Sunday, 22 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Saqib
  4. Ye Bhi Pakistan Hai (2)

Ye Bhi Pakistan Hai (2)

یہ بھی پاکستان ہے (2)

یہ بھی پاکستان ہے کے ٹائٹل سے آپ نے کالم کا پہلا حصہ پڑھا۔ اس کالم کی مقبولیت اور پسندیدگی غیر معمولی ہے۔ فیس بک، واٹس ایپ اور دیگر پلیٹ فورمز پر یہ کالم پڑھنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ پاکستان کے اصل چہرے کو اجاگر کرتی ہوئی کچھ مزید تحریریں کالم کے اس حصے میں شامل ہیں۔

آسٹریلیا کے مشہور موٹیویشنل سپیکر نک (Nick Vujicic) یاد آگئے۔ پیدائش کے وقت ان کے دونوں ہاتھ اور دونوں پاؤں نہیں تھے۔ کئی بار خود کشی کرنے کی کوشش کی لیکن پھر ہمت کو جوان کیا، نارمل طریقے سے زندگی گزارنا شروع کی اور آج لاکھوں لوگوں کی زندگیوں میں امید کا پیغام جگا رہے ہیں۔

پاکستان میں رحیم یار خان شہر میں کرن اشتیاق کے نام سے ایک ایسی ہی بچی پیدا ہوئی دونوں ہاتھوں پیروں سے محروم۔ یہ بچی جب اس دنیا میں آئی تو ڈاکٹرز نے ان کے والدین کو مشورہ دیا کہ اس بچی کا سروائیو کرنا مشکل ہے لہذا اسے ختم کر دیا جائے۔ اس بچی کے والدین پر اس وقت کیا کیفیت گزر رہی ہوگی اس کا احاطہ میرا قلم نہیں کر سکتا۔

سخت ترین حالات میں کرن اشتیاق کے والد اس کی پرورش کرتے ہیں۔ کرن کہتی ہیں کہ گھر پر جب کوئی شخص ملنے آتا تھا تو میرے والد مجھے چھپا دیتے تھے۔ ان کی تعلیم پر کوئی کمپرومائز نہیں کیا گیا اور کرن نے بھی کمال کر دیا۔ اندازہ کریں دونوں ہاتھوں کے بغیر پن استعمال کرنا، کمپیوٹر پر کام کرنا اور دونوں پیروں کے بغیر موومنٹ کرنا۔ زندگی ہر روز ان کے لیے نئی آزمائش لے کر آتی۔

اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

لیکن کرن اشتیاق اور ان کے عظیم والد نے مایوس ہونا نہیں سیکھا تھا۔

کوئی قُوّت طلسماتی کمر جھکنے نہیں دیتی

سونے میں تولنے والی بات کرن نے کہی کہ

"زندگی کہیں سے بھی شروع ہو سکتی ہے"

آج کرن نے انگلش میں ماسٹرز کر لیا ہے، سی ایس ایس کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں اور اس کے بعد نک کی طرح لاکھوں لوگوں کی زندگیوں میں تبدیلیاں لانے کے لیے پُرعزم ہیں۔ ان سے پوچھا کہ حالات اور قسمت کا رونا اور گلے شکوے کرنے کی بجائے آپ نے یہ حیران کن کامیابی کیسے حاصل کی؟ جواب دیا، میں نے ہمت ہارنا نہیں سیکھا اور اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ میری مدد کی۔

کرن اشتیاق کی آنکھوں میں موجود انرجی حیران کُن ہے۔ میرے دوستو! ایک لمحے کے لیے ان مشکلات کا اندازہ کریں دونوں ہاتھوں اور پیروں کے بغیر ایک دن بھی گزارنا مشکل ہے۔ میں خود اس سٹوری کو کور کرتے ہوئے ایموشنل ہوگیا اور زندگی میں مزید کچھ بڑا کرنے کی خواہش بیدار ہوئی۔

