Chacha Hamid Karzai Aur Pakistan
چاچا حامد قرضئی اور پاکستان
کسی گاؤں میں ایک مسجد تھی جسکے امام صاحب کو ہر جمعہ کی نماز میں ایک شخص چاچا حامد "قرضئی "کے لیے خصوصی دعا کرنے کے لیے کہا جاتا۔ کبھی کوئی کہتا تو کبھی کوئی۔ امام صاحب بھی پورے خشوع و خضوع سے دعا فرماتے اے اللہ چاچا حامد قرضئی کو صحت و سلامتی عطا فرما اسکی چاروں سمت سے حفاظت فرما۔ امان کا ایک فرشتہ ہمہ وقت اس پر وقف فرما۔ سب لوگوں کو صدقِ دل سے آمین کہنے کی تلقین بھی کرتے۔
چاچا حامد قرضئی اکثر و بیشتر جمعہ کے لیے جاتا بھی نہیں تھا۔ لیکن یہ دعا سن کر حقے کا گہرا کش لیتے ہوئے آسمان کی طرف دیکھتا اور ایک کمینی سی مسکراہٹ کے ساتھ لمبا سا کہتا "آمین ثم آمین "
ساتھ ہی ساتھ مولوی صاحب چاچے حامد قرضئی سے بہت متاثر ہوتے کہ بڑے بڑے لوگ اسکے لیے دعا کا کہتے ہیں یقیناً کوئی خدا کا مقرب ہی ہوگا ایک دن جب یہ دعا گاؤں کے ایک ساہوکار نے کروائی تو مولوی صاحب کا ماتھا ٹھنکا اور پوچھا کہ آخر ماجرا کیا ہے تو ساہو کار نے بڑی لجاجت سے کہا اس نے سارے گاؤں کا ادھار دینا ہے اسی لیے تو اسکا نام حامد قرضئی ہے کرزئی نہیں۔ آپ کیا سمجھتے تھے یہ کوئی افغانستان کا سابق صدر ہے۔ مولوی صاحب تھوڑے جھینپ کر کہنے لگے نہیں وہ اصل میں اکثر اسکے لیے دعائیں منگوائی جاتی ہیں۔
ساہوکار کہنے لگا اوجی سرکار جب تک یہ زندہ ہے قرضہ ترنے کی امید تو ہے ناں مر گیا تو اسکے جنازے پہ تو اسکے ساقوں نے اور پیسے مانگنے ہیں۔ بس اس لیے لوگ اسکی سلامتی کی دعائیں کرتے ہیں۔ تھوڑی بہت امداد بھی کر دیتے ہیں۔ اگر گھر میں بھوک ڈیرے ڈالنے لگے تو کوئی نہ کوئی آٹا چاول بھی دے دیتا ہے کہ کہیں بھوک سے نہ مر جائے۔ یہ سن کر مولوی صاحب کا قہقہہ پورے حجرے میں گونجنے لگا۔ ساتھ ہی انہیں تھوڑی خفت بھی محسوس ہوئی کہ ایک دفعہ پھر وہ استعمال ہو گئے۔
یہ واقعہ سن کر مجھے بچپن سے سنا گیا ایک جملہ بار بار یاد آتا ہے۔ جب بھی کوئی صدر، وزیراعظم یا آرمی چیف (ایک ہی بات ہے ویسے) بنتا ہے تو اپنی پہلی تقریر میں یہ بات ضرور کرتا ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو ختم نہیں کر سکتی۔
یقین کیجیے آج تک اس بات کی سمجھ نہیں آئی تھی کہ پیارے پاکستان کے ہر حکمران کو اتنا اوور کونفیڈینس کیوں ہے کہ کوئی عالمی طاقت پاکستان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ مجھےچاچے حامد قرضئی کا حقے کی گڑ گڑ اور دھویں کے مرغولوں کے درمیان نکلتی اسکی مقروض مسکراہٹ اور آمین ثم آمین نے یہ بات سمجھائی۔
میں چاچا حامد قرضئی کی سنت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے پاکستان کے عالمی طاقتوں کا صحیح مکو ٹھپنے پر اپنے حکمرانوں کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔
پاکستان کو ملنے والی امداد ہو یا مزید قرض یہ چاچے حامد قرضئی کے گھر پہنچنے والے دانوں کی طرح ہیں۔ عالمی طاقتوں کو پتا ہے کہ انہوں نے ہمارے جتنے پیسے دینے ہیں انکی واپسی کی نیم مردہ امید ہے ہی پاکستان کے بچنے تک۔ خدا نخواستہ پاکستان کو کچھ ہوا تو انہیں تو پہلے ہی پتا ہے کہ "ساڈے آلو انکار ای سمجھو"۔
ایک سٹیج ڈرامے میں افتخار ٹھاکر صاحب کہتے ہیں پورا پنڈ میری زندگی در دعاواں کردے۔ سامنے والا پوچھتا ہے۔۔ وجہ؟ ٹھاکر صاحب ہاتھ پر ہاتھ مار کر چاچے حامد قرضئی اور پاکستانی حکمرانوں کی طرح کہتے ہیں کیونکہ بندے بندے دے میں پیسے دیونڑین۔ ہا ہا ہا ہا
واقعی عالمی طاقتیں انشاللہ پاکستان کو کبھی ختم نہیں کر سکتیں۔ یہودی لابی ہو چاہے نصرانی چاہے کوئی اور۔ کیونکہ ان ساروں کے ہم نے پیسے ہی اتنے دینے ہیں۔