Dasht Mein Samaji Muammar
دشت میں سماجی معمار

ایک فرد سے کنبے تک کے رہنے کی جگہ گھر ہوتا ہے گھروں کا مجموعہ سماج میں ڈھلتا ہے۔ اس سادہ سی تعریف کے مطابق انسانوں کا اجتماعی گھر سماج ہے۔ انفرادی مسکن یعنی گھروں کی تعمیر ہر جگہ دکھائی دیتی ہے سماج مگر مسمار ہے۔ گھروں کے معمار بکثرت ملتے ہیں سماج کے مگر نایاب و نادر۔
سماج، گھروں کی طرز پر ہی تعمیر ہوتا ہے بس فرق یہ ہے کہ یہاں احساس کا سیمنٹ، برداشت کی ریت، رواداری کا سریا، ہمدردی کے پتھر حسنِ سلوک کی اینٹیں اور باہمی محبت کا رنگ و روغن استعمال ہوتے ہیں۔ انسانیت کے درد کی چھت اور اقدار کی چاردیواری اس عمارت کو مکمل کرتے ہیں۔ سماجی معمار کے اوزار قلم کاغذ اور اب کیمرہ ہوتے ہیں کہ سماجی رابطے کا عہد ہے۔
شکست و ریخت کا شکار سماج میں ایک "سماجی معمار " کو دیکھا۔ بال جیسے امید کی صبح اور یاسیت کی شب کا باہمی افق، چہرے پر سنجیدگی کے گہرے بادلوں میں سے مسکراہٹ کا چاند کبھی کبھار طلوع ہوتا ہے۔ چشمے کے پیچھے سے جھانکتی گہری سنجیدہ یا شاید رنجیدہ انکھیں۔ نرم خو سے لہجے میں تہزیب و شائستگی سے لبریز گفتگو۔ ایک باکمال مقرر، ایک باوقار سامع۔۔
ہمارے سماجی معمار نے سماج کو جسطرح دیکھنا چاہا پہلے من کی دنیا میں اس سماج کو آباد کیا۔ یہی انکی عظمت ہے۔ اسلوبِ بیان میں تہزیب و شائستگی، لہجے میں حلیمی، تحریر ہو کہ تقریر ایک مدت سے مشاہدہ کار نے انہیں معیار سے گرتے نہیں دیکھا۔ ہمیشہ تکریم ابھری، اکثر متاثر ہوا، گاہے رشک آیا، دفعتاً محبت جاگی انکے لیے۔۔
وہ معاشرہ جسے انسانی حقوق کے ضمرے میں اخروی درجے پر بھی انسانی سماج کہنا مشکل ہے وہاں جناب جیسے سماجی معمار مجھ جیسے مظطربوں کے لیے ایک غنیمت ہیں۔ کہیں بنیادی انسانی حقوق کی پامالی پر نوحہ کناں، کہیں جنس کی بنیاد پر تقدیس میں ملفوف عدم مساوات پر "ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق " کو ائینہ دکھاتے ہوئے، کہیں اقلیتوں کے حقوق پر منافقانہ خلیج کا پردہ چاک کرتے ہوئے تو کہیں کھوکھلے نعروں کے درمیان دب جانے والی آہوں، سسکیوں اور کراہوں کی صدا بنتے ہوئے۔
سیاسی، مذہبی، صوبائی، مسلکی، لسانی عصبیتوں کے حبس میں دم گھٹ کر مرتی سچائی کی سی پی آر کرتے دیکھا صاحب بہادر کو۔ یہ کرنے کے لیے اپنی ذات سے گزرنا پڑتا ہے۔ ادنی ترجیحات کے اسیر مسافروں میں ایسے رہرو کہاں۔ بہت کم لوگ دیکھے، بہت ہی کم جو اصول اور مفاد کے چناؤ میں موخرالذکر کی طرف پیٹھ پھیر دیں۔ حرص کے معبدوں میں مفاد خدا ہوتا ہے۔
انسانیت کا درد رکھنے والے حسِ جمالیات سے لا بلد ہوں بھلا کیسے ممکن۔ یہ شاعری، موسیقی اور سیاحت کے دلدادہ آدمی ہیں۔ پرانی نظموں کو نئی جاودانی دیتی انکی ویڈیوز اب نہیں آتیں۔ کرکٹ پر انکے تبصرے ٹی وی پر بیٹھے بیشتر کرکٹ پنڈتوں سے بہتر ہوتے ہیں۔
