Be Zuban
بے زبان
اے میرے خدا! یہ ہے تیرا اشرف المخلوقات انسان۔ یہ؟ جسے تو نے اپنا خلیفہ کہا اور زمین اس کے حوالے کر دی۔ دیکھ تیرے اس خلیفہ کی خلافت میں مجھ پر کیا بیت رہی ہے۔ کہنے کو ہم حیوان ہیں، ہم وحشی ہیں، ہم درندے ہیں اور یہ انسان ہیں۔ مجھے میری ماں سے جدا کیا میں بہت رویا۔ ماں بہت یاد آئی۔ پھر سوچا چلو انسانوں کے ساتھ رہوں گا انسانیت کی خیر پاؤں گا مگر ہم تو نام کے حیوان ہیں حیوانیت تو ان میں ہے۔
ہم تو کہنے کو وحشی ہیں وحشت تو ان کا وصف ہے، ہم تو وہ درندے ہیں جو انسان کی درندگی سے پناہ مانگیں۔ ناک میں نکیل ڈال کر جو زخمی کیا وہ درد ہے کہ اپنی ماں کو بھی نہیں بتا سکتا۔ وہاں جنگل میں پتھروں کو ہمارے حالوں پر رحم آ جاتا تھا اور ان کے آنسو چشموں کی صورت پھوٹ پڑتے اور ان سے ہم پانی پیتے مگر یہاں تو انسانوں کے دل ان پتھروں سے بھی سخت گیر ہیں کہ اس رکشے میں پیاس کی شدت سے میں جاں بہ لب ہوں۔
مگر خدایا۔ یہ کیسا اشرف المخلوقات ہے؟ کہنے کو ہر لمحہ "واللہ خیر الرازقین" کی مالا جپتا ہے لیکن اپنے رزق کے لیے مجھ جیسے چھوٹے سے بچے کو میری ماں کی گود سے چھین لائے اور اب مجھے گلیوں گلیوں نچائیں گے۔ عجیب عالم ہے ایک چھوٹے سے حیوان کی مجبوری کا خراج پانے والے انسان کہلاتے ہیں۔ لیکن میں ایک ریچھ ایک جنگلی جانور بھی کیا اپنا رونا رونے لگا۔
اپنے جنگل سے انسانوں کی اس نام نہاد مہذب دنیا میں آئے مجھے چند دن ہی ہوئے اور ان چند دنوں میں، میں نے یہ دیکھا کہ میں تو پھر ایک بے زبان حیوان ہوں یہاں تو انسانوں کی ناکوں میں مجبوریوں کی نکیل ڈال رکھی گئی ہے۔ میں اپنی پیاس کو روتا ہوں یہاں تو انسانوں کا چولستان بپا ہے۔ میں اپنے اس بچپن میں اپنے بیگار اور مشقت پر نوحہ کناں ہوں یہاں تو میں نے دیکھا کہ انسانوں کے بچے سڑکوں پر محنت مشقت کرتے پائے جاتے ہیں۔
اپنے ان ماں باپ کے لیے رزق کماتے جو انہیں یہ کہہ کر دنیا پہ لاتے ہیں کہ ہر بچہ اپنا رزق ساتھ لے کر آتا ہے۔ میں تو ایک ریچھ ہوں یہاں تو ہر مفلس و بے بس انسان کو میری ہی طرح جبر کی رسی میں جکڑ کر انجان راہوں کا مسافر بنایا جاتا ہے۔ یہاں کا استبدادی نظام مجبوریوں کی ڈگڈگی پر بھوکے جسموں کو نچاتا ہے اور وہ بے زبان اس جنگل میں بخت کے تاوان کے طور پر زندگی بھر یہ رقص پیش کرتے رہتے ہیں۔ بے زبان بے چارے۔
میں خوشاب کے مقام پر دریائے جہلم کا پل مڑا تو سامنے ایک رکشے میں ایک ریچھ کا بچہ بے دردی سے باندھا ہوا دیکھا۔ مجھے لگا وہ بے چارہ یہ سوچ رہا ہے۔