Dataverse
ڈیٹا ورس
کائنات کو انگریزی زبان میں یونیورس Universe کہتے ہیں۔ اس میں زمین و آسماں کی وسعتوں کے درمیان کہکشاؤں، فضاؤں، ہواؤں، موسموں، پہاڑوں، ریگستانوں، میدانوں، دریاؤں، درختوں، سمندروں، حیوانوں اور انسانوں کا وجود ہے۔ انسان جب سے اپنی مسخر کرنے کی صلاحیت کے ساتھ زمین پر اترا اس نے ایک ارتقائی مسافت کا آغاز کیا اور ان تمام اشیاء کو تسخیر کرتا نئے نئے علوم تلک پہنچتا رہا۔ انگنت علوم اس وقت دنیا پر موجود ہیں۔ یہ تمام علوم اپنی اپنی معلومات کا ایک خزانہ رکھتے ہیں۔ جسے اگر ایک لفظ میں بیان کیا جائے تو وہ ہے ڈیٹا Data یعنی اعداد و شمار ہے۔ بانسان ان تمام علوم کا ایک ڈیٹا مرتب کر چکا خدا کی بنائی Universe اب انسان کی تسخیر کردہ Dataverse ہو چکی۔
انسان ایک سماجی حیوان ہے۔ سماج میں دوسروں کے ساتھ بسنے لگا تو شہروں کی آباد کاری ہوئی۔ مسخر کرنے کی صلاحیت اور غلبے کی خو ایک جگہ اکٹھی ہو جائیں تو حکمرانی و رعیت کا سوال تو پیدا ہونا ہی تھا۔ افسوس کہ اس سوال کے جواب میں علاقائی جنگوں سے عالمی جنگوں تک کا ڈیٹا انسانی تاریخ کا حصہ ہے۔ حکمرانی کا وہ ارتقائی سفر نبوت، خلافت، بادشاہت سے ہوتا ہوا جمہوریت تلک آ پہنچا۔ جمہوریت اقتدار و انتقالِ اقتدار کا پر امن ترین طریقہ ہے۔
اس ارتقائی سفر کی یہ انقلابی منزل ہے کہ انسانی کھوپڑیوں سے فتح کے مینار بناتا اور انسانی لہو سے اپنے مسندِ اقتدار کو غسل دیتا انسان اب حکمران بننے کے لیے کاغذ کی پرچی پر روشنائی کی ایک مہر تھامے انسانوں کو ترقی و خوشحالی اور امن و بڑھوتری کے منشور سے لجاجت بھرے لہجے میں قائل و مائل کرتا ہے۔ اسے سیاست کہتے ہیں۔ یونانی زبان کے لفظ Polilitika یعنی Affaires of the Cities سے ماخوذ "Politics" شہروں کے معاملات چلانے کا علم ہے۔ سو کسی شہری کا سیاست سے تعلق ہو یا نہ ہو سیاست کا اس کی زندگی سے گہرا تعلق ہے۔
اپنی سر زمین کی بات کروں تو بہت سارے روزمرہ کے انسانی معاملات "بوجوہ" جدید سائینسی علوم سے دور رکھے جاتے ہیں۔ مگر حکومتی مذہبی و ریاستی جبر کے باوجود صد شکر کہ اس سرزمین پر ایسے لوگ موجود ہیں کہ جنہوں نے مختلف میدانِ ہائے کار میں ذاتی و پرائیویٹ ادارہ جاتی جدوجہد سے اسے ممکن بنایا۔ معاشی سرگرمی ہی صحیح مگر اسکا فائدہ اٹھانے والی یعنی Beneficiary بہرحال تیسری دنیا کی ایک عوام ہے۔
اسی طرح عہدِ سوشل و ڈیجیٹل میڈیا میں یہاں سیاست کی یونیورس کو "ڈیٹاورس" بننے کے لیے ان دماغوں کی ضرورت تھی کہ جو ایسے زمین زادے ہوں کہ زمینی حقائق جانتے ہوں، ایسے کہنہ مشق ہوں کہ خارزارِ سیاست کی خاک چھان سکیں، ایسے باریک بین ہوں کہ ماضی کو قریب جا کر اور حال کو دور لے جا کر دیکھ سکیں اور اخلاصِ نیت بھی ایسی ہو کہ تجزیے کے تولے میں عصبیت کی رتی شامل نہ ہونے پائے۔ تا کہ پاکستانی حلقہ بازی کی سیاست کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا کام شروع ہو سکے۔
دونوں صاحبان کے تعارف میں طالبعلم کے لیے ایک قدر حیران کن تھی۔ ایک صاحب کا نام آتے ہی تخیل کے کینوس پر سرائیکی وسیب کے علاقے میں سرسوں کے پھولوں سے پار مٹی کی خوشبو والی چار دیواری کے آنگن میں ایک کونے میں جلتے لکڑیوں کے چولہے پر ایک محترمہ ماں شام کی "نمکین چائے " بنا رہی ہوتی ہیں اور دوسرے صاحب کا نام بھی آتے ہی تصور کے شفق پر ایک ایسی محترمہ ماں کی شبیہہ ابھرتی ہے جن ماؤں کو دیکھ کر ہی شاید کہا گیا تھا " کہ تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمہیں اچھا معاشرہ دوں گا"۔ ایک ماں جو اولاد کے کردار کی معمار ہو۔ ان دونوں بیٹوں کے اپنی اپنی والدہ کے لیے لکھے گئے دو شاہکار کالمز طالبعلم کی نگاہ میں انکا تعارف ٹھہرے۔ انکی دیگر پیشہ ورانہ مصروفیات سے ہم پڑھنے والوں کو یہ تو نقصان ہوا کہ وہ فن پارے اب نایاب ہوئے۔
سرائیکی وسیب کے "پاکستانی ریاست کا نظریاتی سراب" والے احمد اعجاز صاحب سے فیس بک کے ذریعے شناسائی ہوئی تو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ کوئی چھٹی کا دن ایسا نہیں تھا کہ جس میں پاکستانی حلقوں کی سیاست Constituency Politics کے ڈیٹا پر کام نہ کیا ہو۔ سال ہا سال کے رتجگوں میں ریاضت کے ٹمٹماتے جگنو ایک دن جمع ہو کر صبحِ ثمر کا آفتاب ہوئے۔ آپ پہلے الیکشنز پر بی بی سی میں لکھنے لگے اور پھر پی ٹی وی الیکشن سیل کے ہیڈ بن گئے۔ پی ٹی آئی کے دورِ حکومت کے ضمنی انتخاب سے اے پی ڈی ایم کے دورِ حکومت کے ضمنی انتخابات تلک اور پھر وہاں سے 2023 کے عام انتخابات تک انکی اس "ڈیٹا " کی بنیاد پر کی گئی بیشتر پیشگوئیاں درست ثابت ہوئیں جو اس بات کا ثبوت تھا کہ انکے علم و تحقیق کے شجر کی جڑیں زمین میں گہری ہو چکیں۔
دوسرے محترم حاشر ابن ارشاد ایک ماہرِ تعلیم، ماہرِ معاشیات اور مفکر ہیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے تحریر و تقریر کے ذریعے اپنے افکار کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ انسانی حقوق پر پیہم حساسیت اور اس پر عصبیتوں سے بالاتر موقف کی بنا پر میری نگاہ انہیں ایک سماجی سائینسدان کے روپ میں دیکھتی ہے۔ ایک "غیر " انسانی معاشرے کو انسانی سماج بنانے میں انکی کاوشیں انہیں ایک سماجی معمار کے مقام پر فائض کرتی ہیں۔ ایسے لوگوں کی دل سے عزت کرتا ہوں جنکا علم، انکے حلم کی جگہ نہیں لیتا۔ کرکٹ ہو، ادب ہو، ریاست ہو کہ سیاست انکے حلمیت و علمیت کے اٹوٹ ساتھ سے دیے گئے تبصرے اور تجزیے بڑے خیرہ کن ہوتے ہیں۔ انسان دوست، جمہوریت پسند، ادبی شخصیت ہیں۔ بیتے ہوئے کل کا علم رکھتے اور آج میں زندہ رہتے لوگ آنے والے کل پر قیاس کر سکتے ہیں۔
سو ملکی سیاست و ریاست پر سال ہا سال کی تحقیق و ریاضت کے بعد ان دو زرخیز اذہان میں جمع شدہ ڈیٹا کو ایک "ڈیٹا ورس Dataverse " ہی کی ضرورت تھی تاکہ انکے علم سے نا صرف ہم طالبعلم روشناس ہو سکیں بلکہ جدید، موثر اور خالصتاً عوامی مفاد کی بنیاد پر تجدید سیاست کا آغاز ہو سکے۔ احمد اعجاز صاحب اور حاشر صاحب کو ڈیٹاورس کی مبارکباد اور نیک تمنائیں۔۔
اسی کی کرنوں سے روشن ہو راستہ لوگو
کہ آفتابِ سحر کا یہی شرارہ بنے
کسے خبر کہ اندھیرے میں جلتا پہلا دیا
چمن میں صبحِ منور کا استعارہ بنے
(فی البدیہہ، ڈیٹا ورس کے نام)