Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Waqas Rashid
  4. Esaar Se Esaal Tak

Esaar Se Esaal Tak

ایثار سے ایصال تک

چشمِ ظاہر سے دیکھے گئے مناظر کی محدودات کا خلا چشمِ تصور سے پُر ہوتا ہے۔ تصور کی دنیا نہ تخت کی محتاج ہے نہ بخت کی۔ لامحدود اور لا متناہی۔ ڈھڈیال گاؤں کی سرسبز پہاڑی پر ایک آدمی اپنے بچے کی انگلی تھامے پگڈنڈیوں پر چلتا ایک مسحورکن ندی کی طرف رواں ہے۔ زمین کی میخیں قرار دیے گئے پہاڑ شاید زمین پر انسانیت کی ارزنی پر روتے ہیں تو چشمے پھوٹتے ہیں۔ ان آنسوؤں کے چشمے مل کر ان ندیوں کا روپ دھار لیتے ہیں۔ تبھی ندیوں کی آوازیں ہمیشہ اداس ہوتی ہیں۔ اداس رومانوی ندیاں حسن ہیں ان پہاڑوں کا۔ مگر ان پتھریلے پہاڑوں پر انسانیت کے لیے دھڑکتے دل حسین تر۔

آدمی بچے کے ساتھ پہاڑی کی بلندی پر پہنچتا ہے۔ وہاں سے نیچے دیکھتا ہے۔ زندگی، کہیں رزق کو ترستی بھوک سے نڈھال، کہیں پانی کے لیے سسکتی پیاس سے بد حال، کہیں دوا دارو کے لیے ایڑھیاں رگڑتی خود جان پر وبال۔۔ آدمی نم آنکھوں سے شبنمی قطروں میں لپٹی گھاس کی طرف دیکھتا ہے۔۔ ایک ننھا سا پھول گھاس سے باہر جھانک رہا ہوتا ہے۔۔ اسی اثنا میں کھیلتے اٹھلاتے بچے کا پاؤں اس پھول پر آنے لگتا ہے تو آدمی اسے روکتا ہے۔ بچہ حیرت سے دیکھتا تو ہے باپ نم آنکھوں سے مسکراتے ہوئے بچے کے گال تھپتھپاتے ہوئے کہتا ہے۔ "اے میرے کل کے باغبان تمہیں ان پہاڑوں پر پھول مرجھانے نہیں کھلانے ہیں"۔۔ بچہ معصومیت سے پوچھتا ہے وہ کیسے۔۔ باپ کہتا ہے ایثار سے۔۔ یہ کہتے ہوئے وہ بچے کی انگلی پکڑ کر پہاڑی سے اتر جاتا ہے۔ بچے کے ذہن "ایثار" کا لفظ گویا بچپن کے اس علم کی طرح پیوست ہو جاتا ہے تو لاطینی زبان کے محاورے کے مطابق پتھر پر لکیر ہے۔

یہ آدمی اپنی ذاتی زندگی میں خود اس ایثار کا مجسمہ ہوتا ہے جس کا سبق اس نے اپنے بچے کو گویا گھٹی میں دیا۔ بھلے وقتوں کا اعلی تعلیم یافتہ آدمی علم کو عمل میں ڈھالتا ہے۔ یہی ایک خو عام ہو جائے تو راہِ عمل کی ویرانی کچھ کم ہو۔ عمل کی کھوٹ علم کی نعرہ بازی سے پُر کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔

انسان بڑا عمر میں بڑا ہونے سے نہیں ہوتا بلکہ عمر میں بڑا ہونے کی لاج رکھنے سے ہوتا ہے۔ اس لاج کی پگڑی سر پر رکھ کر ایثار کی پگڈنڈی پہ چلنا پڑتا ہے۔ لحاظ کے قدم پھونک پھونک کر رکھتے ہوئے بھی رویوں کے کانٹے چبھ ہی جاتے ہیں۔ برداشت کی سوزن سے انہیں نکال کر پھر عازمِ سفر ہونا پڑتا ہے۔