کرن کی پیدائش کے بعد مشکلات کا ایک دور شروع ہوا۔ والدین میں علیحدگی ہوگئی۔ یہ اپنے والد کے ساتھ رہنے لگیں۔ ان کے والد کا بھی چار سال پہلے انتقال ہوگیا۔ لیکن ان کا عزم جوان ہے۔ عملی زندگی میں آ کر بہت کچھ کرنا چاہ رہی ہیں، کارپوریٹ فرمز اور این جی اوز ان سے رابطہ کریں۔

کرن اشتیاق پاکستان کا فخر ہیں۔ پاکستان کی بہادر بیٹی یقیناً اپنے خواب پورے کرے گی۔ ان کا عزم اور یقین ہمیں یہ بتاتا ہے کہ

"یہ بھی پاکستان ہے۔ "

***

پچھلے دنوں کراچی سنٹرل جیل میں بچوں کے لیے مختص ایریا جسے بچہ جیل کہا جاتا ہے کا دورہ کرنے کا موقع ملا۔

یہ وزٹ ہر لحاظ شاندار تھا جس نے سوچ کے نئے دریچوں کو کھول دیا جیل انتظامیہ نے بتایا کہ زیادہ تر بچے چوری اور منشیات فروشی کے جرم میں گرفتار ہو کر یہاں آتے ہیں۔

اپنی مائنڈ سائنسز کی طالب علمانہ صلاحیت کو استعمال کرتے ہوئے ان کے چہروں کو پڑھنے کی کوشش کی تو زیادہ تر بچوں کی انرجی مثبت نظر آئی۔

ان کے Aura میں سفید رنگ کا نظر آنا ان کی معصومیت کے برقرار رہنے اور روحانیت سے ان کی وابستگی کو ظاہر کرتا تھا، جو کہ ایک حیران کن چیز تھی۔

جیل کے وزٹ کے دوران قیدی بچوں کو مہیا کی جانے والی سہولیات حیران کن ہیں۔ بچوں کی تربیت کے لیے سب سے پہلا شعبہ ٹیلرنگ کا ہے۔ ایک درویش اللہ کا ولی ذاکر حسین نامی شخص پچھلے 26 سال سے جیل کے اندر یہ چھوٹی سی دکان چلا رہا ہے اور وہ کراچی جیل کے ہزاروں قیدی بچوں کو درزی کا کام سکھا کر کاریگر بنا چکے ہیں ماسٹر ذاکر حسین کو اب یہ بھی یاد نہیں کہ وہ کتنے ہزار بچوں کو درزی کا کام سکھا چکے ہیں۔ ان کے بےشمار شاگرد اپنی درزی کی دوکان بنا چکے ہیں اور بےشمار نے اس ہنر کو اپنا ذریعہ معاش بنا لیا ہے بلکہ پاکستان میں ہی نہیں مڈل ایسٹ اور سعودی عربیہ میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

ذاکر حسین کہتے ہیں کہ ان کے لیے یہ اعزاز بہت بڑا ہے کہ وہ جرائم اور کرائم میں ملوث لوگوں کو باعزت روزگار کے لیے ہنر بانٹنے کا موقع فراہم کر رہے ہیں، بچوں کی آنکھوں میں ان کے لیے محبت واضح طور پر نظر آرہی تھی۔

محبت کی بولی ہر جگہ اپنا رنگ دکھاتی ہے۔

یہ سبھی زمین کا حسن ہیں

سبھی اپنے ہیں

یہ گنہگار، یہ پاک باز

سدا رہیں۔

"یہ بھی پاکستان ہے"۔

***

یہ نارووال پنجاب پاکستان کے ایک گاؤں مالوکے تتلا جاٹ کا منظر ہے سکول جاتا ہوا محمد امین نامی چھوٹا بچہ اچانک ایک خوفناک کتے کو اپنی طرف لپکتا ہوا دیکھتا ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ کتا اس بچے کو کوئی ناقابل تلافی نقصان پہنچا دیتا ایک نوجوان عورت بڑی بہادری سے بچے کو اس کتے سے بچا لیتی ہے۔

