Hatim Tai Se Umra Ul Qais Tak
حاتم طائی سے امرؤ القیس تک
عربوں کی فصاحت اور زبان دانی پر عبور مشہور تھا۔ اس کالم میں آپ عرب کے نامور شعرا، صاحبِ علم لوگوں کی باتیں اور سخاوت کے لیے مشہور حاتم طائی کے کچھ شعر بھی پڑھیں گے۔
مشہور عرب شاعر فرزدق نے بھی مدحیہ شاعری کہی، مگر اسے یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اموی بادشاہوں کی ناراضی کی پروا کئے بغیر اس نے آل رسولﷺ جناب امام زین العابدینؑ کے حق میں مدحیہ اشعار کہے۔ ہوا یوں کہ ایک بار ولی عہد ہشام بن عبد الملک نے دیگر سر داروں کے ساتھ حج کیا، خانہ کعبہ میں اس قدر رش تھا کہ وہ حجر اسود کو بوسہ نہ دے سکا۔ اتنے میں سیدنا امام زین العابدینؑ (علی بن حسین) تشریف لائے۔
لوگ فرزند اہل بیت کو دیکھ کر از خود بٹتے اور جگہ دیتے گئے۔ جناب امام نے حجر اسود کا بوسہ لے لیا۔ ہشام کھڑا یہ یہ سب دیکھ رہا تھا، کھسیانا ہو کر اس نے تجاہل عارفانہ سے پوچھا کہ یہ کون ہیں، میں تو نہیں جانتا۔
روایت ہے کہ فرزدق اس موقعہ پر موجود تھا، اس سے رہا نہ گیا، اس نے کہا میں جانتا ہوں یہ کون ہیں۔ اس کے بعد اس نے فی البدیہہ چند مدحیہ اشعار کہے جسے سن کر ہشام مزید شرمندہ ہوا۔ فرزدق نے کہا
یہ وہ ہیں کہ مکہ کی وادی ان کے قدم پہچانتی ہے، بیت اللہ اور حدود حرم کے باہر کا علاقہ ان سے شناسا ہے
یہ بندگان خدا میں سے بہترین کی اولاد ہیں، یہ متقی، برگزیدہ، پاک اور ممتاز و معروف شخص ہیں
تمہارا یہ کہنا کہ یہ کون ہیں؟ انہیں نقصان نہیں پہنچاتا کیونکہ پورا عرب و عجم ان سے واقف ہے
یہ حیا سے آنکھیں بچاتے ہیں اور لوگ ان کی ہیبت سے نظریں جھکا لیتے ہیں، یہ مسکرائیں تو بات ہو پاتی ہے
یہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کی محبت دین ہے، جن سے بغض کفر اور جن کا قرب پناہ کی جگہ ہے
اہل تقویٰ کی بات کرو تو یہ ان کے امام ہیں، کہا جائے کہ اہل زمیں میں سب سے بہتر کون تو وہ " یہی " ہیں
کہتے کہ جب امام زین العابدینؑ تک یہ اشعار پہنچے تو انہوں نے فرزدق کو ہدیہ بھیجا، اس نے شکریہ کے ساتھ واپس کرتے ہوئے پیغام بھیجا کہ پہلی بار کچھ ایسا کہا ہے جو توشہ آخرت بن سکتا ہے، اس لئے یہ ہدیہ واپس لے لیں۔ جناب امام نے جوابی پیغام بھیجا کہ جب ہم اہل بیت کسی کو تحفہ دیں تو واپس نہیں لیا کرتے۔ بد قسمتی سے ان اشعار کی پاداش میں فرزدق کو جیل جانا پڑا تھا۔
قیس بن زهیر العبسی بھی اس زمانے کے صاحب فصاحت، شیریں گفتار اور چرب زبان لوگوں میں شمار ہوتا تھا۔ وہ ایک مشہور جنگ کے بعد اپنا علاقہ چھوڑ کر سردار نمر بن قاسط کے پڑوس میں آگیا اور ان سے کہا کہ میں تمہارے پڑوس میں آگیا اور تم سے وابستہ ہوگیا ہوں، اس لئے میری شادی کسی ایسی عورت سے کر دو جسے مالداری نے با اخلاق بنا دیا ہو اور محتاجی نے کمزور، جو حسب اور جمال والی ہو۔ اس کی شادی ایک ایسی ہی خاتون سے ہوگئی۔
قیس نے ان خاتون سے کہا، مجھ میں تین خصلتیں پائی جاتی ہیں۔ میں غیرت مند ہوں، بہت فخر کرنے والا ہوں، خود سر ہوں۔ میں اس وقت تک تفاخر نہیں کرتا جب تک کوئی پہل نہ کرے۔ جب تک خود نہ دیکھ لوں، غیرت میں نہیں آتا، اور جب تک مجھ پر ظلم نہ کیا جائے میں غصے میں نہیں آتا۔
خاتون کو یہ باتیں پسند آئیں، وہ ساتھ رہے، اولاد بھی ہوئی۔ پھر جب ایک عرصے بعد وہ وہاں سے کوچ کرنے لگا تو چند باتیں بطور نصیحت کے کہیں میں تمہیں چند باتیں اختیار کرنے اور چند سے منع کی وصیت کرتا ہوں۔ بردباری اختیار کر کیونکہ اسی کے ذریعے تم حاجت کو پاسکتے اور موقعہ حاصل کر سکتے ہو۔ ایسے آدمی کو سردار بنا تو جس پر کوئی عیب نہ لگا سکے۔ وفادار رہو کیونکہ اسی سے لوگ زندہ ہیں۔ سوال کرنے سے پہلے ہی اس شخص کو دے دو جسے تم دینا چاہتے ہو اور اصرار سے پہلے ہی اس شخص کو محروم کر دو جسے تم محروم کرنا چاہتے ہو۔ جو شخص تمہارے پاس آکر پناہ لے، اسے تمام زمانے کے خلاف پناہ دو۔ میں تمہیں بے وفائی سے منع کرتا ہوں کیونکہ یہ زمانے بھر کی عار (لعنت) ہے۔
بازی لگا کر دوڑ میں مقابلہ کرنے سے منع کرتا ہوں۔ سر کشی سے منع کرتا ہوں کیونکہ اسی سے میرا بھائی قتل ہوا تھا۔ بے کار باتوں میں مال و دولت فنا کرنے سے روکتا ہوں کیونکہ اس طرح تم حقوق ادا نہیں کر سکو گے"۔
***
ہجو میں مشہور عرب شاعر جریر کا ایک شعر ایسا ہے کہ اس نے ایک پورے قبیلے کو اپنا منہ چھپانے اور گمنام ہونے پر مجبور کر دیا
نگاہیں نیچی کر لے کہ تو بنو نمیر کے قبیلے سے ہے
نہ تو قبیلہ کعب کے مقام کو پہنچ سکا نہ کلاب کو
اس کی تفصیل دلچسپ ہے، قبیلہ بنو نمیر کے ایک شاعر راعی الابل نے جریر کے مقابلے میں فرزدق کی تعریف کر دی حالانکہ جریر ان کے قبیلے کی مدح میں شعر کہ چکا تھا جبکہ فرزدق نے ان کے خلاف شعر کہے تھے۔ جریر اس بات کا شکوہ کرنے راعی کے گھر گیا تو وہ اور اس کا بیٹا جندل بڑی رکھائی کے ساتھ پیش آیا۔ جریر کو بڑی تکلیف ہوئی۔ اس نے فقرہ کہا کہ اے جندل تمہارا قبیلہ تمہارے بارے میں کیا کہے گا جب میرا زہریلا تیر تیرے باپ کے جسم کے پار ہوگا۔
غصے سے بھرا اجریر واپس آیا، اپنے بیٹے کو اس نے کہا کہ آج چراغ میں تیل کچھ زیادہ ڈال دینا اور کھجور کی شراب بھی میرے لئے رکھ دینا۔ رات بھر وہ مصروف سخن رہا، آخر نماز فجر تک اس نے اسی (80) شعروں پر مشتمل ایک بڑی کاٹ دار، زہریلی ہجو لکھ ڈالی۔ نظم ختم کی تو اللہ اکبر کا نعرہ لگایا۔ صبح جریر وہ نظم لے کر سوق مرید آگیا جہاں یہ سب بیٹھا کرتے تھے۔ راعی وہاں موجود تھا اور فرزدق بھی۔ جریر نے راعی کو سلام بھی نہ کیا اور بلند آواز سے اپنی نظم پڑھنے لگ گیا۔
