Sardar Begum Ka Vision, Kamyab Naslon Ki Bunyad
سردار بیگم کا وژن، کامیاب نسلوں کی بنیاد
آج کے کالم میں آپ کی ملاقات پاکستان کی مشہور کاروباری فیملی سے کرواتے ہیں اس فیملی کا منفرد اعزاز یہ ہے کہ پچھلے سو سالوں سے اس پوری فیملی کے کسی شخص نے ملازمت نہیں کی۔ آج 2024 میں اس فیملی کے لوگ پاکستان، دبئی اور لندن میں کامیابی کے ساتھ بڑے بڑے بزنس پروجیکٹس چلا رہے ہیں۔
آنکھوں میں چمک، مضبوط Aura، مقناطیسی شخصیت، لکھنو سٹائل کی اردو، طبیعت میں عاجزی اور الفاظ میں ٹھہراؤ، ہم بات کر رہے ہیں طاہر ملک صاحب کی۔ ان سے کی گئی گفتگو نے زندگی کے نئے رموز سے آشنا کیا۔
طاہر صاحب پاکستان کے مختلف شہروں میں ملٹیپل بزنسز کامیابی کے ساتھ چلا رہے ہیں۔ ان کی فیکٹریوں میں تیار شدہ پروڈکٹس گلف، یورپ اور امریکہ میں ایکسپورٹ کی جاتی ہیں۔ جیسا کہ بیان کیا کے مقناطیسی شخصیت کے مالک ہیں میرے فیورٹ سوال کہ کامیاب ہونے کے لیے جو کیپسول کھانے پڑتے ہیں ان کے بارے میں بتائیں جواب دیتے ہوئے چہرے پر مسکراہٹ آگئی اور مضبوط شخصیت کو کامیابی کی کنجی قرار دیا۔
آپ کی پرسنلٹی ایسی ہو کہ ملنے والا آپ کی عزت کرے۔ اپنے والدین کے بارے میں بتایا جن کی تربیت نے پوری فیملی کو ذہنی وسعت اور اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کے پروٹوکول سکھائے۔
اپنی والدہ سردار بیگم کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہنے لگے ثاقب بھائی میری والدہ درگزر کرنے پر یقین رکھتی تھیں کسی کا دل توڑنا، ایسا کوئی عمل ان کی ڈکشنری میں نہیں تھا۔ بقول بابا بلھے شاہ۔۔
مسجد ڈھا دے مندر ڈھا دے
ڈھا دے جو کچھ ڈھیندا
اک بندیاں دا دل نہ ڈھاویں
رب دلاں وچ رہندا
اپنے عمل کے ذریعے بچوں کی تربیت پر یقین رکھتی تھیں سچ بولنا، ٹائم کی پابندی کرنا، حق پر ہوتے ہوئے بھی جھگڑے سے ہٹ جانا، صبر کرنا، خاندان سے جڑ کر رہنا اور پاکستان سے محبت کرنا یہ اوصاف ان کی شخصیت کا حصہ تھے اور ان کے بچوں نے یہ سب کچھ بچپن میں ہی سیکھ لیا تھا۔
شیخ سعدی کہتے ہیں "زمین پر آسمان سے پانی برستا ہے اور زمین سے آسمان پر غبار جاتا ہے یعنی ہر برتن سے وہی ٹپکتا ہے جو اس میں بھرا ہو"۔
اپنے والدین سے سیکھی ہوئی عاجزی ان کی شخصیت میں نظر آئی۔ طاہر ملک صاحب سے پہلی ملاقات چیمبر آف کامرس میں ہوئی اس ملاقات کے بعد بھی میٹنگز ہوئیں اور کہیں بھی ایسا محسوس نہیں ہوا کہ آپ ایک بڑے آدمی سے ملاقات کر رہے ہیں خیالات میں وسعت یعنی آج کی زبان میں ویژنری انسان لیکن ساتھ ہی عاجزی۔
اپنی والدہ سردار بیگم کے بارے میں گفتگو جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ بردباری، وضعداری اور اصول پرستی ان کی والدہ کی ذات کا خصوصی امتیاز تھے۔