باپ کا سایہ چھن جانے پر بڑا بھائی چھاؤں کر دے تو اسکا تو نہیں مگر جفا کی دھوپ میں چھوٹے بہن بھائیوں کا ازالہ ضرور ہو جاتا ہے اور درخت دھوپ سہے بنا چھاؤں نہیں کر سکتے۔ سارے بہن بھائیوں کو اپنی اپنی جگہ پر براجمان کرکے اپنے بچوں کو اعلی تعلیم کی طرف راغب کرتا راہِ خدا کا مسافر ایک نئی مسافت پر گامزن ہوا۔ خدا کی طرف لوگوں کو بلانے کے لیے بوریا بستر اٹھایا اور "ڈھونڈو کے اگر ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم"۔ اپنی زندگی راہِ خدا میں وقف کر دی۔

اپنے بچوں کو اس "ایثار" کا درس صرف علمی نہیں عملی طور پر سکھایا کرتا۔ خاندان میں کہیں کسی قضیے نے سر اٹھایا تو پہنچ گیا بچوں کو لے کر صلح کروانے۔ کہیں اپنے جیسے خدا کے نام لیواؤں کی میزبانی کا مقام آیا تو اس بچے سے پوچھنے کی نوبت نہ آئی۔ پہاڑی پر پھول والے اس سبق کا مان کام آیا۔ بچے کو بھی سبق بھولتا کیسے۔

پہاڑی پر انگلی پکڑ کر چلتا بچہ اب بڑا ہوگیا تھا۔ آدمی خوش تھا کہ نوجوان پہاڑی کی پگڈنڈی پر پیچھے پیچھے چل رہا ہے۔ نوجوان نے مگر ایک دوسری پگڈنڈی پر چلنے کی ٹھان لی۔ جہاں دل دماغ کی انگلی پکڑ چلتا ہے۔ آدمی نے پیچھے دیکھا نوجوان کو دوسرے راستے پر چلتے دیکھ کر ماتھا ٹھنکا، آواز دی تو نوجوان نے کہا ہماری منزل ایک ہے۔ میرا راستہ آپکے دیے گئے اعتماد کی دین ہے۔ عہد کرتا ہوں کہ پھول مرجھاؤں گا نہیں کھلاؤں گا۔ آدمی خاموش ہوگیا۔ بچے کو یہ خاموشی بھاتی نہ تھی مگر خرد دل کی دھڑکنوں میں بس جائے تو "نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن"۔ وقت نے اڑان اکیلے نہیں بھری اس نوجوان کو بھی اپنے ساتھ لیبیا لے اڑا۔

واپسی ہوئی تو وہ جوان ملک کے دارلخلافہ میں اس ادارے کے دفتر کا ذمہ دار ہوا جس کی راہ اس نے تب اپنائی تھی جب دماغ دل کا ہمراہی ہوا تھا۔ اس ادارے کا نام "المورد" تھا۔ اہلِ دل کسی در کو درگاہ مان کر دھڑکنوں کو مجاور کر سکتے ہیں خرد کی مسافت کی مگر کوئی منزل نہیں ہوتی۔ پہاڑی کے پھول اسکے منتظر تھے۔

واپسی پر پہاڑی کی چوٹی پر اب وہی بچہ بالوں میں اترتی ہلکی ہلکی چاندنی کے ساتھ اس پھول کے سامنے تنہا بیٹھا تھا۔ اچانک اپنے کاندھے پر استخوانی ہاتھ اس نے محسوس کیا تو گویا وقت نے واپسی کا سفر طے کر لیا ہو۔ جوان کے اندر کا بچہ اسی شبنمی گھاس پر اٹھلانے لگا۔ چشمِ تصور سے وہ اس پگڈنڈی سے نیچے ندی تک پھول کھلتے دیکھ رہا تھا۔ یوں گویا یہ پھول مل کر ایک لفظ لکھتے ہوں۔۔ "ایثار"۔۔ واپسی پر جوان نے بزرگوار کا ہاتھ تھام رکھا تھا۔۔ آج راستہ ایک ہی تھا۔ واپسی کا راستہ ہوتا بھی ایک ہی ہے۔

اور پھر پہاڑی پر واقعی وہ پھول یوں کھلا کہ کھل کر ایک توانا درخت کا بن گیا۔ ایک رفاہِ عامہ کا ادارہ "ایثار"۔ کہیں بھوک سے نڈھال زندگی کا پیٹ بھرتا، کہیں پیاس سے بدحال زیست کو پانی پلاتا تو کہیں مرض سے وبال بنتی زندگی کے زخموں پر مرہم رکھتا۔۔ افتتاح سے لے کر اس ادارے کے کئی سال مکمل ہونے تک بزرگوار کی شام "ایثار" میں گزرتی۔ زندگی کی صبح اور دوپہر جہاں وہ پہلے ہی گزار چکے تھے۔ انسانیت کے لیے اپنے اس بیٹے کے سینے میں دھڑکتے دل اور سر میں سوچتے دماغ کو دیکھتے تو نم آنکھوں سے مسکرا دیتے۔ آنکھوں کی نمی میں اس کا چہرہ اسی پھول کیطرح محسوس ہوتا۔۔ جی ہاں وہی ایثار والا پھول۔۔

زندگی مگر بے انت مسافت نہیں، لمحہ لمحہ ایک انجان منزل کی طرف رواں دواں۔ منزل طے ہے زمان و مکاں بھی۔ مگر مسافر لاعلم ہے۔ اپنی نوعیت کی عجیب و واحد مسافت ہے۔ ہواؤں، سمندروں، صحراؤں اور میدانوں کیا زیرِ زمین مسافتوں کی منزلوں کا احوال انگلیوں کی پوروں پر رکھتا جدید انسان، اس قدیم ترین سفر کی منزل سے ناآشنا ہے۔

ہجر وصل کے زائچے کی سب سے بڑی لکیر ہے۔ دل کا مخمصہ یہ ہے کہ اہلِ دل کا بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔ اپنے دل میں ازل سے خدا کو بسائے دل پر جب عزرائیل نے اسی خدا کے حکم سے ہاتھ ڈالا تو بزرگوار حاضر ہونے کے لیے صاحبِ فراش ہوئے۔ بسترِ مرگ آخری سفر کی عجیب سواری ہے۔ مسافر موجود، سواری موجود مگر خداحافظ۔

اس جوان کے مضبوط ہاتھوں میں بزرگوار کے استخوانی ہاتھ کی تصویر ہم نے دیکھی۔ ایک رگ پر روح کو جسم کے ساتھ باندھے رکھنے کے ٹانکا لگاتی سوئی موجود مگر طے شدہ لمحہ آن پیچا تھا۔ زندگی میں "ایثار" کا درس دینے والے بوڑھے کی روح اس بچے کے ہاتھ میں ہاتھ دیے روانہ ہوئی۔

چشمِ تصور کا منظر داستان میں پھر پلٹ آیا۔ آسمانوں کے اس پار جنت الفردوس کی ایک چوٹی پر ایک روح براجمان ہے۔ سامنے ایک مسحور کن ندی ہے۔ ندی کے کنارے اگی گھاس پر بہت سے پھول کھلے ہیں۔۔ ہر روز ان میں پھولوں کا اضافہ ہوتا ہے تو خوشبو کا تازہ جھونکا اس نیک روح کے محل میں کھلتی کھڑکی سے اندر آ کر انکی سانسوں کو مسحور کر دیتا ہے۔۔ نیک روح فرشتوں سے پوچھتی ہے یہ کونسے پھول ہیں۔۔ ان پھولوں کا نام کیا ہے۔۔ فرشتے جواب دیتے ہیں۔۔ پہلے سے موجود پھول "ایثار" کے پھول ہیں اور انکے بیجوں سے کھلنے والے نئے پھول "ایصال" کے ہیں۔

(جناب وقاص خان کے والد، مرحوم کے نام دعاءِ مغفرت کے ساتھ)

Check Also

Bani Pti Banam Field Marshal

By Najam Wali Khan