Eid Diary
عید ڈائری
تاج محل زیر تعمیر تھا اس کی تعمیر میں 21 ہزار مزدور اور معمار حصہ لے رہے تھے انہیں کھانے میں دال اور روٹی دی جاتی تھی۔ خوراک کی یکسانی سے بے دل ہو کر وہ سست پڑ گئے تھے ان کے جذبے میں کمی دیکھ کر شہنشاہ شاہ جہاں نے اپنی تشویش کا اظہار تاج محل کے چیف آرکیٹیکٹ استاد عیسی آفندی سے کیا۔ استاد نے مزدوروں کی بے دلی کے مسئلے کا حل نکالنے کے لیے پیر نقشبندی صاحب سے رجوع کیا روایات میں بیان ہوا ہے کہ ایک نماز کے بعد پیر صاحب ایک یکسوئی سے ذکر و فکر میں مشغول تھے کہ ان کا ذہن روشن ہوا ایک خیال نا معلوم سے ان کے دماغ پر وارد ہوا۔
انہوں نے اس خیال سے حاصل ہونے والی ترکیب کے مطابق ایک نئی مٹھائی کا نسخہ بتایا اس پر پانچ باورچیوں نے مل کر وسیع پیمانے پر اکیس ہزار مزدوروں کے کھانے کے لیے وہ ذائقہ دار مٹھائی تیار کی۔ مٹھائی کھا کر مزدور مستعد ہو گئے۔ یوں ان کی بے دلی اور سستی خوش دلی اور چستی میں بدل گئی تب سے وہ مٹھائی پاک و ہندو میں مقبول ہے اور تقریبا ہر حلوائی کی دکان پر اور بیکری میں ملتی ہے اور ہاتھوں ہاتھ بکتی ہے اس مٹھائی کا نام پیٹھا ہے۔ یعنی پیٹھے کی ترکیب کے ڈانڈے تاج محل کی تعمیر سے جا ملتے ہیں مزدوروں کے مزاج پر پیٹھے کی خوش ذائقہ مٹھائی نے جہاں خوشگوار اثرات مرتب کیے وہیں اس میں موجود مٹھاس نے اپنے کیمیکل ترکیب سے ان میں چستی اور جذبہ پیدا کیا۔ مٹھاس کے انسانی دماغ پر فرحت آ میز اثرات ایک حقیقت ہے۔
جدید طبی تحقیق کے مطابق وہ عورتیں جو دوران حمل زیادہ چاکلیٹ کھاتی ہیں ان کے ہاں خوش مزاج اور زیادہ مسکرانے والے بچے پیدا ہوتے ہیں چاکلیٹ کھانے سے دماغ اینڈورفن نامی ہارمون پیدا کرتا ہے جو انسان میں وہی جذبات پیدا کرتا ہے جو محبت میں مبتلا ہوتے وقت ہوتے ہیں۔
اب ایک اور تاریخی واقعے کی بات کرتے ہیں۔
نورجہاں تخت پر براجمان جہانگیر بادشاہ کے پیچھے پردے میں روپوش اپنا ہاتھ باہر کرکے اس کے کاندھے پر رکھتی ہے تب وہ سلطنت کے فرمان جاری کیا کرتا تھا۔ اس عورت کا لمس اس کے جسم میں خون کی گردش تیز کر دیتا تھا اور وہ فیصلے کرنے پر قادر ہو جاتا تھا۔
محترم دوستو! اس عید پر وہ چیزیں ڈھونڈیں جن سے آپ کو انرجی کک ملتی ہے۔ ضروری نہیں کہ نورجہاں ملکہ آپ کی زندگی میں آئے، کوئی خاص کام، ماں کے ساتھ وقت گزارنا، کسی خاص جگہ پر جانا، پہلے بیان کی ہوئی کہانی کی طرح کوئی خاص غذا، اپنے انرجی پوائنٹس کا آپ کو پتہ ہونا چاہیے جیسے آج میری طبیعت ناساز ہے مجھے لکھنے اور ٹریننگ کروانے سے انرجی ملتی ہے۔ جیسے جیسے میرا قلم اس کالم کو تحریر کر رہا ہے میری بیماری غائب ہوتی جا رہی ہے۔
پچھلے کالم میں ہم نے عید پر نیٹ ورکنگ کی بات کی اس پرنسپل پر بھی کام شروع کریں۔
(2)
اپنی ڈائری سے بہت ہی خوبصورت بات مل گئی۔۔
"حتی کہ ایک فلائٹ بھی زیادہ لوڈ کے ساتھ پرواز نہیں کر سکتی"۔