محترم دوستو! آپ اپنے بچوں کی تربیت کے لیے طاہر ملک کی والدہ کے بتائے ہوئے طریقوں کو فالو کر سکتے ہیں۔ بچوں کو بچپن سے دینے کی عادت سکھائی، لنچ باکس میں موجود ایک روٹی آپ کی ہے اور دوسری آپ کے دوست کی۔
لائن میں لگنا، کچرا نہ پھینکنا، اپنا کمرہ خود سیٹ کرنا، اساتذہ اور بڑوں کا احترام کرنا اور بچوں کی رسپیکٹ کرنا۔
اس کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کے دوستوں پر نظر رکھنا کہ کہیں وہ نکمے آوارہ اور بے وقوف بچوں کی صحبت میں اٹھتا بیٹھتا تو نہیں ہے۔
اس فلسفے کو سمجھتے ہیں۔
مولانا رومی اپنی ایک حکایت میں بیان کرتے ہیں۔
حضرت عیسیؑ تیز تیز قدم اُٹھاتے ہوئے ایک پہاڑ کی طرف جا رہے تھے۔ ایک آدمی نے بلند آواز سے پکار کر کہا اے خدا کے رسولؑ! آپ اس وقت کہاں تشریف لے جا رہے ہیں۔ وجہ خوف کیا ہے؟ آپؑ کے پیچھے کوئی دشمن بھی تو نظر نہیں آتا"۔
حضرت عیسیؑ نے فرمایا: "میں ایک احمق آدمی سے بھاگ رہا ہوں تو میرے بھاگنے میں خلل مت ڈال"۔
اس آدمی نے کہا: یا حضرت آپ کیا وہ مسیحاؑ نہیں ہیں؟ جن کی برکت سے اندھا اور بہر اشفایاب ہو جاتا ہے۔ آپؑ نے فرمایا ہاں۔
اس آدمی نے کہا، کیا آپ وہ بادشاہ نہیں ہیں جو مردے پر کلام الہی پڑھتے ہیں اور وہ اُٹھ کھڑا ہوتا ہے"۔
آپؑ نے فرمایا: ہاں۔
اس آدمی نے کہا: " کیا آپؑ وہ ہی نہیں ہیں کہ مٹی کے پرندے بنا کر ان پر دم کر دیں تو وہ اسی وقت ہوا میں اُڑنے لگتے ہیں"۔
آپؑ نے فرمایا: بے شک میں وہی ہوں۔
پھر اس شخص نے حیرانگی سے پوچھا کہ: "اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو اس قدر قوت عطا کر رکھی ہے تو پھر آپؑ کوکس کا خوف ہے"۔
حضرت عیسی علیہ اسلام نے فرمایا: "اس رب العزت کی قسم کہ جس کے اسم اعظم کو میں نے اندھوں اور بہروں پر پڑھا تو وہ شفا یاب ہو گئے پہاڑوں پر پڑھا وہ ہٹ گئے۔
مردوں پر پڑھا وہ جی اٹھے۔ لیکن وہی اسم اعظم میں نے احمق پر لاکھوں بار پڑھا لیکن اس پر کچھ اثر نہ ہوا۔
اس شخص نے پوچھا: یا حضرت علیہ اسلام یہ کیا ہے، کہ اسم اعظم اندھوں، بہروں اور مردوں پر تو اثر کرے لیکن احمق پر کوئی اثر نہیں کرتا۔ حالانکہ حماقت بھی ایک مرض ہے"۔
حضرت عیسیؑ نے جواب دیا: "حماقت کی بیماری خدائی قہر ہے"۔
محترم دوستو! کیا آپ لوگ جانتے ہیں کہ آپ کے بچے کا دوست کون ہے خود اپنی کمپنی پر بھی نظر دوڑائیں آپ کو اپنے آگے نہ بڑھنے کی وجہ سمجھ میں آجائے گی۔
طاہر ملک کے والد محترم نور محمد صاحب نے 1962 میں اٹلانٹک شپرز لمیٹڈ کے نام سے ایک شپنگ کمپنی کی بنیاد ڈالی تین عدد کسٹم لائسنس حاصل کرکے پاکستان کی دوسری بڑی کسٹم کلیرنگ کمپنی کا اعزاز حاصل کیا۔
اس کے بعد اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر ظفر برادرز نامی بزنس گروپ کی داغ بیل ڈالی ان کے لگائے ہوئے پودے تناور درختوں میں تبدیل ہوئے۔
