Saturday, 02 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Saqib
  4. Kamyabi Ke 10 Asool

Kamyabi Ke 10 Asool

کامیابی کے دس اصول

کامیابی کی سائنس پر بات کریں تو گوروں کے بیان کیے ہوئے پرنسپل ذہن میں آتے ہیں ڈیل کار نیگی سے شروع ہونے والا سفر آج کے دور میں وارن بفٹ، بل گیٹس سٹیو جابز اور ایلون مسک کی عادات کے مطالعے پر ختم ہوتا ہے ان کے بتائے ہوئے پروٹوکولز ٹریننگ کی ورکشاپس میں بیان کیے جاتے ہیں ان لوگوں کا کمال یہ بھی ہے کہ اپنی زندگی کو کتابوں کی شکل میں دنیا کے سامنے پیش کر دیا۔

گوروں کے بعد ان ٹریننگ سیشنز میں انڈیا کے لوگوں کی کامیابی کی مثالیں بیان کی جاتی ہیں کالم پڑھنے کے شوقین لوگ کالمز میں بھی انہی لوگوں کی کامیابی کی داستانیں دہائیوں سے پڑھ رہے ہیں پاکستان کے کامیاب لوگوں کے بارے میں لوگ نہیں جانتے انڈیا سے موازنہ کریں تو ہر ہفتے ہمیں ایک کامیاب شخص کے بارے میں پتہ چلتا ہے غربت سے شروع ہونے والا سفر ایک بڑے سٹارٹ آپ اور بزنس ایمپائر میں کنورٹ ہوگیا یوٹیوب انڈین موٹیویشنل ٹرینرز کی ویڈیو سے بھرا پڑا ہے کیا ہماری مٹی بھی ایسے لوگ پیدا کر رہی ہے؟

جی ہاں ایسے لوگ پاکستان میں موجود ہیں انہی میں سے ایک امبیلہ بونیر سے تعلق رکھنے والے انجینیئر ڈاکٹر نقاب خان ہیں۔ نقاب خان نے پہاڑوں اور سڑکوں پر مزدوری کی ٹرک پر کلینر کے طور پر کام کیا مختلف اداروں میں بنیادی ٹیکنیکل لیول کی جاب سے کیریئر کا آغاز کیا ساتھ ساتھ سیکھتے رہے انٹرنیشنل سطح پر کام کرنے کا موقع ملا پی ایچ ڈی کی جدہ میں رہائش پذیر ہیں اور پچھلے 22 سال سے کامیابی سے اپنی کمپنی انٹرنیشنل لیول پر چلا رہے ہیں ان کی زندگی سے اخذ کردہ کامیابی کے دس اصول آپ کی خدمت میں پیش کیے جا رہے ہیں۔

اپنے بچپن کے بارے میں بتاتے ہیں کہ گھر میں غربت تھی ان کے والد پردیس خان محنت مزدوری کرتے تھے اپنے ہاتھ کی کمائی کو عبادت سمجھتے تھے سید ہونے کی وجہ سے کسی سے مدد لینے میں عار محسوس کرتے تھے والدہ ماجدہ کا نام بی بی زرقیشہ ہے سارا دن ہاتھ سے سلائی مشین پر کپڑے سیتی رہتیں مہمان نواز اور سلجھی ہوئی شخصیت کی مالک ہیں۔ ان دنوں میں نقاب خان کہتے ہیں کہ مجھے ایسا محسوس ہوتا کہ میں اس گائے کی مانند ہوں جو کھاتی ہے پیتی ہے لیکن دودھ نہیں دیتی یعنی بچپن ہی سے خوددار تھے۔ یہ کامیابی کا پہلا بنیادی پرنسپل ہے اگر آپ کے اندر کرنٹ ہی نہیں ہے تو آپ کے لیے آگے بڑھنا مشکل ہے۔

ہم نے کالم کے ابتدائی حصے میں بیان کیا کہ ایک چھوٹے علاقے امبیلہ سے ان کا تعلق تھا مواقع محدود تھے لہذا ہجرت کا فیصلہ کیا اور کراچی آگئے۔

قناعت نہ کر عالم رنگ و بو پر
چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں

محترم دوستو اب اس منظر پر غور کیجئے گا ایک امپورٹنٹ پرنسپل ہم یہاں سے سیکھیں گے کراچی آنے کے بعد سٹیشن سے نکل کر ایک بڑی ٹیکسٹائل مل کے باہر موجود ہوٹل پر پہنچتے ہیں ہوٹل والا کہتا ہے آپ کے گاؤں کے بہت سے لوگ اس مل میں کام کرتے ہیں کچھ دیر میں ان میں سے کوئی شخص آجائے گا تو آپ اس کے ساتھ چلے جانا اور ایسا ہی ہوتا ہے۔ رہائش، بنیادی سطح کی ملازمت اور دیگر بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے میں ان کے گاؤں کے لوگ مدد کرتے ہیں اور یہ سلسلہ ساری زندگی چلتا رہتا ہے ایران جاتے ہیں کویت جاتے ہیں سعودی عرب میں زندگی کا طویل عرصہ گزارتے ہیں ہر جگہ ان کے اپنے لوگ موجود ہوتے ہیں اور یہ لوگ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔

کیا آپ لوگ بھی مل کر رہتے ہیں آپ کا کوئی قبیلہ ہے کیا کوئی اجنبی نوجوان اس طرح اپنے گاؤں سے نکل کر بغیر اپنے لوگوں کی سپورٹ کے کامیاب ہو سکتا ہے۔

ملازمت کے حصول کے بعد نقاب خان نے جان توڑ محنت کی اور کیریئر کے شروع میں ہی کئی ڈپارٹمنٹس کے انچارج کی حیثیت سے کام کرتے رہے لیکن وہ جانتے تھے کہ وہ اکیلے نہیں ہیں سینکڑوں لوگ ان کو سپورٹ کرنے کے لیے موجود ہیں کراچی میں میرے دوست عزیز خان کہتے ہیں ثاقب بھائی "اگر شیر بھی کسی جگہ پر اکیلا رہنا شروع کر دے تو آوارہ کتے اسے گھیر لیتے ہیں"۔

یہاں پر ہم نے تین اصول سیکھے ہجرت کرنا اپنے لوگوں کے ساتھ رہنا اور سخت محنت کرنا۔

نقاب خان کہتے ہیں کہ پہاڑی علاقوں میں لوگ صبر کے ساتھ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا کر چلتے ہیں تیزی سے لمبے قدم اٹھانے والے جلدی تھک جاتے ہیں یہی طریقہ ہمیں ان کی زندگی میں نظر آتا ہے مستقبل بینی کی صلاحیت موجود تھی ایک لگی بندھی جاب کو چھوڑ کر کم تنخواہ کے ساتھ ایک اور کمپنی کو جوائن کر لیتے ہیں یہ کیریئر کے سٹارٹ کی باتیں ہیں پوری فیملی ناراض ہوتی ہے لیکن ان کو پتہ ہوتا ہے کہ نئی کمپنی میں جو کام میرے سپرد کیا گیا ہے فیوچر اسی کے اندر چھپا ہوا ہے۔ آپ جو بھی کام کر رہے ہیں یہ دیکھیں کہ پانچ سال، دس سال کے بعد یہ کام، سکل سیٹ آپ کو کہاں پر لے کر جائے گا۔

این۔ ایل۔ پی کا مشہور پرنسپل یاد آگیا "اگر تم وہی کچھ کرتے رہو گے جو ہمیشہ سے کرتے آرہے ہو تو تمہیں وہی کچھ ملے گا جو ہمیشہ سے ملتا آرہا ہے"۔

نقاب خان نے نوجوانوں کو مشورے دیتے ہوئے کہا۔۔

* دوست کم رکھو اور ہر اس شخص سے دور ہو جاؤ جو آپ کا وقت ضائع کرتا ہے۔

* مستقل پڑھائی کرو جب تک زندہ ہو مگر مضامین وہ اختیار کرو جس کی ضرورت ہو۔

* کام اور مسئلے میں فرق سمجھو جو کام آدھے گھنٹے سے زیادہ دیر کے لیے رک جائے اور سمجھ میں نہیں آئے تو وہ مسئلہ ہوتا ہے کسی سے بات کرو۔

بزرگوں کو بھی کچھ مشورے دیے۔۔

مرنے تک اپنا بنیادی اور زندگی گزارنے کا اختیار کسی کو نہ دیں لوگوں کو آزادی سے کام کرنے دیں مگر دستخط کے لیے ان کا آپ کے کمرے میں آنا ضروری ہے۔