مضمون نویسی ایسی کہ پہلا جملہ اخروی سے انجان نہیں ہوتا۔ الفاظ خامشی کی شب میں صبح کی اذاں دیتے، جملے روح کی پیشانی کا مہراب بن جاتے ہیں۔۔ قلم کی نوک سے فکرکے کانٹوں کو نکالتا مسیحا کاغذ پر جو دنیا بساتا ہے قاری تادمِ تحریر وہاں گویا آباد ہو جاتا ہے۔ عشق ہوگیا انکے دو مضامین سے۔۔ جیسے انہوں نے اپنی پہلی درسگاہ کو اپنے علم کا خراج بخشا، انکی والدہ محترمہ کی قبر پر امر ہونے کا کتبہ تھا اور زندگی کو پہلی چال سکھلاتی والد کی انگلی کو کاغذ پر شطرنج کی بساط بچھا کہ جیسے انہوں نے نذرانہِ عقیدت بخشا، وہ شاہکاروں کا شاہکار مضمون باپ بیٹے کے رشتے کی نفسیات کا ابدی ائینہ دار ہے۔ بس میں ہو تو یہ دو مضامین نصابی کتب کا حصہ بناؤں۔۔
بیٹیوں کو احساسِ کمتری مذہبی تقدیس میں ملفوف کرتے سماج نامی دشت میں اپنی بیٹی کو اعتماد کا تقدس دیتے ایک مثالی باپ کے طور پر انکی تعظیم طالبعلم کے دل میں امر ہے۔ اس پر سونے پہ سہاگہ یہ کہ فیصلہ کرنا مشکل کہ انکی بیٹی انکے لیے زیادہ بہتر لکھتی ہیں یا وہ اپنی بیٹی کے لیے۔ باکمال باپ بیٹی اور اس پر کیا کہوں کہ اثاثہِ پاکستان جناب انور مسعود صاحب کی دختر اور انکی اہلیہ محترمہ علینہ کے پاس جینیاتی طور پر کسی قدر کی کیا کمی ہوگی مگر جناب کی محبت "دھنک کا اٹھواں رنگ " بن کر ادب کے افق کا جھومر بن گئی۔ نصاب کی کتب کے سوا کچھ زیادہ پڑھا نہیں کہ زندگی کی کتاب بہت زخیم رہی مگر جو کچھ تھوڑا بہت پڑھا اس میں دھنک کا اٹھواں رنگ اَن پڑھے سات رنگوں کو جاودانی دے گیا۔
سرکار ایسے آدمی ہیں کہ انکی تعظیم انکے ہر عمل سے بڑھتی ہے۔ پچھلے دنوں انہوں نے دوسروں کی بیٹیوں پر روائیتی سوچ کی پراگندگی کا اظہار کرتے کسی شخص پر تنقید کی تو انکے کسی ہم خیال نے اس شخص کی اپنی بیٹی کا نام لیا۔ بڑے آدمی نے کہا " نہ نہ، وہ بھی ہماری بیٹیاں ہیں"۔۔ کیا کہنے، سلام پیش کرتا ہوں۔
طالبعلم کی نگاہ میں" لا اکراہ فی الدین " کا خدائی حکم، خدائی فوجداروں کے حکم پر حاوی ہونا چاہیے گو کہ عملاً صورتحال اس سے مختلف نہیں متضاد ہے۔ مذہب کو فرد کا ذاتی معاملہ بناتی اس آیت کی راہ میں مذہب کی محصول چنگیاں رکاوٹ ہیں۔ یہ سوال اہم ہونا چاہیے کہ مذہب کو اخلاقیات کا منبع کہنے والے بنیادی انسانی اخلاقیات سے دور لوگوں سے دور یہ آدمی اعلی ترین اخلاقیات کا حامل کن محرکات پر ہے؟ ہمارے لیے مذہب جن اصولوں کا محرک نہ بن سکا ایسے شاہکار لوگوں کے لیے الحاد بن گیا۔
ازل کی خانہ بدوشی دارلحکومت میں لائی تو جن لوگوں سے ملنے کا اعزاز دل میں خواب کی طرح سمایا ہوا تھا صاحب بہادر ان میں سرِ فہرست رہے۔ اس فہرست کو ایک بار پھر غمِ روزگار نے تلپٹ کر دیا۔ فیصل آباد سے انکے ایک اور معتقد اعظم بھائی یہاں آئے تو "انتخابی سائینسدان" جناب احمد اعجاز صاحب سے ان سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ ٹیلی فون پر "جی وقاص بھائی " کدھر ہیں؟ کے بعد لوکیشن بھیجی اور کچھ ہی دیر میں ہم ذوقِ جمالیات کے حسین مظہر انکے گھر میں موجود تھے۔ تعبیر، خواب سے زیادہ حسین رہی۔ ہمارے سماجی معمار نے دروازے پر جس مسکراہٹ سے استقبال کیا اس پر تشکرکے احساسات دائمی ہیں۔۔ شکریہ جنابِ حاشر، بہت محبت وعزت آپکے لیے۔۔ آپ جیسوں کی اس دشت کو انسانی سماج بنانے کی ان پیہم کاوشوں کو سلام جنکی بنا پر طالبعلم
آپکو ایک عظیم سماجی معمار سمجھتا ہے۔۔ سلامتی ہو

