Sunday, 22 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Saqib
  4. Digital Danishwar

Digital Danishwar

ڈیجیٹل دانشور

ہزاروں سال سے علم کے متلاشی گیان کی تلاش میں درویشوں کی چوکھٹ پر حاضری دیتے ہیں یہ دانشور، درویش دور دراز کے جنگلوں گپھاؤں اور خانقاہوں میں ملتے تھے علم کی پیاس رکھنے والے ملکوں ملکوں کا سفر کرکے ان تک پہنچتے تھے۔ راستے کی صعوبتیں ناقابل بیان تھیں۔

شیخ سعدی کا مشہور واقعہ ہم نے پڑھا ہے کہ ایسے ہی ایک سفر میں غربت کی وجہ سے پیروں کے جوتوں سے محروم ہو کر اللہ تعالی سے گلا کر بیٹھے آج وہ درویش ہمیں شہر کے اندر مل جاتے ہیں۔

ایسے ہی ایک دانشور درویش جن کو ہم مسٹر ایکس کا نام دیتے ہیں ان کی ایسیٹ مینجمنٹ پر پچھلے ہفتے منعقد ہونے والی ایک ورکشاپ کا حوال آپ کو سناتے ہیں میرے ایک دوست پشاور کے بزنس مین عدنان شاہ وہاں موجود تھے ان کی زبانی ہم کچھ نایاب چیزیں آپ سے شیئر کرتے ہیں۔

مسٹر ایکس نے کہا کہ سب سے پہلے آپ اپنی منتھلی انکم کے لحاظ سے اپنے کیٹگری نکالیں اگر آپ کی ماہانہ انکم ڈھائی لاکھ ہے تو آپ ون سٹار ہیں پانچ لاکھ ہے تو ٹو سٹار 11 لاکھ ہے تو تھری سٹار 17 لاکھ ہے تو فور سٹار 22 لاکھ ہے تو فائیو سٹار اور اگر 28 لاکھ ہے تو آپ سکس سٹار ہیں آپ نے اپنے سٹار کو پہچاننا ہے اور اس کے لحاظ سے اپنی لائف کو مینج کرنا ہے۔ اگر آپ سکس سٹار ہیں یعنی آپ باقاعدگی سے 28 لاکھ روپیہ ہر مہینے کما رہے ہیں تو نہ صرف پاکستان میں بلکہ پوری دنیا میں آپ ایک لگزری لائف گزار سکتے ہیں فرض کیا آپ تھری سٹار ہیں آپ اپنی زندگی سے مطمئن ہیں تو وہیں بریک لگائیں 11 لاکھ کی انکم کے لحاظ سے گاڑی رکھیں گھر بنائیں دیگر اخراجات کا بجٹ بنائیں اور لائف کو انجوائے کریں۔

مسٹر ایکس نے بتایا کہ اپنے سسٹم کو تگڑا کریں دکاندار ہیں تو کاؤنٹر کو چھوڑنا سیکھیں سسٹم کو آٹو پر لگائیں کہ آپ نہ بھی ہوں تو سسٹم چلتا رہے حاضرین میں سے ایک شخص نے سوال کیا کہ میں نے یہ تجربہ کیا اور بزنس میں چوری اور فراڈ ہونا شروع ہوگیا جواب دیا کہ آپ کا سسٹم کمزور ہے آپ بل گیٹس یا وارن بفٹ کے بزنس سے ایک ڈالر بھی چوری کرکے دکھائیں۔

اسی سے ایسوسی ایٹ کرتے ہوئے تیسرا پرنسپل بتایا کہ جس کاروبار کے ساتھ آپ چپک جاتے ہیں وہ زیادہ آگے نہیں بڑھتا آپ بڑےفیصلے نہیں کر پاتے کاروبار کو آگے بڑھانا ہے تو فاصلے سے اس کو کنٹرول کرنا سیکھیں۔

