Dard Hoga Tu Delivery Hogi
درد ہوگا تو ڈلیوری ہوگی
عربوں کے ہاں دستور تھا کہ رات کے وقت اونچے اونچے ٹیلوں پر آگ جلا دیا کرتے تھے تا کہ اگر رات کے وقت کوئی مسافر گزرے تو وہ اس آگ کو دیکھ کر مقامی لوگوں کے خیموں تک پہنچ سکے اور جب کوئی بھولا بھٹکا مسافر رات کے وقت ان کے ہاں پہنچ جاتا تھا تو وہ اس کی خاطر مدارات میں کوئی کمی نہ رہنے دیتے۔
سید محمود بغدادی نے دو شعر اس سلسلے میں نقل کیے ہیں جن کا ترجمہ یہ ہے "ایک آقا اپنے غلام سے کہتا ہے: اے واقد! اونچے ٹیلے پر آگ جلا دے۔ رات نہایت سرد ہے، ٹھنڈی ہوائیں چل رہی ہیں۔ ممکن ہے کہ کوئی بھٹکا ہوا راہی تیری آگ کو دیکھ لے۔ اگر تیری اس جلائی ہوئی آگ نے کسی مہمان کو اپنی طرف کھینچ لیا تو تجھے آزاد کر دیا جائے گا۔
کبھی کبھی یہ لوگ بجائے آگ جلانے کے عود اور دوسری خوشبودار چیزیں بھی جلاتے تاکہ ہوا کے جھونکے وسیع و عریض صحرا میں دور دور تک مہک پھیلاتے رہیں اور مسافر یہ خوشبو سونگھ کر ان کے پاس پہنچ جائے، پھر وہ اس کی ضیافت کرکے لطف اندوز ہوں۔ بعض لوگوں نے اس مقصد کے لیے کتے پال رکھے تھے جو رات کے سناٹے میں بھونکتے تھے اور دور دراز تک ان کی پھیلتی ہوئی آوازیں شب کے صحرانوردوں کو میز بانوں کے خیموں تک پہنچا دیتی تھیں۔ اس طرح وہ ان کی مہمانی کرکے اپنی روح کو سکون بخشتے تھے۔
ایک موقع پر ایک شاعر نے اپنے بیٹے کو اپنے کتے کے بارے میں یہ وصیت کی میرے بیٹے! میں تجھے اپنے کتے کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کہ اس سے اچھا سلوک کرنا، اس میں بعض خوبیاں ایسی ہیں جو مجھے بہت پسند ہیں۔ ان میں سے ایک خوبی یہ ہے کہ جب فضا رات کی سیاہ چادر اوڑھ لیتی ہے تو یہ میرے مہمان کو رات کی تاریکی ہی میں میرے پاس کھینچ لاتا ہے کیونکہ اس وقت آگ جلانے والے سو جایا کرتے ہیں"۔
مہمان نوازی، لوگوں کا درد محسوس کرنے کا جذبہ، جانوروں اور درختوں سے محبت ان صفات سے مزین ڈاکٹر شیبا رانی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا، ان کے گھر پر ہوئی اس ملاقات کے دوران ایک خوبصورت سی بلی ہمارے آس پاس گھومتی رہی۔ ڈاکٹر شیبا رانی اس کے ایموشنز کو سمجھ رہی تھیں، کہ اس کو بھوک کب لگ رہی ہے اور کس وقت وہ آرام کرنا چاہ رہی ہے
اسی طرح پودوں کے بارے میں بتایا کہ آپ گھر میں دو گملوں میں پودے لگائیں، دونوں میں پانی ڈالیں، کھاد ڈالیں، ان کا خیال رکھیں لیکن ایک کمرے میں موجود پودے کے ساتھ وقت گزاریں اور دوسرے کو نظر انداز کر دیں - تو نظر انداز کیے جانے والا پودا سوکھ جائے گا۔ یعنی پودے بھی جذبات رکھتے ہیں اور ہماری محبت کو محسوس کرتے ہیں - میں نے پوچھا پودوں اور جانوروں کے جذبات محسوس کرنے کی سکل کیسے حاصل کی، کہنے لگیں ثاقب بھائی بچپن سے ہی میرے پاس بلی ہوتی تھی اور پودوں کے ساتھ بھی وقت گزارا، ان کے ساتھ بات چیت کرنے سے اللہ تعالی نے یہ صلاحیت میرے اندر ڈالی۔
پچھلے ہفتے ہمارے ٹرینرز کے گروپ میں اس موضوع پر بات ہو رہی تھی کہ اپنے غصے پر کیسے قابو پایا جائے- لوگوں کی چھوٹی چھوٹی باتیں انسان کو ہرٹ کر دیتی ہیں، اس سے کیسے بچا جائے۔ اپنے دماغ کے مسلز کو کیسے مضبوط کیا جائے۔
مائنڈ سائنسز میں اس کے بہت سے طریقے ہیں۔ سانسوں کی مشق، میڈیٹیشن، اپنے پاسٹ کو ہیل کرنا، فیوچر کو تصور میں دیکھنا، ہپنوٹزم کے ذریعے دماغ کی پروگرامنگ وغیرہ۔
ایک اور طریقہ اس ضمن میں اختیار کیا جا سکتا ہے اور وہ یہی ہے، درختوں، پرندوں اور جانوروں سے باتیں کرنے کا فن سیکھنا۔
محترم دوستو، آپ اس کو ٹرائی کرنا شروع کریں، درختوں سے ابتدا کریں اور نتائج آپ کو حیران کر دیں گے، بقول جاذب قریشی
میری تہذیب کا باشندہ نہیں وہ شخص
جو درختوں سے پرندوں کو اڑا دیتا ہے
ڈاکٹر شیبا رانی کے والد محترم شیخ بہاؤالدین ایڈووکیٹ تھے- ایوب خان کی کابینہ کا حصہ تھے- ایک ورلڈ کلاس شخصیت، کہتی ہیں ہم نے اپنے بابا سے ٹائم کی پابندی سیکھی، رکھ رکھاؤ سیکھا، لباس پہننے کا سلیقہ کہ دن میں، شام میں اور رات میں کس قسم کا لباس پہننا ہے۔ کمیونیکیشن کی مہارت، اپنے بابا کی تربیت کی بدولت بچپن میں ہی حاصل کر لی۔ جس میں امپورٹنٹ چیز اس بات کی آگاہی ہے، کہ کتنا بولنا ہے۔
گفتگو میں آگے جا کر جب کامیابی کے اصول کے لیے پرنسپلز اختیار کرنے کی بات ہوئی، تو نوجوانوں کے لیے پیغام دیا کہ سخت محنت کریں اور ساتھ ہی اپنے کام سے کام رکھیں - دوسروں کے معاملات میں خواہ مخواہ ٹانگ نہ اڑائیں۔
ان کی اس بات پر ایک ارب پتی کاروباری شخص کا واقعہ یاد آگیا- ان صاحب کی ایک آنکھ نہیں تھی- نام ہم ان کا جاوید فرض کر لیتے ہیں - جاوید صاحب کہتے ہیں، کہ میں نے زندگی میں ایک پرنسپل سیکھا، جس نے مجھے کاروبار کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔
اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے بتایا، کہ میرا تعلق ایک لوئر مڈل کلاس فیملی سے تھا- ہمارے گھر کے قریب ہی ایک پاگل خانہ تھا- اس کی بلند و بالا دیوار کے ساتھ میں ہر روز گزرتا تھا- ایک دن میں دیوار کے ساتھ جا رہا تھا، کہ مجھے اندر سے پاگلوں کی بلند آوازیں سنائی دیں جو کہہ رہے تھے بارہ، بارہ، بارہ -جاوید صاحب کہتے ہیں میں دیوار کے ساتھ چلتا جا رہا تھا اور بارہ، بارہ کی آوازیں میرے کانوں میں آ رہی تھیں۔
میرا تجسس بڑھتا جا رہا تھا کہ آخر یہ لوگ بارہ، بارہ کی آواز کیوں لگا رہے ہیں - کہ اچانک مجھے دیوار میں سوراخ نظر آتا ہے میں اس کے ساتھ اپنی آنکھ لگا کر اندر دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں، جیسے ہی میں آنکھ سوراخ کے ساتھ لگاتا ہوں، اندر موجود پاگل لوہے کی سلاخ میری آنکھ میں گھونپ دیتا ہے اور ساتھ ہی اندر سے آوازیں آنا شروع ہو جاتی ہیں تیرہ، تیرہ
