Iqbal Muhammad Khan, Shahadat Ke Baad Bhi Zinda
اقبال محمد خان، شہادت کے بعد بھی زندہ
آپ کا ذاتی شناختی کارڈ کیا ہے اگر ڈکشنری میں"اقبال محمد خان" ٹائپ کیا جائے تو کیا جواب آئے گا؟ جواب آیا سچ بولنے والا اصولوں پر سمجھوتہ نہ کرنے والا، بےوقوفی کی حد تک بےخوف، کمزوروں کا درد محسوس کرنے والا، اپنی اولاد کی رزق حلال پر پرورش کرنے والا اور اپنے رب سے ایک مضبوط تعلق رکھنے والا۔
مردان شہر سے تعلق رکھنے والا اقبال محمد خان (بالا) سندھ پولیس میں سب انسپکٹر تھا۔ والد صاحب ریڈیو پاکستان میں انجینئر تھے دس بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا۔ نازونعم میں پلا ہوا باوقار اور سادہ طرزِ زندگی میں ڈھلا ہوا۔
کسی کی راہ سے خدا کی خاطر
اٹھا کے کانٹے، ہٹا کے پتھر
پھر اس کے آگے نگاہ اپنی
جھکا کے رکھنا، کمال یہ ہے
محترم دوستو! ہم کامیابی کی سائنس کی بات کرتے ہیں سخت محنت، اعلیٰ تعلیم، اچھے لوگوں کی صحبت، کمیونیکیشن سکلز، بہترین لباس پہننے کی صلاحیت اور مستقل مزاجی آپ کو کامیابی کی اس دوڑ میں دوسرے لوگوں سے آگے لے جاتی ہے اور آپ طاقت، پیسہ اور شہرت جیسی چیزوں کو انجوائے کرنا شروع کرتے ہیں لیکن اس سے بھی بڑی کامیابی پانے کا بھی کوئی فارمولا ہے وہ کامیابی جو صرف اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ بندوں کی قسمت میں آتی ہے۔ اقبال محمد خان کو قدرت اسی بڑی کامیابی کے لیے تیار کر رہی تھی کالم میں آگے جا کر اس پر بات کرتے ہیں۔
اقبال محمد خان کی شادی کے دن قریب آ رہے تھے۔ ظاہری اور اندرونی خوبصورتی کے پیکر اس نوجوان کا روپ دیکھنے کے قابل تھا۔ بھائیوں، بہنوں اور دیگر رشتےداروں کی خوشی بیان سے باہر تھی اور کوئٹہ کے ایک باعزت گھرانے سے تعلق رکھنے والی ان کی دلہن سادہ اور پروقار۔ ایسی جوڑی کہ جس نے بھی دیکھا زبان سے بے ساختہ ستائش اور ماشاءاللہ کے جملے ادا کیے۔ اس جوڑے کی محبت بھی مثالی تھی اور ان کی بیوی تہمینہ گویا زبان سے یہ کہہ رہی ہوتی تھیں۔
میں چھج پتاسے ونڈاں
اج قیدی کر لیا ماہی نوں
(کوئی ہیر، صاحبان لوگوں میں اس لیے پتاسے بانٹنا چاہتی تھی کہ آج میرا محبوب صحن میں قدم رکھے گا)
شادی کے پہلے ڈھائی سالوں میں ہی اللہ تعالیٰ نے اس جوڑے کو ایک بیٹی اور ایک بیٹے کی نعمت سے نوازا۔
اپنے ننھے منے بچوں کو اپنے سینے پر سلاتے ہوئے اقبال محمد خان ان کے سنہری مستقل کے خواب بنتا اور ایک مطمئن مسکراہٹ کے ساتھ نیند کی آغوش میں چلا جاتا۔ اس بات سے بے خبر کہ اس کے لیے ایک بڑا مقام اللہ تعالیٰ کی طرف سے لکھ دیا گیا ہے۔ ہم کامیابی کے نیکسٹ لیول کی بات کر رہے تھے کہ ایسے کون سے کام کیے جائیں کہ گویا نصیب بدل جائے۔
اقبال محمد خان کی اہلیہ تہمینہ جو سندھ پولیس میں اے ایس آئی کی پوسٹ پر کام کر رہی ہیں آنکھوں میں ہلکی سی نمی کے ساتھ ان کی زندگی کی یادیں شئیر کر رہی تھیں۔ کہنے لگیں ثاقب بھائی اقبال صاحب نے کبھی کسی فقیر کو خالی ہاتھ نہیں بھیجا۔ کسی کو پیسہ، کسی کو آٹا، فروٹ کچھ نہ کچھ لازمی اس کی جھولی میں ڈالتے کہتے تھے اللہ تعالیٰ کو جواب دینا ہے۔ اپنے قلم کی حفاظت کرتے تھے لوگوں کو انصاف دلانے کے لیے بے چین اور سو فیصد رزق حلال پر یقین رکھنے والے۔ شاید وہ یہی اوصاف تھے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں شہادت کے منصب پر فائز کیا۔