آپ کب تک ماضی کی یادوں کی بھاری بھرکم گٹھڑیاں اٹھا کر پھرتے رہیں گے آپ کسی شخص سے اس عید پر معافی مانگنا چاہ رہے ہیں لیکن جانےکا، فون کرنے کا یاوائس نوٹ بھیجنے کی ہمت آپ میں نہیں ہے تو نہ جائیں۔ اپنے گھر پر بیٹھے بیٹھے اس شخص سے اور اللہ تعالی سے معافی مانگ لیں اس کے بارے میں دل میں اچھا گمان رکھیں آپ کی پازیٹو انرجی اپنا کام شروع کر دے گی اور جب انرجی کا ذخیرہ کچھ ہفتوں میں بڑھ جائے تو اسے فون بھی کر لیں یہ آسان کام آپ نے آج ہی کرنا ہے۔
کالم کا یہ والا حصہ خاص خواتین کے لیے ہے۔ ہمارے معاشرے میں مرد کوئی غلطی کرتا ہے تو اسے قبول کر لیا جاتا ہے باپ جانتا ہے کہ میرا بیٹا لنگوٹ کا کچا ہے بڑا بھائی بھی یہ بات جانتا ہے لیکن یہ کہہ کر برداشت کیا جاتا ہے کہ وقت آنے پر وہ یہ کام چھوڑ دے گا۔ یہی نادانی اگر کوئی خاتون کرے تو معاشرے تو دور کی بات وہ خاتون اپنے آپ کو معاف کرنے کو تیار نہیں ہوتی۔ ایسے ڈپریشن کے کیسز میرے پاس آتے ہیں۔
اس عید پر اپنے آپ سے بات کریں اپنے آپ کو بتائیں کہ نادانی میں مجھ سے یہ فعل سرزد ہوگیا ہے۔ اللہ تعالی سے اس کی معافی مانگیں اور پھر اپنے آپ کو بھی معاف کر دیں اپنے دماغ کی سکرین سے اس میموری کو ڈیلیٹ کر دیں اور ایک نئی زندگی شروع کریں اپنے شوہر سے وفادار رہیں۔ اور کبھی بھول کے بھی اس بات کا تذکرہ دنیا کے کسی بھی شخص سے نہ کریں۔
پرانی کہاوت ہے، ہر وہ راز جو دو سے تجاوز کر جائے پھیل جاتا ہے۔
پوچھا گیا دو سے کیا مراد ہے تو جواب آیا دو سے مراد دونوں ہونٹ ہیں۔
"جب آدمی کا سینہ اپنے راز کے لیے تنگ پڑ جائے تو اس شخص کا سینہ جس سے وہ یہ راز سپرد کر رہا ہے زیادہ تنگ ہوگا"۔
(3)
عید کا دن خوش رہنے اور خوشیاں بانٹنے کا دن ہے۔
مشہور ٹرینر عارف انیس یاد آگئے۔ کہتے ہیں
"دئیر از اے سیزن فار ایوری تھنگ۔
نماز کی طرح محبت کا بھی ایک وقت ہے۔ جب سب کچھ چھوڑ کر صرف محبت کرنی چاہیے۔ محبت کو اس کے جائز لمحے اور جائز وقت پر لوٹانا ہی اس کا حق ہے۔ محبت کا اصل لمحہ بیت جائے تو جذبات کھنڈر ہو جاتے ہیں۔ کھنڈروں میں کبھی بھی چاہت کے پھول نہیں اُگتے"
محبت اپنا خراج مانگتی ہے۔ محبت کو پوری توجہ کے ساتھ اس کا خراج اسی وقت ادا ہونا چاہیے کہ محبت کی تو ویسے بھی قضا نہیں ہوتی۔
یہی دن ہیں محبت کے۔
یہی موسم ہے ملنے کا
یہ دن گزرے تو پھر تیرا۔
سراپا کون دیکھے گا
(4)
عقاب تیرا پسندیدہ گیت کون سا ہے
"فلک بوس پہاڑیاں اور آ سمانوں کی وسعت"
سمندری مرغابی تو کس چیز کے بارے میں گیت گاتی ہے
"نیلے گہرے سمندر کے بارے میں"
پہاڑی گدھ تیرا من پسند گیت کس چیز سے متعلق ہے
"لاشوں اور مردار سے متعلق جو مجھے بے حد مرغوب ہیں"۔
آ پ کا گیت کون سا ہے؟
آپ کا سونگ کون سا ہے اپنی روز مرہ کی گفتگو پر غور کریں آپ مہنگائی کی بات کرتے ہیں بجلی کا بل، سیاسی اور مذہبی بحث سٹریٹ کرائم، اپنے ملک کی برائی کرنا، سفارش اور رشوت کلچر کی بات کرنا یہ سب چیزیں مل کر آپ کا پرسنل سونگ ترتیب دیتی ہیں یہی سونگ آپ کا (AURA) تخلیق کرتا ہے اور یہ جیسا سونگ ہوتا ہے ویسے ہی آپ کی قسمت ہوتی ہے اگر آپ ہر روز اوپر بتائی ہوئی گفتگو کرتے ہیں تو یہ گدھ کی کیٹیگری میں آتی ہے جب تک سونگ تبدیل نہیں ہوگا قسمت بھی نہیں بدلے گی۔
عید مبارک