Mujhay Zindagi Mein Kitne Paise Kamane Chahiyen (1)
مجھے زندگی میں کتنے پیسے کمانے چاہییں (1)
گھر کے ایک کونے میں موجود پورشن میں دنیا جہان سے اکٹھے کیے ہوئے کپ ترتیب کے ساتھ سجائے ہوئے تھے گھر میں ہی قائم لائبریری میں کتابوں کی خوشبو کے ساتھ پرانے کیسٹ، سی ڈیز اور گراموفون کے ریکارڈز موجود تھے کھڑکی کی جالی سے باہر پودوں کی خوشبو اور پرندوں کی چہکار تھی۔ 70 سے زیادہ ملکوں کی سیاحت کرنے والے شکیل احمد خان کا گھر قدامت اور ماڈرن سہولیات کا ایک حسین گہوارہ ہے۔
ان کے گھر پر چائے پیتے ہوئے میں نے زندگی کی 60 سے زیادہ بہاریں دیکھنے والے نوجوان سے پوچھا کہ شکیل صاحب آپ کے چہرے پر جو طمانیت اور آسودگی ہے اس کے پیچھے کیا حکمت ہے اور ساتھ ہی اپنا پسندیدہ سوال پوچھ لیا کہ آپ کی نظر میں کامیابی کے لیے کون سا کیپسول کھایا جائے انہوں نے کہا ثاقب بھائی کامیابی کچھ عادات کے مجموعے کا نام ہے۔
جس میں سب سے پہلے آپ کو اپنے کام کے اینڈ رزلٹ کا پتہ ہونا چاہیے یعنی جو بھی کام آپ کر رہے ہیں اس کی تکمیل کے بعد آپ کو کیا چیز ملے گی؟
شکیل احمد خان پیشے کے لحاظ سے انجینیئر ہیں اور کئی دہائیوں تک بحری جہازوں میں سفر کرتے رہے 70 سے زائد ملکوں کی خاک چھانی ریٹائرمنٹ کے بعد ہکلانے کی سائنس میں ڈاکٹریٹ کی۔ پاکستان کے مشہور سپیچ تھراپسٹ ہیں۔
امریکن بورڈ آف ڈس ایبیلٹی میں ڈپلومیٹ اینالسٹ ہیں کہتے ہیں سفر کرنا دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی سے علم حاصل کرنے کے برابر ہے۔ ان سے کی گئی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہیں۔
کہنے لگے ثاقب بھائی میں جوانی میں ہی اللہ تعالی سے کلام کیا کرتا تھا کہ میرا مقصد حیات کیا ہے مجھے زندگی میں کتنے پیسے کمانے چاہییں کتنے گھر اور گاڑیاں چاہییں کیا حاصل کر لوں کہ دل مطمئن ہو جائے خوش قسمت انسان ہیں اس سوال کا جواب حاصل کیا اور جب ایک مخصوص لائف سٹائل حاصل کر لیا تو اپنی رفتار آہستہ کر لی اپنے بچوں کو بڑا ہوتا ہوا دیکھا فیملی کو کوالٹی ٹائم دیا۔
مشہور ٹرینر عارف انیس ملک یاد آگئے
کہتے ہیں"دئیر از اے سیزن فار ایوری تھنگ"۔
نماز کی طرح محبت کا بھی ایک وقت ہے۔ جب سب کچھ چھوڑ کر صرف محبت کرنی چاہیے۔ محبت کو اس کے جائز لمحے اور جائز وقت پر لوٹانا ہی اس کا حق ہے۔ محبت کا اصل لمحہ بیت جائے تو جذبات کھنڈر ہو جاتے ہیں۔ کھنڈروں میں کبھی بھی چاہت کے پھول نہیں اُگتے"۔
محبت اپنا خراج مانگتی ہے۔ محبت کو پوری توجہ کے ساتھ اس کا خراج اسی وقت ادا ہونا چاہیے کہ محبت کی تو ویسے بھی قضا نہیں ہوتی۔
یہی دن ہیں محبت کے
یہی موسم ہے ملنے کا
یہ دن گزرے تو پھر تیرا
سراپا کون دیکھے گا
ان کی یہ بات سن کر مجھے کتنے پیسے کمانے چاہییں میں نے خود سے یہ سوال کیا کہ کیا میرے پاس اس سوال کا جواب ہے کہ تیزی سے بھاگتی ہوئی اس زندگی میں مجھے بریک پر پاؤں کب رکھنا ہے؟ محترم دوستو! یہی سوال آپ لوگ بھی اپنے آپ سے پوچھیں کہ زندگی میں کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ جس ریس کا آپ حصہ بنے ہوئے ہیں اس میں کہیں پر رکنے کا اشارہ بھی لگا ہوا ہےکیا آپ اس اشارے سے واقف ہیں؟ اگر نہیں تو اس پرنسپل کو پلے سے باندھیں اور اینڈ کو ذہین میں رکھتے ہوئے اپنی لائف کو پلان کریں۔
دوسرا پرنسپل فیملی بانڈنگ پر زور دیتا ہے انہوں نے کہا کہ ماں باپ اور فیملی انمول ہوتی ہے۔ اگر آپ اپنی فیملی کو کوالٹی ٹائم نہیں دے پا رہے تو آپ کی کامیابیاں سراب کی مانند ہیں۔ اگر پاکستان کے طول و عرض میں نظر دوڑائی جائے تو بے شمار بنگلے آپ کو ایسے نظر آئیں گے جس میں کوئی بوڑھا شخص تمام آسائشوں کے باوجود تنہا زندگی گزار رہا ہے۔
مشہور رائٹر عرفان جاوید نے متنصر حسین تارڑ صاحب کے حوالے سے ایک بات شیئر کی۔
ایک مرتبہ وہ بیمار ہو گئے اور وہ بیماری خاصی پیچیدہ اور نازک صورت حال اختیار کر گئی۔ وہ اسپتال میں داخل ہوئے اور ان کے پے در پے کئی آپریشن ہوئے۔ کئی روز وہ بے ہوشی اور نیم ہوشی کے درمیان جھولتے رہے۔ جب وہ مکمل صحت یاب ہو کر اپنے گھر لوٹ آئے تو میں نے اُن سے پوچھا کہ ان جیسے تخلیقی ذہن کے قد آور ادیب نے اس بیماری سے کہ سے کیا کوئی نئی بات سیکھی۔ وہ کچھ دیر سوچتے رہے اور بولے " یہ حقیقت میں پہلے بھی جانتا تھا مگر اب میرے دل و دماغ میں پوری طرح جذب ہوگئی ہے۔ یہ شہرت، مقبولیت، نام، مقام سب نظر کا دھوکا ہے۔ جو چیز حقیقی ہے وہ انسان کا خاندان اور دو چار ہم درد سچے دوست ہیں۔ پس باقی سب فریب نظر ہے۔ چند روز بعد ایک ہوٹل میں کھانے کے دوران جب میں نے یہ بات امجد اسلام امجد اور چوٹی کے چند ادبیوں کے سامنے دہرائی تو وہ یک زبان بول اٹھے کھرایچ ہے۔ بے شک یہی سچ ہے"۔
شکیل صاحب ایک بیٹی اور بیٹے کے والد ہیں ان کی شریک حیات ڈاکٹر ہیں اور موجودہ قومی اسمبلی کی ممبر ہیں جیسا پہلے بیان کیا کہ اللہ تعالی سے چیزیں پوچھتے تھے چونکہ چیزوں پر غور کرتے رہتے تھے اس لیے تخلیقی صلاحیتیں بھی بیدار ہوتی رہتی تھی اپنے خواب صبح اٹھ کر رجسٹر پر لکھ لیتے تھے اپنی یاداشتوں پر مبنی نثری نظم کی ایک کتاب "مٹی سے مکالمہ" کے نام سے لکھی۔
اسی کتاب میں اپنی شریک حیات کے بارے میں لکھتے ہیں۔
میری سماعت
اُس کے کھنکتے لہجے سے
بہلتی ہے
مگر آہنگ میرے گھر کا تو
اس کی چوڑیوں کی
سنگیت میں ہے
ایک اور ملاقات میں دلچسپ بات بتائی کہ ان کے امریکہ میں مقیم بھتیجے سے اسکول میں پوچھا گیا کہ آپ کے خاندان میں کسی نے کوئی بڑا کام کیا ہو تو اس کے بارے میں بتائیں ان کا بھتیجا اگلے دن ان کی لکھی ہوئی کتاب لے کر سکول چلا گیا اس دن سے سکول میں اس کی عزت بڑھ گئی کہ اس کے تایا ایک مصنف ہیں۔