یہ واقعہ 2017 میں پیش آیا۔ ٹارگٹ کلنگ میں اقبال محمد خان اپنے ایک ساتھی کے ساتھ جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ اس دن کا احوال سناتے ہوئے تہمینہ اقبال کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اس واقعے کی خبر سننے کے بعد یہ اپنے چھوٹے بچوں کے ساتھ لیاقت نیشنل ہسپتال آتی ہیں۔ شادی کو صرف دو سال اور نو مہینے ہوئے تھے۔ اقبال صاحب کی لاش جب سامنے آتی ہے تو یقین نہیں آتا کہ اب وہ اس دنیا میں نہیں رہے۔
ایک ٹرانس کی سی کیفیت میں کہتی ہیں گھر میں آپ کی پسند کا کھانا تیار ہے (اقبال کو پیار سے منا کہتی تھیں) منا کھانا بن گیا اٹھیں گھر چلیں ان کی یہ بات سن کر شہید اقبال کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔
جی ہاں شہید زندہ ہوتا ہے اور ہماری گفتگو سن رہا ہوتا ہے۔ ایسا ہی واقعی مشہور کشمیری مجاہد برہان الدین وانی کے ساتھ پیش آیا۔ ان کی شہادت کے بعد ان کے والدین ان کی لاش کے سامنے غمگین کھڑے ہو کر باتیں کر رہے تھے اور برہان الدین وانی شہید کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ اس منظر کو ہزاروں لوگوں نے دیکھا۔
قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا۔
ترجمہ: "اور اللہ کی راہ میں قتل ہونے والوں کو تم مردہ نہ سمجھو۔ بلکہ وہ اپنے پروردگار کے ہاں زندہ ہیں اور انہیں روزی دی جاتی ہے"۔ (آل عمران: 169)
اقبال محمد خان کی اہلیہ تہمینہ نے بتایا کہ ان کی شہادت کے بعد زندگی چیلنجر سے بھرپور تھی۔
وہ من بھر مٹی نیچے جا سویا ہے
جو جانتا بھی تھا مجھے ڈر لگتا ہے
ملازمت کا فیصلہ کیا اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں سی ایس ایس کے ایگزام میں حصہ لیا اور آج وہ اے ایس آئی کی پوسٹ پر کام کر رہی ہیں۔ آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ ڈی آئی جی اظفر صاحب اور ایس ایس پی شہلا قریشی کے تعاون کی خصوصی تعریف کی۔
اپنے خاوند کی شہادت کے بعد انہوں نے ڈٹ کر مشکلات کا سامنا کیا اس کی تفصیل ایک الگ کالم کی متقاضی ہے۔ ان کے دونوں بچوں سے بھی ملاقات ہوئی۔ تہذیب یافتہ کیمبرج سکولنگ سسٹم میں پڑھنے کے ساتھ ساتھ قرآن مجید حفظ کر رہے ہیں۔
کیسے کہہ دوں کہ تھک گئی ہوں میں
جانے کس کس کا حوصلہ ہوں میں
کہتی ہیں اقبال صاحب کی کمی ہمیشہ محسوس ہوتی ہے کہ جب بچوں کی کامیابی کی خبر آتی ہے تو دل چاہتا ہے کہ اقبال صاحب سے کہوں کہ ہم جیت گئے۔ بچوں کے جوان ہونے پر کہوں کہ دیکھیں آج ہماری بیٹی کی شادی ہو رہی ہے۔
محترم دوستو! پاکستان پولیس کے شہداء کی بات کریں تو عوام میں انہیں وہ عزت اور مقام نہیں دیا جاتا جس کے وہ حقدار ہیں۔ ہر ڈیپارٹمنٹ کی طرح پولیس کے محکمے میں بھی خرابیاں موجود ہیں لیکن اچھے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے۔ اپنے وطن کے لیے جان کی قربانی دینے والے اقبال محمد خان اور دیگر ہزاروں پولیس کے جوان ہماری آنکھوں کا تارہ ہیں اور شہداء کا جو مقام ہے اس کا احاطہ میرا قلم نہیں کر سکتا۔
یقیناً ہم وہ وقت بھی دیکھیں گے جب پاکستان پولیس کے بہادر سپوتوں کو نشان حیدر دیا جائے گا۔ پولیس کا جوان جب کسی آپریشن کے لیے جاتا ہے تو گویا اپنا سینہ گولی کے سامنے رکھ دیتا ہے۔ پاکستان کے یہ شیر ہمارا فخر ہیں۔
اللہ کے حبیب ﷺ نے ارشاد فرمایا "جنت میں داخل ہونے والا کوئی شخص دنیا میں واپس آنے کی خواہش نہیں کرے گا مگر ایک شہید۔ وہ چاہے گا کہ دنیا میں واپس آ کر دس مرتبہ شہید ہو جائے، کیونکہ وہ اس عزت کو دیکھتا ہے"۔ (صحیح مسلم)
اے راہ حق کے شہیدو
وفا کی تصویرو
تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں