Thursday, 02 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Waqas Rashid
  4. Gosht

Gosht

گوشت

ماں میں نے گوشَت کھانا ہے بس مجھے نہیں پتا۔۔ تو نے اتنی مدت سے وعدہ کر رکھا ہے۔۔ پر تو نہ خود پکا کر دیتی ہے ناں تیری مالکن نے کبھی تجھے بچا کھچا دیا۔۔ مجھے بکرے کا گوشَت کھانا ہے بس۔۔ کالو کی آواز اونچی ہوگئی تھی۔ اس کا اصل نام کوئی نہیں جانتا تھا۔ ایک غریب دوسرا یتیم تیسرا خانہ بدوشوں کی بستی کی ایک کمی عورت کا بیٹا۔ ایسے میں اسکا اصل نام یہی تھا بس۔۔ کالو۔۔

گوبر کے اپلوں پر س۔ س۔ سی کی آواز آئی۔۔ تھوڑا سا دھواں اٹھا۔ یہ دھواں پینو کے دل سے پہلے اٹھا تھا۔ اپلوں سے بعد میں۔۔ دل کیا وہاں بھی شاید اپلوں کی راکھ کا ایک ڈھیر ہی تھا۔۔ ماں میں نے گوش۔۔ مممیرے مرنے کھپنے پہ کھا لئیں تو گوشَت کالو۔۔ تھوڑے ہی دن ہیں۔۔ دس برس کا کالو اپنی نحیف ماں پینو کی دھاڑ سن کر سہم گیا۔

وہ رات عجیب تھی۔۔ جھونپڑی میں بچھی دری پر کالو تھا اور اسکی ماں پینو۔ پینو درد سے کراہ رہی تھی۔ کالو کو سخت نیند آ رہی تھی۔۔ مگر وہ اٹھا اور اپنی ماں کی ٹانگیں دبانے لگا۔ پینو کو جیسے قرار سا آ گیا۔ کہنے لگی۔۔ سو جا میرے لعل۔۔ تجھے کل گوشَت لا کر کھلاؤں گی۔

کالو نے سر اپنے سرہانے پر رکھا مگر نیند نہ جانے کہاں کھو گئی۔ اسکی آنکھوں میں کبھی گوشت لہرانے لگتا کبھی اپنی ماں کا ہڈیوں سے اٹا وجود۔ اسکے دہن میں گوشت کا ذائقہ آنے لگا۔ اسکا دل تھا بس صبح کے بغیر ہی اگلی رات آ جائے اور اسکی جُھگی میں گوشت کے سالن کی خوشبو پھیلی ہو۔ کل جشن کا سماں ہوگا۔ نہ جانے رات کے کس پہر اسکی آنکھیں تعبیر کے بوجھ سے تھک کر خواب دیکھنے لگیں۔

بی بی جی۔۔ وہ مجھے پانچ سو روپے چاہئیں۔۔ پینو نے بیگم جہاں آرا کے قدموں میں بیٹھتے ہوئے کہا۔۔ نیل پالش لگاتی بیگم صاحبہ نے نخوت سے کہا۔۔ اے لو۔۔ پھر دوائی ختم ہوگئی۔۔ ایک تو تیرے یہ دوائیوں اور بیماری کے بہانے۔۔ ابھی تو تجھے پچھلے ہفتے پانچ سو دیے تھے۔ پینو لجاجت بھرے لہجے میں بولی۔۔ بیگم صاحبہ وہ دوائی کے لیے تھے یہ میرے کالو کے لیے ہیں۔۔ اسکے لیے گوشَت لے کر جانا ہے۔۔ پکا وعدہ کیا ہے آج اس سے۔۔ اے لو۔۔ نخرے دیکھو گوشَت۔۔ دوائیاں پوری کر لے پینو۔۔ ہاہاہاہا۔۔ گوشت۔۔

اچھا وہ فریزر کی صفائی کرکے ڈھکن اچھی طرح بند کرکے فریزر چلا دیا ناں۔۔ اس میں کل کی بار بی کیو پارٹی کے لیے ہرن منگوایا ہے تمہارے صاحب نے۔۔ پینو آنکھیں پونچھتی اٹھ کھڑی ہوئی۔

کام سے لوٹتے پینو گوشت مارکیٹ گئی تو تو دو تین دکانوں سے اس نے منت سماجت کی کہ ایک پاؤ گوشت دے دو کہ پیسے تنخواہ پر دے دوں گی۔ مگر ہر کسی نے دھتکار دیا۔ شام ڈھل چکی تھی۔ اپنی جھگی کی طرف جاتے پینو کے پاؤں گویا زمین کی گردش روکنے کی سعی کرتے ہوں۔ خدا کا نہیں جیسے اسکی زندگی کا سورج غروب ہو رہا ہو۔۔

جھگی میں داخل ہوتے کالو اسکا منتظر تھا۔ ماں آج کباڑیے نے مال کے پانچ سو روپے دیے تھے آج فیکٹری کے پاس سے کافی سارا لوہا جمع کیا تھا۔ بنتے زیادہ تھے پر میں نے کہا چل پانچ سو تو دے رہا ہے ملاں۔۔ نمازیں پوری پڑھتا ہے پر میرا حساب پورا نہیں کرتا۔۔ میں نے کہا تیری دوائی ختم ہے تو میں تیری دوائی لے آیا سارے پیسوں کی۔۔ کالو بار بار چادر میں چھپے ماں کے ہاتھوں کو دیکھ رہا تھا۔ اسے لگا یہ چادر آسمان ہے اور اس میں خدا کے غیبی ہاتھ ہیں۔ اچانک آسمان کی چادر اٹھی خدا کے ہاتھ خالی تھے۔۔ پینو چکرا کر گری اسے خون کی الٹی ہوئی تھی۔ کالو چلایا۔۔ ماں مجھے گوشَت نہیں کھانا۔۔ خدا کی قسم ماں۔۔ اٹھ جا ماں۔۔

ہاں اس رات بہت سے لوگ انکی جھگی میں جمع تھے مگر یہاں گوشت کا جشن نہیں سوگ تھا۔ پینو کے بدن پر بچے کھچے گوشت کی تدفین کا سوگ۔ کوئی کہہ رہا تھا صبح سویرے دفن کر دیتے ہیں کوئی کہہ رہا تھا نہیں زوال کے بعد۔ کالو کو پتا نہیں تھا کہ زوال کے بعد کا وقت کون سا ہوتا ہے کیونکہ وہ وقت نہ کبھی اس بستی میں آیا نہ انکی جھگی میں۔۔

چند لوگ تھے جو پینو کو دفنا رہے تھے۔ کالو بار بار آگے ہوتا تو اسے پیچھے کر دیتے۔ کالو کو یقین نہیں آرہا تھا اسے لگتا جیسے اسکی ماں گوشت کی وجہ سے ناراض ہوگئی اور وہ آخری بار اپنی ماں کے کان میں کہنا چاہتا تھا کہ خدا کے واسطے اٹھ جائے وہ گوشت نہیں مانگے گا۔۔ لیکن مٹی ڈال دی گئی۔۔ کالو دیکھتا رہا۔۔ پھر سب چلے گئے۔۔ کوئی جاتے ہوئے کہہ رہا تھا جہاں پینو کام کرتی تھی وہاں سے دیگ آئی ہے بکرے کی جلدی چلو۔۔

کالو اپنی ماں کی قبر پہ دیر تک بیٹھ کے روتا رہا۔۔ اچانک اسے سخت بھوک لگی۔۔ اسے اپنی ماں کی بات یاد آئی کہ وہ کہتی تھی میرے مرنے کھپنے پہ تجھے گوشت ملے گا۔۔ کالو جھگی کی طرف بھاگا۔۔ وہاں تو منظر ہی کوئی اور تھا۔۔ بیگم جہاں آراء اور اسکا خاوند کیمروں کے ساتھ موجود تھے انہیں جلدی واپس جانا تھا انہیں اپنے سوشل میڈیا کے لیے مرحومہ کے بیٹے کے ساتھ تصاویر بنوانی تھیں۔ بستی کے ایک اور لڑکے کو "کالو" بنا کر کھڑا کر دیا گیا تھا۔

تصاویر بنیں اور گاڑیوں کی گرد سے منظر دھندلا گیا۔ خالی دیگیں رکشوں پر لوڈ کی جا رہی تھیں۔ زمین پر پھینکی ہڈیوں پر کتے جھپٹ رہے تھے۔ لوگ کہہ رہے تھے بڑے سخی لوگ ہیں ورنہ آج کل بکرے کی دیگیں کون اسطرح خیرات کرتا ہے وہ بھی کمیوں کے مرنے پہ۔۔ کالو نم آنکھوں سے جھگی کی طرف چل دیا۔۔ اسکی بھوک مر گئی تھی ہمیشہ کے لیے۔۔ جس ازل کے بھوکے کی ماں مر جائے اسکی بھوک کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔۔

Check Also

Aurat Kya Hai

By Muhammad Umair Haidry