Akhbar Ki Khushbu
اخبار کی خوشبو
بچپن ایک مہان دیوتا کے سائے میں گزرا۔ باپ دیوتا ہو تو بچوں پر اسکی شخصیت کی چھاپ جینیات کی واجب حد سے متجاوز ہوتی ہے۔ چھتناور درختوں کے سائے میں پلتے ننھے پودوں کے لیے آسمان سبز ہوتا ہے۔ یہ چھاپ کتنی گہری تھی؟ پڑھ تو رہے ہیں آپ۔۔ جی ہاں اتنی گہری تھی۔
دیوتا سے متعلق چند خوشبوئیں ذہن میں نقش ہیں۔ انکی خاکی چادر سے آتی سگریٹ کے دھوئیں کی باس، راجہ جانی پان کی پتی کی خوشبو، ریلوے کوارٹر میں انکے ہاتھ سے لگے موتیے کی بھینی بھینی خوشبو، انکی شام کی چائے میں سیپرٹ ٹی کے قہوے سے آتی خوشبو۔۔ مگر ایک خوشبو۔۔ ایک نشہ۔۔ ایک سحر الگ تھا۔۔ اخبار کے کاغذ کی خوشبو۔
جی ہاں مضبوط ہاتھ میں ایک ٹفن کے ساتھ پکڑا اخبار وہ منظر ہے کہ محو نہیں ہو سکتا۔ پھر شام کی سیپرٹ چائے کے ساتھ کھلتا اداریہ کا صفحہ۔ اس قہوے اور اخبار کی خوشبو مل کر جو سحر طاری کرتے۔ یہ چھاپ ایسی تھی جیسے اخبار کے مین پیج پر شہ سرخی ہوتی ہے۔ کہیں لکھا تھا دیوتا کا سر کتاب اور بنا مہراب کے سجدوں میں ہی جھکے دیکھا۔ اس کوارٹر میں لکھائی والے کاغذ آتے تھے جہاں لکھائی والے کاغذ آتے ہوں تصویر والے کاغذ کم کم آتے ہیں۔
اگلا مرحلہ زندگی کے پہلے عشق "کرکٹ" سے جڑا اخبار کا تعلق تھا۔ سپورٹس پیج پڑھ کر اپنے تب کے ہیرو وسیم اکرم کی تصویریں وہاں سے کاٹ کر ایک رجسٹر میں لگانا مشغلہ تھا۔
ڈپلومہ پاس کیا تو اتوار کا اخبار ریٹائرڈ دیوتا کے پیسوں سے خریدتے شرم آتی۔ بھائی ظہور کو اللہ بخشے انکے سیلون پر جا کر پڑھتا۔ نہ جانے اتنا پیارا دل اتنی جلدی دھڑکنا کیوں چھوڑ گیا۔ انکی دکان سے ملنے والے اخباری تراشے پر ملنے والی وہ پہلی نوکری کوئی بھولنے کی بات ہے بھلا۔
اور پھر بابا جس جس اسٹیشن پر رہے ان میں سے کئی پر پرانے بینچوں پر بیٹھ کر گھنٹوں ریل گاڑیوں کے انتظار کے دوران وہی خوشبوئیں ساتھ ہوا کرتیں۔ ملکوال کے تاریخی ریلوے اسٹیشن پر بنے یادگار "بہار بک سٹال" پر جب دکاندار کہا کرتا کہ آپکے بابا بھی اخبار کے رسیا تھے تو ایک الگ سی سرشاری ہوتی۔
ایک مضمون میں لکھا تھا کہ گاچی ملی لکڑی کی تختی پر چلتا سرکنڈے کا قلم تاریخ کے عجائب خانے میں ہمارے ہاتھوں حنوط ہوا تھا۔ مگر ہم ارتقاء کے وہ مسافر ہیں جنہوں نے سر کنڈے کو تراش کرقلم بناتی انگلی کی ریاضت یوں قبول ہوتے دیکھی کہ اسی انگلی کی پور خود نوکِ قلم ہوئی اور وہ لکڑی کی تختی ایک چھونے والی حساس سکرین۔ یہ یاد نامہ اسی پر نقش ہو رہا ہے۔ کیا ریورس انجینئرنگ ہے کہ اخباری کاغذ کی یادیں ذہن کی سکرین پر چھپی تھیں، اب ایک الیکٹرانک اسکرین پر چھپ کر واپس کاغذ پر منتقل ہونے کو ہیں۔
اس ارتقاء نے جہاں یہ جدت فراہم کی وہاں اخباری کاغذ کی وہ خوشبو جاتی رہی۔ مگر چھاپ قائم رہی۔ ایک سیمنٹ فیکٹری میں رات کی ڈیوٹی کے دوران دستیاب وقت میں انٹرنیٹ پر پاکستان کی ساری بڑی اخباریں کھنگالنا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ تب الیکٹرانک میڈیا نے ابھی پرنٹ میڈیا کی جگہ نہیں لی تھی۔
پھر سوشل میڈیا آ گیا، آ گیا کیا چھا گیا۔ سیاست و سماج کا ایک طالبعلم یہاں ایک نظم گو شاعر کے طور پر تھوڑا بہت جانا جانے لگا۔ اور پھر "وقاص نامہ" شروع ہوا۔ مختلف موضوعات پر زندگی کی اخبار میں جو چار لفظ پڑھے تھے وہ چھاپنے لگا۔ "وقاص نامہ" دراصل سکول کے ٹاٹ پر بیٹھ کر انصار صاحب سے اپنے پاس سے مضمون لکھنے میں شاباش لینے سے لے کر یہاں اپنے مضامین، افسانے، آرٹیکلز اور نظموں پر لائک شئیر کا سفر نامہ ہے۔
تین ویب سائیٹس مکالمہ، ہم سب اور ڈیلی اردو کالمز پر آرٹیکل لکھنے لگا۔ "ہم سب" پر سلسلہ ایک نا خوشگوار واقعے پر منقطع ہوا (اسکا تفصیلی ذکر پھر سہی)، مکالمہ اور ڈیلی اردو کالمز کے منتظمین کی شفقت سے وہاں قلم کا سفر جاری و ساری ہے۔
ملکی و غیر ملکی جرائد تک اپنے قلم کی پہچان پانے والی بہت باکمال لکھاری محترمہ خنساء سے کسی اخبار میں کالم چھپوانے کا طریقہ پوچھا تو انہوں نے جناب ناصر مغل کا پیج لنک بھیج دیا جو روزنامہ "اساس" کے ایڈیٹر ہیں۔ انہیں اپنا مضمون "خدارا! فلسطینی بچوں کی حقیقی ماں بنیے" بھیجا۔
اگلے ہی دن "اساس لاہور" کے اداریہ صفحے پر اس کالم کو دیکھا تو اخبار کا صفحہ گویا پردہ سکرین بن گیا اور اس پر ماضی کی ایک فلم سی چلنے لگی۔ ملکوال ریلوے کالونی کا کوارٹر نمبر 54۔ اے۔ ایک ٹفن ساتھ میں لپٹا اخبار، وہ تختی قلم گاچی، وہ ٹاٹ سکول، وہ ریلوے اسٹیشنز کے بینچ، وہ رات کی ڈیوٹی وہ اخباریں۔ وہ قلم جسکی قسم ازلی و ابدی کاتب نے کھائی۔
یکا یک ای پیپر جیسے دوبارہ وہی اخباری کاغذ بن گیا ہو۔ اور اس سے اخبار کی وہی خوشبو سی چھلکنے لگی ہو۔ ایک شے کی خوشبو چلی جائے تو لوٹتی نہیں مگر "اساس " کا شکریہ، جناب ناصر مغل کا شکریہ کہ اخبار کی وہ خوشبو لوٹا دی جو میری اساس ہے۔۔