* غسل خانے میں کپڑے کبھی بھی نہیں بدلیں بلکہ کمرے کا دروازہ بند کرکے کمرے میں کپڑے بدلیں بہت سارے لوگ اس عمر میں پھسل کر پسلیاں تڑوا لیتے ہیں آپ ایسا نہ کریں۔

نقاب خان پاکستان میں ٹیکنیشن کے طور پر کام کرتے تھے گاؤں سے کچھ لوگ ملنے آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے انجینیئر نقاب خان سے ملنا ہے ان کے جانے کے بعد ان کا سپروائزر کہتا ہے کہ کچھ لوگ پوچھ رہے تھے کہ ہم نے انجینیئر نقاب خان سے ملنا ہے میں نے انہیں جواب دیا کہ اس نام کا انجینیئر تو یہاں نہیں ہے ایک ٹیکنیشن اس نام کا یہاں پر کام کرتا ہے اپنے سپروائزر کی اس طنزیہ گفتگو کو سننے کے بعد نقاب خان نے کہا کہ میں نے فیصلہ کیا کہ اب میں اس کو انجینیئر بن کر دکھاؤں گا یعنی اس بات میں بھی خیر کا پہلو نکالا۔

امریکہ کی کینڈی ویسٹرن یونیورسٹی سے انڈسٹریل انجینئرنگ کی ڈگری لی اور اگلے کچھ سالوں میں امریکہ کی ہی ہملٹن یونیورسٹی سے انڈسٹریل مینجمنٹ میں ماسٹرز اور پی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگریاں لی۔۔

تو میرے بارے میں اپنی کوئی رائے مت بنا
میرا وقت بدل جائے گا تیری رائے بدل جائے گی

نقاب خان سمنس کمپنی کے ساتھ وابستہ رہے مکہ مکرمہ میں کلاک ٹاور کی آٹو مشین اور سعودی ریلوے پروجیکٹ کی تنصیب میں حصہ لیا اپنی اصول پسندی کے لیے مشہور ہیں۔ باس کے سامنے بات کرنے کا فن جانتے ہیں غلطی کرنے پر اپنے انڈر کام کرنے والوں کو اپنے کام کو بہتر کرنے کا موقع دیتے ہیں لیکن اگر وہ باز نہ آئیں تو اسے فائر کرنے کا سخت فیصلہ کرنے سے نہیں گھبراتے۔

رزق حلال کمانے کا سبق اپنے والدین سے سیکھا سمنس میں ملازمت کے دوران ان کے بچے بیمار ہو گئے۔ حسن اتفاق سے پانچ بچے ایک ساتھ بیمار ہوئے تین بچے میڈیکل پینل پر تھے دوائی لے لی گئی اور پانچوں بچوں کو پلائی گئی انہوں نے سوچا کہ چونکہ دو بچے پینل پر نہیں ہیں اس لیے ان پر خرچ ہونے والے پیسے نکال کر کمپنی میں میڈیکل کلیم جمع کرواتا ہوں لیکن اس ڈر سے کہ کہیں اس میں حرام کی آمیزش نہ ہو جائے کمپنی میں سرے سے کوئی کلیم جمع ہی نہیں کروایا۔

اپنے والد پردیس خان کے بارے میں کہتے ہیں کہ انہوں نے ہمیں چھوٹی عمر میں پالا اور بڑی عمر میں ایک عزت والی پہچان دی صبر، ہمت اور استقامت کا ذریعہ بنے نفس کشی، سخاوت اور انصاف کا درس دیا اب اس دنیا میں نہیں رہے اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے۔

اس کالم کو تحریر کرنے کے لیے ڈاکٹر نقاب خان کی کتاب "ضمیرِ کن فکاں ہے زندگی" سے مدد لی گئی (آپ لوگ اس ویب سائٹ سے یہ کتاب منگوا سکتے ہیں۔

http://www.drmnk.com"

اور آخر میں پاکستان کے لوگوں کے لیے ان کا پیغام اس شعر کی صورت میں

ہر گہر نے صدف کو توڑ دیا
تو ہی آمادہ ظہور نہیں

About Muhammad Saqib

Muhammad Saqib is a mental health consultant who has been working in the fields of hypnotherapy, leadership building, mindfulness and emotional intelligence for over ten years. Apart from being a corporate trainer, he is involved in research and compilation and documenting the success stories of Pakistani personalities in the light of Mindscience. Well-known columnist and host Javed Chaudhry is also a part of the trainers team.

Check Also

Oriental College Mein Aik Aalim Aadmi

By Hafiz Safwan