کامیابی کا تیسرا پڑاؤ انہوں نے روزانہ سیکھنے کی عادت کو قرار دیا۔ میں نے پوچھا آپ نے تقریبا 15 مختلف قومیت کے لوگوں کے ساتھ کام کیا ان میں اور ہم پاکستانیوں میں کیا فرق ہے جواب دیا انڈیا کے لوگ ہمیشہ نئی بات سیکھنے کے لیے تیار رہتے ہیں نئے مواقع کی تلاش میں ہوتے ہیں اور سبکی (بےعزتی) کو برداشت کر لیتے ہیں، بنگالی لوگ جذباتی لیکن فوکسڈ ہوتے ہیں، جاپانی اصول پسند اور وعدے کے پکے ہوتے ہیں، چائنیز محنتی ہوتے ہیں اپنا کھانا خود بناتے ہیں، فلپائن کے لوگوں کے بارے میں دلچسپ بات بتائی کہ ان کے مرد اور خواتین سکلڈ ہوتے ہیں یہ چھٹیوں پر جب اپنے ملک جاتے ہیں تو مختلف ورکشاپس اٹینڈ کرتے ہیں اور واپسی پر اور زیادہ ہنر سیکھ کر واپس آتے ہیں۔
پاکستانیوں کے بارے میں بتایا کہ آرام پسند ہوتے ہیں اختلاف رائے برداشت نہیں کر پاتے اپنی بات منوانے کی کوشش کرتے ہیں اور زیادہ تر لوگ پیشہ ورانہ اپروچ کا مظاہرہ نہیں کر پاتے۔
کامیابی کے اگلے اصول کی بات کرتے ہوئے سننے کی اہمیت پر زور دیا کہ ہمیں سماعت کا ہنر آنا چاہیے شکیل صاحب آواز کو بہتر کرنے کی ورکشاپس کرواتے ہیں کہتے ہیں آواز کو خوبصورت کرنے سے آپ ایک اچھے شوہر، اچھے باپ، اچھے باس اور محفل کی جان بن سکتے ہیں۔ میریٹ ہوٹلز کے بانی بل میریٹ یاد آگئے انہوں نے کہا کہ اللہ تعالی نے ہمیں ایک زبان اور دو کان دیے ہیں اس لیے ہمیں کانوں کا زیادہ استعمال کرنا چاہیے، انہوں نے باقاعدہ سننے کا فن سیکھا اور اسی فن کو استعمال کرکے پوری دنیا میں ایک بڑی بزنس ایمپائر کھڑی کر دی اور پاکستان میں جہاں ہر شخص بات کرنا چاہتا ہے اگر کوئی شخص اچھا سامع ہو تو اسے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنانے میں بہت کم وقت لگے گا۔ زبان کی غلامی خواہ وہ بلاوجہ بولنے کی صورت میں ہو یا کھانے کے چسکے کی شکل میں ہواس سے چھٹکارا پانا ضروری ہے۔
خود میں اپنا تجربہ آپ سے شیئر کرتا ہوں میں لائف کوچنگ کے ون آن ون سیشن لیتا ہوں بہت سے سیشنز ریفرنس سے ملتے ہیں اور سیشن لینے کے بعد جب ان صاحب سے ملاقات ہوتی ہے جنہوں نے کلائنٹ کا ریفرنس دیا تھا تو میں پوچھتا ہوں کہ انہوں نے سیشن کا کیا فیڈ بیک دیا زیادہ تر کلائنٹس کی طرف سے جواب ملتا ہے کہ ثاقب صاحب بہت قابل انسان ہیں بہت زیادہ علم رکھتے ہیں اور میں نے دوران گفتگو ان سے بہت کچھ سیکھا کلائنٹس کا یہ فیڈ بیک سن کر میرے چہرے پر مسکراہٹ آ جاتی ہے کیونکہ اس سیشن کے دوران میں صرف سنتا رہتا تھا اور زیادہ تر گفتگو کلائنٹ نے ہی کی تھی یہ سننے کی طاقت ہے جوشخصیت اور علم کی مضبوطی کو ظاہر کرتی ہے۔
شکیل صاحب نے فلسفے میں بھی ماسٹرز کیا اور انجینئرنگ کے بعد ہکلانے کی سائنس میں ڈاکٹریٹ کرکے یہ بتایا کہ انسان ایک زندگی میں بہت سے کاموں میں مہارت حاصل کر سکتا ہے۔
جاری ہے۔۔