چوتھے پرنسپل کی طرف آنے سے پہلے آپ کو بتائیں کہ مسٹر ایکس نے 80 سے زائد ممالک کا سفر کیا ہوا ہے بہت سی بیسٹ سیلنگ کتابوں کے مصنف ہیں ہزاروں کتابیں زیر مطالعہ رہیں اور ملٹیپل بزنسز کامیابی کے ساتھ چلا رہے ہیں ان کا نام کالم کے اختتام پر آپ سے شیئر کریں گے۔ چوتھے پرنسپل میں بتایا کہ آپ کے اثاثوں میں آپ کا پلاٹ، گھر، گاڑی، کاروبار اور دیگر چیزیں شامل ہیں لیکن سب سے بڑا اثاثہ آپ خود ہیں اپنے آپ کو اثاثہ سمجھیں اپنی صحت کی حفاظت کریں اپنی گاڑی میں آپ ناقص پٹرول ڈالنا گوارا نہیں کرتے تو اپنے جسم کے اندر ناقص غذا ڈالنا کیسے افورڈ کر لیتے ہیں۔ صحت کے ساتھ اپنی عقل، فیملی، رشتہ دار، دوست احباب آپ کی سیکھنے اور برداشت کرنے کی صلاحیت، آپ کی روحانی طاقت ان سب کی حفاظت ضروری ہے۔

پانچواں پرنسپل اپنے خرچے اور اپنی لمٹ کو لاک کرنے کے بارے میں تھا۔

نادر شاہ 22 اکتوبر 1688ء کو ایران کے علاقے خراسان میں پیدا ہوا اور 1736ء سے لے کر اپنی موت 1747ء تک ایران کا طاقتور بادشاہ رہا۔ وہ پہلا بادشاہ تھا جس کی اپنی چھ لاکھ کے قریب منظم فوج تھی۔ اس نے اپنی زندگی میں بے تحاشا فتوحات حاصل کیں، ترک سلطنت کے کئی علاقے، موجودہ کرغستان، داغستان، آذربائجان، آرمینیا، افغانستان، بخارا، خیوہ، پشاور، لاہور اور برصغیر کے کئی علاقے فتح کیے، حتٰی کہ دلی میں محمد شاہ رنگیلا کو بھی شکست دے کر شاہجہاں کا مشہور تخت طاؤس اور کوہ نور ہیرا تک لے گیا۔

اتنی فتوحات کے باوجود نادر شاہ مزید علاقے فتح کرنے کی حرص میں مبتلا رہا، داغستان کی شورش کو دبانے میں ناکامی پر وہ چڑچڑا اور شکی مزاج ہوگیا۔ اسی دوران اس کے ایرانی اور افغانی فوج پر مشتمل اس کے اپنے ہی جرنیل اس کے خلاف ہو گئے۔ وہ ہر رات اپنی حفاظت کے لیے اپنی تلوار پاس رکھتا اور لوہے کا لباس پہن کر اپنے خیمے میں سوتا لیکن اس کے باوجود وہ اپنے ہی محافظوں کے ہاتھوں 1747 میں کوچن کے علاقے میں اپنے خیمے میں مارا گیا۔

اس کے مرنے کے صرف تین گھنٹے کے بعد ہی اس کی ساری فوج وہاں سے غائب ہو چکی تھی، اس کی لاش خیمے میں پڑی تھی۔ ایسا کیوں ہوا اور اس سارے اقتدار اور فتوحات سے اسے کیا ملا؟ وجہ بہت سادہ تھی اس نے اپنے اقتدار کی کوئی لمٹ مقرر نہیں کی تھی، لمٹ کو لاک نہیں کیا تھا۔ سکندر اعظم تھا یا امیر تیمور، ہٹلر تھا یا نپولین بونا پارٹ یہ سب بھی اپنے اقتدار اور فتوحات کو زیادہ سے زیادہ علاقوں تک پھیلانے کے خبط میں مبتلا رہے اور مارے گئے۔

انہوں نے بھی اپنی فتوحات کی کوئی لمٹ مقرر نہیں کی تھی۔ اسی طرح کوئی بھی انسان جو بھی کام کر رہا ہے اگر وہ اپنے کام کی کوئی لمٹ مقرر نہیں کرتا تو پھر کبھی پر سکون زندگی نہیں گزار سکتا۔

یہ ورکشاپ مسٹر ایکس کے مری میں موجود گھر میں ہو رہی تھی۔ خوشگوار ماحول گھر کے باہر سبزہ اور درخت پرندوں کی آوازیں اور کمرے میں موجود ہائی انسانی انرجی وہاں موجود لوگوں کو چارج کر رہی تھی۔ دھیمے پنجابی لہجے میں خوبصورت اردو بولتے مسٹر ایکس کی آواز میں بردباری تھی اور یہیں پر اپنے چھٹے پرنسپل میں انہوں نے بتایا کہ ہمیں اپنے انرجی کے ذرائع کا پتہ ہونا چاہیے کن لوگوں سے مل کر ہم چارج ہوتے ہیں ان میں ہمارے والدین، بچے، بیوی، شوہر، دوست احباب شامل ہوتے ہیں۔ مائنڈ سائنسز کو بیچ میں لے کر آتے ہیں جو یہ بتاتی ہے کہ کچھ لوگ، جگہیں، مشاغل، رنگ، خوشبو، کتابیں آپ کی انرجی بڑھاتی ہیں اسی طرح کچھ لوگوں سے مل کر آپ کی انرجی ڈاؤن ہو جاتی ہے ہمیں اس کا پتہ ہونا چاہیے۔۔

مسٹر ایکس کون ہیں؟

ہم بات کر رہے ہیں پاکستان کے مشہور صحافی جاوید چوہدری کی جن کے گھر پر یہ ورکشاپ ہو رہی تھی جاوید صاحب نے گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے بتایا کہ زیادہ کمانے کے لیے ہاتھ بڑھانے پڑتے ہیں یعنی ٹیم بنانے کی صلاحیت آپ میں ہو اس طرح کہا کہ اپنے معاشی معاملات کو کسی ایک کاروبار کے ساتھ منسلک کریں اور اپنے سٹار کے مطابق اپنی زندگی کو ڈیزائن کریں اگر کاروبار بڑھانا مقصود ہو تو اس کا کوئی بڑا مقصد ہو لوگوں کے فائدے کے لیے وہ کام کیا جائے اس کے لیے الگ ٹیم ہو اور حاصل ہونے والا منافع براہ راست اس مقصد سے متعلقہ کاموں میں لگ جائے۔

جاوید صاحب نے سٹینڈرڈ بڑھانے پر زور دیا کہ انکم بڑھنے کے ساتھ آپ کا کھانا پینا لباس پرفیوم اور دیگر چیزیں بھی بہتر ہوں ان چیزوں میں سیونگ نہ کی جائے ورک شاپ کہ اختتام پہ تین کتابیں پڑھنے کا مشورہ دیا جن میں عکس سیرت، مشہور بزنس مین سید بابر علی کی خود نوشت لرننگ فرام ادرز اور دی فرسٹ مسلم شامل ہیں۔

اس کالم کی تکمیل کے لیے عدنان شاہ کے تعاون کا خصوصی شکریہ اور آخر میں جاوید چوہدری کی شخصیت کی عکاسی کرتا ہوا محمود شام کا یہ شعر

عمر گزری کہ تری دھن میں چلا تھا دریا
جا بجا گھومتا ہے آج بھی پگلا دریا

شام آکاش پہ جب پھیلتا ہے دن کا لہو
ڈوب جاتا ہے کسی سوچ میں بہتا دریا

About Muhammad Saqib

Muhammad Saqib is a mental health consultant who has been working in the fields of hypnotherapy, leadership building, mindfulness and emotional intelligence for over ten years. Apart from being a corporate trainer, he is involved in research and compilation and documenting the success stories of Pakistani personalities in the light of Mindscience. Well-known columnist and host Javed Chaudhry is also a part of the trainers team.

Check Also

Tanhai Ke So Saal

By Syed Mehdi Bukhari