Daain
ڈائن
عورت کیا ہے؟ طالبعلم کے لیے۔ ع سے عزت ہے، و سے وقار ہے، ر سے رتبہ ہے اور ت سے تعلق ہے۔ یعنی ماں، بہن، بیٹی یا بیوی ہر تعلق میں اسکا رتبہ قابلِ عزت و وقار ہے۔ تخلیق، تربیت، ترویج، تعمیر ان سب کا آغاز جس "ت" سے ہوتا ہے اسی پر عورت کی انتہا ہوتی ہے۔
انسانی فطرت سے زمانے کی گرد اپنے پلو سے جھاڑ کر اس میں احساسات کے رنگ بھرنے والی فنکار ہے عورت۔ جہاں کے سنگ و خشت میں اپنا آپ بھی چن دیتا آدم۔ جو حوا کی نسائیت کے چاک پر پھر پھر گوندھا نہ جاتا۔ زندگی اسکی کوکھ سے جنم لیتی ہے اسکی آغوش میں پرورش پاتی ہے اور اس کی ذات سے جینے کا ہنر سیکھتی ہے۔ عورت کی انگلی پکڑ کر حیات وقت کی پگڈنڈی پر چلنا سیکھتی ہے۔ کبھی "ممتا" کے لفظ پر غور فرمائیے مجھے لگتا ہے کہ یہ م سے محبت، م سے مہربانی، ت سے تعلق اور ا سے انسانیت ہے یعنی انسانیت سے محبت و مہربانی کا تعلق۔
دستِ قدرت سے تخلیق پاتی انسانی فطرت دستِ نساء سے تکمیل پاتی ہے۔ عورت سایہِ خدائے ذوالجلال ہے۔
سوال یہ ہے کہ جب عورت انسانیت کے لیے خدا کی عطا کردہ نرمی، محبت، شفقت، انسیت اور مہربانی کھو دیتی ہے تو پھر وہ کیا بن جاتی ہے۔ جواب یہ ہے کہ پھر وہ ڈائن بن جاتی ہے۔ ہم سب نے چڑیلوں اور ڈائنوں کی کہانیاں تو سن ہی رکھی ہیں۔ ہم اپنے بچوں کو بتاتے ہیں کہ اسطرح کی کہانیاں جھوٹی ہوتی ہیں۔ لیکن صومیہ نامی ایک ڈائن نے ہمیں غلط ثابت کر دیا۔ صومیہ ایک سول جج یعنی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایک منصف کی بیوی ہوتی ہے۔ عورت ہونے کے ناطے ناچیز بیان کر چکا کہ اسکے قدرتی محاسن کیا تھے اب وہ ماں بن کر انکا عملی مظاہرہ کرنے کے لیے تیار ہوتی ہے مگر وہ ڈائن بننے کا فیصلہ کر لیتی ہے۔
ڈائن کو اپنے بچوں کے کام کاج کے لیے گھر میں ایک مددگار کی ضرورت ہوتی ہے اور اسکا شوہر سول جج عاصم حفیظ اپنے ہاتھوں سے "چائلڈ لیبر" کے قوانین پیروں تلے روند کر سرگودھا سے تعلق رکھنے والی محض 13 سال کی ایک معصوم بچی کو پاکستان میں کم سے کم آمدنی کا دوسرا قانون توڑتے ہوئے اسے اپنے محل میں ملازمہ رکھ لیتا ہے۔ اس بچی کے ماں باپ کروڑوں ماں باپ کی طرح "ہر بچہ اپنا رزق ساتھ لاتا ہے" کی تفہیم پر اسے پیدا کرکے جج کے گھر چھوڑ دیتے ہیں اور اسکے لائے ہوئے دس ہزار گھر میں لگے آئینے پر چسپاں کر دیتے ہیں۔
ڈائن بچپنے کی غلطیاں سمجھ کر بھی رضوانہ بے چاری کو معاف نہیں کرتی اور اندازہ لگائیے کہ اوپر بیان کردہ عورت کی صفات کو کس قدر تج کر وہ ایک سفاک ڈائن کا روپ دھارتی ہے کہ آخر اسی گھر میں اسکے اپنے بچے بھی رضوانہ پر ہوتی سفاکیت دیکھتے ہونگے اسکی آہیں کراہیں اور چیخیں سنتے ہونگے لیکن کسے خبر کہ صومیہ نامی اس ڈائن نے اپنے بچپن میں یہ مناظر خود بھی دیکھے ہوں اور انہیں دیکھ کر ہی اسکے اندر کی خونخوار اور سفاک ڈائن آج باہر آ گئی ہو۔
یقین کیجیے سوچ کر بھی کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے دل سینے کی دیواروں سے ٹکرانے لگتا ہے۔ کل رضوانہ کی میڈیکل رپورٹ دیکھی تو تھوڑا "نوسٹیلجک" ہوگیا۔ اسکی ٹوٹی ہوئی ٹانگ کے بارے میں پڑھا تو لاشعوری طور پر سامنے بیٹھی بالکل اسکی عمر کی اپنی بیٹی فاطمہ کے ٹخنوں کو دیکھنے لگا۔ اسکے ٹوٹے ہوئے بازو کے متعلق پڑھا تو اپنی بیٹی کے بازوؤں پر پہنی چوڑیاں ٹوٹ کر دل میں پیوست ہونے لگیں۔ رضوانہ کی سوجی ہوئی نیل زدہ آنکھیں دیکھیں تو مجھے اپنی بیٹی کی معصوم آنکھوں میں لگا کاجل زخموں پر نمک لگنے لگا۔ اور سر کے زخموں میں کیڑے۔ نہیں۔ نہیں۔ میں اپنی بیٹی کے سر کی طرف نہ دیکھ سکا۔ خدا کی قسم نہ دیکھ سکا۔
کتنا تڑپی ہوگی بچی، کس قدر کسمسائی ہوگی درد سے یہ تتلی، اذیت کے کچوکوں نے اس ننھے وجود کی کلی کو کتنا دُکھایا ہوگا۔ کس قدر تکلیف سہی ہوگی اس نے اپنے دس ہزار میں بیچے گئے انمول وجود پر۔
سو ثابت یہ ہوا کہ نرمی، شائستگی، محبت، مہربانی اور شفقت سے گندھی عورت کے کردار میں سختی، درشتی، تکبر، بے رحمی، سفاکیت اور بربریت کے کیڑے پڑتے ہیں تو وہ ڈائن بن جاتی ہے ڈائن۔
اس ریاست میں نہ جانے کتنی رضوانائیں اپنے معصوم جسموں میں پڑتے کیڑوں کو ماں باپ کے پیٹ کے کیڑوں کے لیے برداشت کرتی ہیں۔ ملاں صاحب سے درخواست ہے کہ کثرتِ اولاد کی ترغیب دیتے ہوئے اب جملہ تبدیل فرما دیں"یہ بچے اپنا رزق لے کر نہیں آتے" بلکہ یوں کہیے کہ غریبوں کے بچے اپنے ماں باپ، کیڑوں اور صومیہ جیسی ڈائنوں کا رزق بن کر آتے ہیں تیسری دنیا میں۔