وقت گزرتا ہے اور ایک معزز گھرانے سے تعلق رکھنے والا یہ بچہ نوجوان ہو جاتا ہے۔ کھیتی باڑی کے علاوہ طب کے پیشے سے وابستہ ہوتا ہے اور ہزاروں لوگوں کی زندگیوں میں تبدیلی لاتا ہے۔ حکیم محمد امین کے نام سے مشہور نوجوان طب اور روحانیت کے میدان میں اپنے والد حکیم فضل دین کا وارث تھا۔ اس نوجوان نے اپنے بچپن کا یہ واقعہ کبھی فرموش نہیں کیا۔ اس کی جان بچانے والی خاتون ایک غریب عیسائی فیملی سے تعلق رکھتی تھیں اس نوجوان نے ہمیشہ اس خاتون سے کہا کہ میں آپ کا مقروض ہوں خاتون کو اپنی بہن بنایا اور ساری زندگی اس خاندان کی خدمت کی جب اس عیسائی خاتون کا انتقال ہوا تو حکیم محمد امین اس کے گھر دیر تک میت کے قریب کھڑے ہو کر آنسو بہاتے رہے اور کہا آج میری بہن اس دنیا سے چلی گئی۔

ہوا ہے تجھ سے بچھڑنے کے بعد یہ معلوم
کہ تو نہیں تھا ترے ساتھ ایک دنیا تھی

"یہ بھی پاکستان ہے"۔

***

کچھ عرصہ پہلے فوڈ پانڈا سے منسلک ایک ڈلیوری بوائے نے گلہ کیا کہ جب وہ لوگوں کے گھروں میں جاتا ہے تو کچھ لوگ سختی سے بات کرتے ہیں۔ پانچ ہزار کا نوٹ ان کے پاس ہوتا ہے اور چینج نہ ہونے کی وجہ سے اسے مشکلات پیش آتی ہیں۔ اس کا گلہ بجا پانچ ہزار کا نوٹ دینے والے بھی کچھ لوگ موجود ہوں گے۔ آج آپ کا تعارف ایک ایسے شخص سے کرواتا ہوں جو فوڈ پانڈا یا کسی اور آن لائن ڈلیوری بوائے کی اپنے گھر آمد پر سب سے پہلے اس کی تواضع جوس یا کسی اور مشروب سے کرتا ہے۔ بل کے مطابق اماؤنٹ اور اس کے ساتھ ٹپ کی رقم پہلے سے تیار ہوتی ہے۔ ڈلیوری بوائے کا نام پوچھ کر اس کا شکریہ بھی ادا کیا جاتا ہے اور اس استقبال پر ان ڈلیوری بوائز کے چہرے پر موجود مسکراہٹ دیکھنے کے قابل ہوتی ہے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے اس نوجوان کو آپ جانتے ہیں۔ جی ہاں، وہ نوجوان میں ہی ہوں۔

شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

"یہ بھی پاکستان ہے"۔

اور یہ بھی نہیں بلکہ یہی پاکستان کا اصل چہرہ ہے یہ لوگ پاکستان کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ آئیے ہم سب مل کر اس ملک کو آگے بڑھانے کے لیے اپنے حصے کی اینٹ لگائیں۔

چھوڑو افسردگی کو جوش میں آؤ
بس بہت سوئے اٹھو ہوش میں آؤ

قافلے تم سے بڑھ گئے کوسوں
رہے جاتے ہو سب سے پیچھے کیوں

تم اگر چاہتے ہو ملک کی خیر
نہ کسی ہم وطن کو سمجھو غیر

ملک ہیں اتفاق سے آزاد
قوم کی عزت اب ہنر سے ہے

کوئی دن میں وہ دور آئے گا
بے ہنر بھیک تک نہ پائے گا

(الطاف حسین حالی)

اور مجید امجد یاد آگئے

پھول کی خوشبو ہنستی آئی
میرے بسیرے کو مہکانے

پاکستان پائندہ باد

About Muhammad Saqib

Muhammad Saqib is a mental health consultant who has been working in the fields of hypnotherapy, leadership building, mindfulness and emotional intelligence for over ten years. Apart from being a corporate trainer, he is involved in research and compilation and documenting the success stories of Pakistani personalities in the light of Mindscience. Well-known columnist and host Javed Chaudhry is also a part of the trainers team.

Check Also

Dil Ka Piyala

By Tauseef Rehmat