Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Saqib
  4. Khwab Dekhne Wala

Khwab Dekhne Wala

خواب دیکھنے والا

نیوزی لینڈ کے شہر کرائسیٹ چرچ کے مشہور دریا ایوان Evon کے کناروں پر خاموشی سے چلتا ہوا پاکستانی نوجوان گہری سوچوں میں گم نظرآرہا تھا۔ دریا کی پرسکون لہریں، پرندوں کی پروازیں اور اس پاس بکھری ہوئی فطرت کی رعنائیاں۔ یہ منظر انسان کے اندر ٹھہراؤ اور سکون بھر رہا تھا اور کوئی بڑا فیصلہ کرنے کے لیے جذباتی توازن پیدا کرنے کا ایک بڑا سورس تھا۔ یہ 2003 کی ایک سرد شام تھی اور 40 کے لپیٹے میں آئے ہوئے اس نوجوان نے آج اپنی زندگی کا ایک important فیصلہ کرنا تھا۔

یہ داستان ہے میرے دوستو!ڈاکٹر شہاب ہاشم کی، بڑا خواب دیکھنے کی، مسلسل محنت کی اور کچھ ایسا کرکے جانے کی جو لاکھوں لوگوں کی زندگی میں مثبت تبدیلی لے کر آئے۔

پچھلے ہفتے ہم کچھ دوست کراچی میں سمندر کے کنارے بنے ہوئے خوبصورت ریسٹورنٹ میں کافی پیتے ہوئے یونی سیف Unicef کے senior ہیلتھ سپیشلسٹ ڈاکٹر شہاب ہاشم کی لائف سٹوری پلکیں چھپکائے بغیر سن رہے تھے۔

ثاقب صاحب، ڈاکٹر صاحب نے روانی کے ساتھ ہماری توجہ دوبارہ سے کرائسٹ چرچ کی اس سرد شام کی طرف دلائی۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ فیصلہ کرنے کی صلاحیت decision making انسان کی زندگی میں کتنی اہم ہے۔ اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ دنیا کے ٹاپ CEOs سے لیڈرشپ کی بڑی خوبیوں کے بارے میں پوچھا گیا تو ڈسیژن میکنگ سب سے اوپر نظر آئی اور اس دن ڈاکٹر شہاب نے بھی ایک بڑا فیصلہ کیا۔

نیوزی لینڈ کی متوقع نیشنلٹیNationality کو چھوڑ کر پاکستان واپس آنے کا۔ اپنی مٹی اور اپنے لوگوں کے درمیان۔

یادوں کو کریدتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ یہ ایک مشکل فیصلہ تھا اس وقت نیوزی لینڈ میں موجود زیادہ تر پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور اور دیگر لو پروفائل low profile جابز کرتے تھے اور ڈاکٹر صاحب کی سائیکیٹری وارڈ میں گورنمنٹ جاب تھی۔

کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے اس ویژنری انسان نے بتایا کہ پاکستان واپسی پر ایسا لگا کہ ہر پتھر، درخت، منظر اور انسان ہمیں خوش آمدید کہہ رہا ہے۔ ایک بڑا خواب ان کی آنکھوں کے سامنے تھا۔

ڈاکٹر صاحب سکول لائف میں ہر کلاس میں امتیازی نمبروں سے پاس ہوا کرتے تھے اور ایف ایس سی میں کوئٹہ بورڈ میں چوتھی پوزیشن حاصل کی۔ نشتر میڈیکل کالج ملتان میں گزرے ہوئے شب و روز آج بھی ان کی یادوں میں جگنو کی طرح چمکتے ہیں۔

بتاتے ہیں کہ ہم پڑھائی میں اتنے مگن ہو جاتے کہ پورا پورا مہینہ سورج کو دیکھے بغیر گزر جاتا۔ پریکٹیکل لائف کے دلچسپ واقعات بیان کرتے ہوئے لاہور کے مینٹل ہسپتال میں گزارے ہوئے چیلنجز کو یاد کیا۔

میں نے پوچھا، بحیثیت سائکیٹرسٹ کام کرتے ہوئے شخصیت میں کیا تبدیلی آئی؟ کوالٹی listening، برداشت، شخصیت میں ٹھہراؤ، غصے پر کنٹرول اور بھرپور اعتماد انہی دنوں میں سیکھا۔

