابت سے مجھے بتا رہے تھے کہ پولینڈ کی فلاں فلاں لباس میں کشتی پر اس ملک کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے پہنچنے والی لڑکیاں مجھ سے ایمان کے لحاظ سے بہتر ہیں۔ اور وہ ویڈیو تو یقین کیجیے روح میں اتر گئی تھی۔ جس میں آپ نے حتی کہ جرنیلوں کو بوڑھے ہو کر طبعی موت مرنے کا طعنہ دیتے ہوئے فرمایا کہ آپ انکی جگہ ہوتے تو میدانِ جنگ میں شہید ہونا پسند کرتے۔
اور آپکی وہ تمام ویڈیوز جس میں رسول اللہ ص سے کے کر خالد بن ولید اور خالد بن ولید سے کے کر صلاح الدین ایوبی تک کی مثالوں کے ساتھ آپ نوجوانوں کا لہو گرماتے نظر آتے وہ آج کے عالمی منظر نامے میں رہ رہ کر یاد آتی رہیں۔
آپ کی ویڈیوز دیکھ دیکھ کر میرے اندر جزبہِ ایمانی کوٹ کوٹ کر بھر چکا ہے۔ اتنا کہ بس آپ کے نعرہِ تکبیر بلند کرکے علمِ ج-ہ-ا-د بلند کرنے کی دیر ہے۔ اور مجھے لگتا ہے کہ آپ کے ملینز ویورز میں سے آدھے تو آپکے پیچھے کھڑے ہوئے کہ ہوئے وگرنہ وہ تو کہیں نہیں گئے، جو پیسے دے کے آپکے لیکچرز لیتے ہیں۔ اگر وہ نہیں تو کم سے کم یوتھ کلب والوں کے ڈنڈ ڈولے تو تھے ہی آج کے لیے۔
آپ کافی دنوں سے غائب تھے تو جب ا-س-ر-ا-ئ-ی-ل کے آئرن ڈوم پر ف-ل-س-ط-ی-ن کی ایک تنظیم ح-م-ا-س کی جانب سے حملہ ہوا تو مجھے لگا کہ ہو نہ ہو اسکے ماسٹر مائنڈ آپ ہی ہیں۔ اور اتنے عرصے کی موٹیویشنل ویڈیوز میں دنیا جہان کی غیرت و ایمان آج علم سے عمل میں ڈھل گئے اور آپ مسلمانوں کے چند ممالک کی فوج سے سبقت لے گئے، جنکو آپ تلواروں کے رقص کا طعنہ دیتے تھے۔
پاکستان میں جب اس حملے کو لے کر مختلف دیرینہ کاروبار چمکنے لگے۔ ہمیشہ کی بے معنی دعائیں اور بامعنی چندے کی مہم شروع ہوگئی۔ اسلام کے نام پر سیاسی دکانداری چمکنے لگی تو مجھے ایک ہی مردِ مجاہد کا خیال آیا کہ دیکھو کریڈیٹ کس کا ہے اور لے کون رہا ہے۔ بہرحال میں چشمِ تصور سے آپکو مشرق کی جانب سے ایک گھوڑے پر فتح کا علم تھامے اپنے بہترین تراش کے برینڈڈ سوٹ کے اوپر زرہ پہنے آتا دیکھ رہا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ دل میں آپکی آمد کا جشن مناتے اور آپ پر پھول نچھاور کرتے یہ بھی سوچ رہا تھا کہ آپ کو گلہ بھی دونگا کہ مجھے کیوں لے کر نہیں گئے۔
بہرحال میں نے آپکی سلامتی اور کامیابی کی دعائیں کر رہا تھا۔ میرا دل اس تجسس میں تھا کہ آپ اپنی من چاہی شہادت کا رتبہِ عظیم پائیں گے یا غازی بن کر لوٹیں گے سو اسی خبر گیری کے لیے کل سوشل میڈیا کا پٹہ چڑھایا تو آپ کو دیکھ کر دل پارک پارک ہوگیا۔ میں بھی آپکی طرح ماڈرن ٹچ دے رہا ہوں، کیونکہ اب وہ باغ کہاں رہے جی اب تو چپس کے ریپرز، جوس کے ڈبوں اور سگریٹ کے ٹوٹوں والے پارک ہی ہوتے ہیں۔
ہیں۔ ں۔ ں۔ ں۔۔ یہ کیا؟ آپ تو بیٹھے انجینئیر علی مرزا صاحب کے اس متعلق بیان کا اپنے مخصوص انداز میں پوسٹ مارٹم کر رہے تھے۔ آپ فرما رہے تھے کہ اگر ہم حج پر جا سکتے ہیں تو ف۔ ل۔ س۔ ط۔ ی۔ ن کیوں نہیں اور آپ نے ایک بہت بڑی بات کر دی کہ اگر نبی ص غزوہِ خندق آج کر رہے ہوتے تو مسلمان آج بھی کہہ رہے ہوتے کہ ہم اتنی دور کیسے جا سکتے ہیں۔۔ اللہ اکبر۔۔
او بھائی۔ یعنی۔۔ مطلب۔۔ آپ بھی۔۔ آپ ابھی بھی یہاں بیٹھ کے اپنے بالوں کو سٹریٹنر لگا کے برینڈڈ پینٹ کوٹ پہن کے دھرمندر کی طرح گریبان کھول کے اور نیسلے کی چھوٹی پانی کی بوتل ہاتھ میں پکڑ کے پاڈکاسٹیں کر رہے ہیں۔ آپ آج بھی اپنی ایک دہائی کی آئیڈیالوجی کو عملی جامہ پہنانے کے وقت یہاں ویڈیوز بیچ رہے ہیں۔ اسکا مطلب آپ وہی پرانا جہادی چورن نئی پیکنگ میں بیچتے ہیں ڈوپامین کی اضافی خوبیوں کے ساتھ۔