جریر پڑھتا جائے اور راعی اور فرزدق پریشانی اور تشویش سے اسے دیکھ رہے تھے۔ حتی کہ جریر نے وہ مشہور شعر کیا جس کا اوپر ذکر کیا ہے، پس نگاہیں نیچی کر کہ تو قبیلہ نمیر سے ہے، ۔ اس پر راعی وہاں سے اٹھا اور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ زینیں کسو اور جلدی سے چلتے بنو، جریر نے تمہیں ذلیل کر دیا ہے۔ کچھ عرصے بعد راعی واپس اپنے قبیلے بنو نمبر گیا تو سب نے اسے لعنت ملامت کی کہ تیری وجہ سے قبیلہ بد نام ہوگیا۔ کہا جاتا ہے کہ بعد میں بنو نمیر والے اپنے قبیلے کا نام بتاتے ہوئے شرماتے تھے کہ ہر کوئی جواب میں جریر کا یہ شعر پڑھ دیتا۔ حتی کہ چند سال بعد بنو نمبر کا نام و نشان تک مٹ گیا۔ یہ تھی عرب معاشرے میں ہجو کی طاقت اور تباہ کاری۔
***
امرؤ القیس عربی ادب کے قدیم دور کے مشہور شاعر، جنہوں نے عربی شاعری میں خاص مقام حاصل کیا۔ ان کی شاعری عموماً محبت اور فطرت سے متعلق ہوتی تھی۔
محمود شکری الوسی نے امرؤ القیس کے بعض اشعار نقل کئے
جب انسان اپنی زبان یعنی اپنے رازوں کو محفوظ نہیں رکھ سکتا تو پھر وہ کسی بھی چیز کو محفوظ نہیں رکھ سکے گا یاد رکھ محتاجی کے بعد آدمی مالدار بھی ہو جاتا ہے اور انسان بوڑھا ہونے کے بعد بھی دیر تک زندہ رہتا اور لباس پہنتا ہے۔
سب سے زیادہ کارگر چیز جس کی مدد سے تو کسی چیز کا خواہاں ہے، وہ نیکی ہے اور بے شک نیکی ہی انسان کا بہترین ذخیرہ ہے۔ میں دیکھتا ہوں عور تیں کم مال والوں کو پسند نہیں کرتیں، نہ ہی اس شخص کو پسند کرتی ہیں جو بوڑھا اور کمان کی طرح کبڑا ہو۔
*
کہا جاتا ہے کہ عربوں کی غزلیہ شاعری میں جو سب سے اچھا شعر ہے وہ جریر کا ہے
ان سرمہ لگی آنکھوں نے ہمیں مار ڈالا، اور پھر ان مارے ہوئوں کو زندہ بھی نہ کیا
اچھے بھلے سمجھدار کو یوں مار گراتی ہیں کہ وہ ہل بھی نہیں پاتا، حالانکہ اللہ کی کمزور مخلوق ہیں
**
حاتم طائی سخاوت اور بہادری کی وجہ سے مشہور تھے، ان کی شاعری بھی ان ہی موضوعات کا احاطہ کرتی تھی۔
حاتم کے دیوان میں بہت سے اشعار سخاوت کے حوالے سے ہیں۔ اپنی بیوی کو مخاطب کرکے کہتے ہیں
جب تو کھانا تیار کرے تو ساتھ کھانے والا بھی تلاش کر
کیونکہ جانتی ہے میں کھانا کبھی اکیلا نہیں کھا سکتا
جب تک کوئی مہمان میرے ہاں مقیم رہے، میں اس کا غلام رہتا ہوں
اس ایک خصلت کے سوا مجھ میں غلاموں کی سی اور خصلت نہیں ہے
ایک اور جگہ لکھا
سخی آدمی اپنے عیال اور مہمانوں کو جب تک اسکا مال موجود ہو
کبھی مصیبت اور تنگی کی حالت میں نہیں رکھ سکتا
جب تو ہنڈیا پکائے تو اسے چھپا کر نہ رکھ، اگر ایسا کیا تو
جو کچھ تو نے پکایا ہوگا، وہ مجھ پر حرام کی طرح ہوگا
نوٹ: اس کالم کو تحریر کرنے کے لیے اپنے پسندیدہ کالم نگاروں میں سے ایک "عامر خاکوانی" کی تحریروں سے استفادہ کیا گیا۔