آج طاہر ملک صاحب فٹبال یورپ میں ایکسپورٹ کرتے ہیں لیدر انٹرسٹری کی اور بھی بے شمار مصنوعات یورپ اور دنیا کے دوسرے ملکوں میں ایکسپورٹ کی جاتی ہیں۔ ان کی والدہ کی دی ہوئی مضبوط تربیت کی ہم بات کر رہے ہیں۔ مائنڈ سائنس یہ بتاتی ہے کہ بچپن کے بنائے ہوئے یقین ساری زندگی انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ بچپن کی بھوک، غیر یقینی، خوف، ضرورت سے زیادہ حساسیت، ڈرتے رہنا جھوٹ بولنا، لڑائی جھگڑے کرنا، بڑوں کی عزت نہ کرنا یہ چیزیں اگر دماغ کے اندر بیٹھ جائیں تو کسی حد تک انسان کی فطرت کا حصہ بن جاتی ہیں۔
ایک دلچسپ واقعہ یاد آگیا کراچی کے بلڈرز کی ضیافت کے لیے ایک حلیم پارٹی کا انعقاد کیا گیا شہر کے ایک بڑے میرج ہال میں یہ تقریب منعقد ہوئی۔
میں بھی اس دعوت میں شامل تھا اس تقریب میں آنے والے 95 فیصد لوگ کروڑ پتی تھے لیکن کھانا کھاتے ہوئے اصراف کا مظاہرہ کر رہے تھے اور ہر شخص واپسی پہ پارسل کی صورت میں حلیم اپنے ساتھ لے کر جا رہا تھا حالانکہ کروڑوں روپے کمانے والے شخص کے لیے دو تین ہزار روپے کی حلیم کی کوئی اہمیت نہیں ہونی چاہیے لیکن وہی بچپن کی بھوک اور تربیت کروڑ پتی بننے کے باوجود ان کی شخصیت کا حصہ تھی۔
اگر آپ اپنے ماں باپ کی عزت کرتے ہیں اور ان کا خیال رکھتے ہیں تو آپ کا بچہ بھی بڑا ہو کر آپ کا خیال رکھے گا اور عزت کرے گا۔ طاہر ملک کی والدہ سردار بیگم مادر ملت فاطمہ جناح اور بیگم رعنا لیاقت علی خان کے قریبی ساتھیوں میں سے تھیں۔ فاطمہ جناح کے الیکشن کے موقع پر ان کی بھرپور سپورٹ کی۔ فاطمہ جناح کی شخصیت قائد اعظم کے اصولوں اتحاد، تنظیم اور یقین محکم کا عکس تھی۔ سردار بیگم نے بھی یہ چیزیں مادر ملت کے ساتھ رہ کر سیکھیں۔
آپ نے بیگم رعنا لیاقت علی خان کے نام پر قائم ہونے والے گل رعنا کلب کی بنیاد رکھی۔ آپ کا شمار بیگم اصفہانی کی قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا۔ طاہر ملک کے علاوہ ان کے بیٹے ظفر ملک، جاوید ملک، شاہد ملک اور طارق ملک آج بھی پاکستان میں ہزاروں لوگوں کو باعزت روزگار فراہم کر رہے ہیں اور اپنی کوالٹی مصنوعات کے ذریعے پوری دنیا میں پاکستان کا جھنڈا بلند کر رہے ہیں اور آخر میں اپنی پوری زندگی پاکستان کی سربلندی اور اولاد کی تعلیم کے لیے وقف کرنے والی اس آہنی خاتون کے عزم کی عکاسی کرتی ہوئی مشہور صوفی شاعر شاہ حسین کی یہ کافی۔۔
مستک جنہاں دے پئی فقیری، بھاگ تنہاں دے چنگے
سرت دی سوئی پریم دے دھاگے، پیوند لگے ست سنگے
کہے حسین فقیر سائیں دا، تخت نہ ملدے منگے
ترجمہ: انہی کے بھاگ اچھے ہیں جن کے ماتھے پر دل کا اطمینان لکھ دیا گیا ہے۔ بیداری کی سوئی نے عشق کے دھاگے سے ہمارے کٹے پھٹے جیون کو کچی دھجیوں سے جوڑ دیا۔ شاہ حسین اپنے مالک کا فقیر کہتا ہے، (میدان تو مارنا پڑتا ہے) صرف خواہش کرنے سے تخت کہاں ملتے ہیں۔