حد ہے خدا کی قسم۔ قرآن کی آیتوں کو اپنے لا یعنی قسم کے فلسفوں میں مفہوم کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے اور ان سے محض کھوکھلی خودنمائی کے مطالب نکالتے لوگ قرآن کی سیدھی آیت کو بھی کبھی پڑھیں، جس کا عملی ثبوت ہیں وہ چلتے پھرتے "اے ایمان والو وہ بات کہتے کیوں ہو جو کرتے نہیں"۔
ساحل صاحب! آج آپ سے ایک سادہ سا سوال ہے۔ کوئی لگ بھگ دس سال سے آپ نوجوانوں کو جس ف۔ ل۔ س۔ ط۔ ی۔ ن کا نام مہنگے داموں بیچ رہے ہیں۔ وہاں پہنچنے کی تلقین کی رہے ہیں، نہ پہنچنے کو ایمان و غیرت سے عاری ہونا قرار دے رہے ہیں۔ آج آپ وہاں خود کیوں نہیں گئے؟
یقیناً اسکی تاویل آپ اس آئیڈیالوجی سے کریں گے، جس پر آپ تبرہ کرتے ہیں کہ بھئی ریاست اعلان کرے تو ہم جائیں۔ تو بھیا یہی تو ہم کہتے ہیں کہ ریاست اقوامِ عالم کا ایک حصہ ہے۔ یہ صدیوں پرانے قبائلی معاشرے کی کوئی ریاست ہے نہ ہی خلافت۔ اسکا نظم آج کے اسلوب پر ہی چلنا ہے۔ جب اسکو آپ عملی طور پر تسلیم کرتے ہیں تو بھیا یہ علمی طور پر بھی مان جائیں۔ لیکن آپ نہیں مانیں گے، کیونکہ اس سے نئی پیکنگ میں اضافی خوبیوں کے ساتھ بکتے چورن کی سیل متاثر ہوگی۔
مذہب فروشی اور دین کا بیوپار ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے اور ہوتا رہے گا۔ یعنی اسکے خریدار کبھی ختم نہیں ہوتے۔ یہ بیوپار ہر دور کے مواصلاتی و اطلاعاتی ذرائع کو استعمال میں لاتا ہے۔ ساحل عدیم صاحب اور یوتھ کلب کے سکس پیک پوڈ کاسٹ مجاہدین نے اپنی ظاہری ہئیت میں جدت کے ذریعے اس خریداری کی نفسیات کو سوشل میڈیا پر بہت کامیابی سے گھیرا ہے۔ یہ ہاتھی کے وہی دانت ہیں، جو کھانے کے اور ہیں دکھانے کے اور۔ "ج۔ ہ۔ ا۔ د " کی ہنڈیا چڑھا کر نوجوان لہو کو ایندھن کے طور پر استعمال کرکے ہڈیاں اپنے دسترخوان پر چننے کا عمل ہمارا دیکھا بھالا ہے۔ آج کا چندہ بھی ڈیجیٹل ہے بھیا۔
ساحل صاحب اپنے نام کے مصداق ساحل پہ کھڑے ہو کے بھنور میں ڈوبنے والوں کو اپنی تیراکی کے قصے سنا کر خراج وصول کرتے ہیں۔
بندہ پوچھے جو لوگ وہاں پہنچتے ہیں نہ دوسروں کو کہتے ہیں وہ آپ کی نظر میں ایمان اور غیرت سے عاری ہیں اور آپ جنہیں یہ بتانے کے پیسے لیتے ہیں اور ان پر تبرہ کرکے انکے پیسوں سے بڑی سی گاڑی میں بیٹھ کر نیا برانڈڈ سوٹ زیبِ تن کرکے اگلے سیشن میں وہی راگ الاپنے پہنچ جاتے ہیں تو آپ کیا ہوئے؟
ساحل عدیم صاحب ایک انتہائی موزوں کیس ہیں، کشمیر سے لے کر فلسطین تک کے بے چارے مظلوم و بے بس لوگوں کے سمجھنے کے لیے کہ ہر کاروبار میں بیچنے کے لیے کچھ نہ کچھ درکار ہوتا ہے، کوئی نہ کوئی پراڈکٹ۔ جہادی کاروبار میں مظلوم فلسطینی ح۔ م۔ ا۔ س سے لے کر ساحل عدیم صاحب تک وہی پراڈکٹ ہیں۔ اسی کاروبار کے ایک اور سرخیل اور لاثانی کردار مولانا فضل الرحمن اعلان غزہ جانے کا کرتے ہیں۔ اور یہ میڈیا ہائپ بنا کر قطر میں پہنچ کر ح۔ م۔ ا۔ س کے سربراہ سے ملاقات کی ویڈیوز جاری کرتے ہیں۔ صرف اس سوال کا جواب ہی تلاش کر لیا جائے تو میرے جیسوں کا واویلا سمجھ میں آ جاے کہ ا۔ س۔ ر۔ ا۔ ی۔ ل میں اشتعال انگیزی کرکے ظالم دشمن کو بھرپور سفاکیت پر لا کر مظلوم ف۔ ل۔ س۔ ط۔ ی۔ نی۔ ی۔ و۔ ں کی لاشیں قطر میں کیوں گن رہے ہیں۔ کیا یہ ج۔ ہ۔ ا۔ د ہے؟
کاش کہ دنیا کا ہر مظلوم ایک آنکھ اپنی لاشوں پر رکھے اور دوسری اپنی طرف کے کفن فروشوں پر، مزمت قاتل کی بھی کرے اور اس بیوپاری کی بھی کیونکہ دونوں اسے مرتے دیکھنا چاہتے ہیں۔