ڈاکٹر صاحب لندن میں بحیثیت سٹوڈنٹ گزارے ہوئے دنوں کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ہم 38 سٹوڈنٹس کا تعلق 30 مختلف ممالک سے تھا۔ وہاں سے peer learningکا کانسپٹ concept سیکھا۔ زندگی کچھ نئی جہتوں میں سامنے آئی اور کام کرنے کے وسع تر امکانات دماغ میں روشن ہوئے۔

یونیسیف کو جوائن کرنے کے بعد ڈاکٹر صاحب کو وسیع کینوس میں کام کرنے کا موقع ملا۔ quick decision making اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھنا ڈاکٹر صاحب کی پہچان بنا اور چیلنجنگ ٹاسک کے لیے ڈاکٹر صاحب سب سے پہلی ترجیح بن گئے۔

پولیو پروگرام سے وابستہ ہونے کے بعد مختلف شعبوں میں انقلابی تبدیلی کی۔ ویکسین مینجمنٹ سائیکل کی ٹیم میں ڈاکٹر صاحب کا کردار کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ پولیو پروگرام میں کمیونٹی مینجمنٹ کو نیکسٹ لیول پر لے کر جانے میں بھی دن رات محنت کی پھر 2015 میں جینوا میں ہونے والی ایک کانفرنس کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ڈیٹا سپورٹ سینٹر قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ سینٹرز کیسے کام کریں گے، کتنے شہروں میں ہوں گے اور اس کا امپیکٹ کیا آئے گا اس ٹیم میں بھی ڈاکٹر صاحب کا کردار یاد رکھا جائے گا۔

پروگرام میں ڈیٹا کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے بتایا کہ جیفری مور کہتا ہے کہ ڈیٹا کے بغیر آپ اپنے سفر میں گویا گونگے اور بہرے ہیں۔ کلائیو کہتے ہیں ڈیٹا ایک نئی کرنسی ہے ستایا نا ڈیلا کہتی ہیں ڈیٹا آپ کے سامنے وہ سلویوشن رکھتا ہے جس کے بارے میں آپ نے پہلے نہیں سوچا تھا۔

اور پاکستان میں ڈیٹا سپورٹ سینٹرز کے اؤٹ کم outcome توقعات سے بھی زیادہ تھے وقت گزرنے کے ساتھ ایسے بچوں کی ہسٹری تیار کی گئی جو مہینوں سے ویکسینیٹ نہیں ہوئے تھے آرٹیفیشل انٹیلیجنس کو استعمال کرتے ہوئے ان بچوں کا access ایک کلک پر دستیاب ہے۔

میں نے پوچھا اپنے کمفرٹ زون کو چھوڑ کر نئے ٹاسک میں حصہ لینا اس کے پیچھےمحرک کیا ہے؟

ہلکی سی مسکراہٹ سے جواب دیا، ایک ہی خواب ہے، پاکستان اور دنیا کو پولیو فری دیکھنا۔

کامیابی کا سیکرٹ پوچھا اور نوجوانوں کا پسندیدہ سوال کیا کامیاب ہونے کا کوئی شارٹ کٹ بھی ہے؟

متانت اور سنجیدگی سے بتایا، کامیابی کا کوئی شارٹ کٹ نہیں یہ کچھ عادات کا مجموعہ ہے۔

1۔ محنت، مسلسل محنت، جان توڑ محنت۔

2۔ ایمانداری اور Ethics.

3۔ اپنے خوابوں پر سمجھوتہ نہ کرنا۔

4۔ ایک مضبوط why کا موجود ہونا۔

5۔ فیملی سپورٹ اور اللہ تعالی سے مدد مانگنا۔

انہوں نے کہا خوابوں کا یہ سفر زندگی کی آخری سانس تک جاری رہے گا۔

محترم پڑھنے والو! ہم بھی ڈاکٹر شہاب ہاشم کی طرح بڑے خواب دیکھیں اور ان خوابوں کی تعبیر میں اپنے آپ کو لگا دیں۔

آپ کا خواب کیا ہے؟ اور ڈاکٹر صاحب کا خواب ایک پولیو فری ورلڈ جلد ہی ہماری آنکھوں کے سامنے ہوگی۔

Check Also

Insaf Kaise Milega?

By Rao Manzar Hayat