جاوید صاحب کہتے ہیں، اس حادثے میں میری ایک آنکھ ضائع ہوگئی لیکن میں نے یہ سبق حاصل کیا کہ اپنے آس پاس کی آوازوں سے کان بند کرکے اپنے کام پر فوکس، آپ کو زندگی میں آگے بڑھاتا ہے- میں نے ایسا ہی کیا اور آج میں ایک کامیاب کاروباری انسان ہوں۔
ڈاکٹر شیبا رانی کی ابتدائی سکولنگ خیرپور میں ہوئی۔ نواب شاہ میڈیکل کالج سے ایم۔ بی۔ بی۔ ایس کی ڈگری حاصل کی سکالرشپ پر آسٹریلیا سے پبلک ہیلتھ میں ماسٹرز کیا۔
آسٹریلیا میں قیام کے دوران فیملی ساتھ تھی چھوٹے بچوں کی سکولنگ اور مشکل تعلیم۔ کہتی ہیں میں ساری ساری رات پڑھتی رہتی تھی ان کے شوہر حسن رضا عباسی بھی ایک یونیورسٹی میں پڑھ رہے تھے، دونوں میاں بیوی پارٹ ٹائم جاب بھی کرتے تھے۔
سہارا کوئی بھی ہو ہمت خودی کو کرنا ہے
کہ پاؤں چلتے ہیں بیساکھیاں نہیں چلتیں
ایب اوریجنل لوگوں کی زندگی سے متعلقہ ہیلتھ پروجیکٹس مکمل کیے۔ آسٹریلیا کی لائبریریز کی تعریف کی سکولنگ سسٹم کے بارے میں بتایا کہ پانچویں جماعت تک بچوں کو سکولوں میں تین مضامین جنرل سائنس، میتھ اور انگلش پڑھائے جاتے ہیں ہر شخص اپنی صحت کا خیال رکھتا ہے۔
آسٹریلیا کے علاوہ دنیا کے بہت سے ممالک میں گئیں سفر کو دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی کہا جاتا ہے۔ یہی لرننگ پاکستان میں ان کی کامیابی کی ضمانت بنی مختلف ہسپتالوں کو آپ گریڈ کیا کراچی، سکھر، ٹھٹھہ، تھرپارکر اور سندھ کے مختلف ہسپتالوں میں کام کیا۔
کہتی ہیں جب تک آپ کو انسانیت کا درد نہیں ہوگا ڈلیوری بھی نہیں ہوگی تھر پار کر میں سردی کی وجہ سے نوذائیدہ بچوں کا انتقال ہو جاتا تھا اس سلسلے میں جنگی بنیادوں پر کام کیا ماسٹر ٹرینرز کے طور پر چھوٹی سی ٹیم کے ساتھ پورے سندھ میں ورک شاپس کروائیں۔ لوگ انہیں آہنی خاتون کہتے تھے۔
پورے سندھ میں 27 ہسپتال آپ گریڈ کیے اس عمل کے دوران ہسپتالوں میں اپنے ہاتھ سے جھاڑو بھی لگا دیتیں۔
ان کے Aura میں سرخ کے ساتھ پیلا اور سبز رنگ نمایاں طور پر نظر آیا۔
سرخ رنگ ہمارے خون کا رنگ ہے جو ہمارے جذبے اور ثابت قدمی کو ظاہر کرتا ہے پیلے رنگ کا تعلق ہمارے سیلف اسٹیم سے ہے اور سبز رنگ ہمارے محبت کے جذبات کو ظاہر کرتا ہے اپنے کیریئر کے شروع میں جب بطور گائنا کالوجسٹ کام کرتی تھیں تو اپنی جیب سے ہی مریضوں کو دوائی کے پیسے دے دیتی تھیں
برتھنگ سٹیشن کے نام سے شروع ہونے والے ایک اہم پروجیکٹ کے بارے میں بتایا اس میں میٹرک پاس لڑکیوں کو گورنمنٹ دو سال کا کورس کرواتی ہے اس کے بعد وہ اپنے گوٹھ میں جا کر اپنے ہی گھر یا کسی اور جگہ پر کلینک کھول کر خواتین کو ان کی ڈلیوری کے دوران مدد فراہم کرتی ہیں۔
ایک دلچسپ سٹوری بتائی۔ سی ایس ایس کے کچھ سٹوڈنٹس، جن کے ساتھ ایک فارنر بھی ہوتا ہے، ڈاکٹر شیبا رانی کے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں، کہ ہمیں اس ٹریننگ سے فارغ ہو کر کلینک کھولنے والی کسی لڑکی سے ملوائیں ڈاکٹر شیبا ان کو ساتھ لے کر بلوچستان کے ایک گوٹھ میں آتی ہیں، دور دراز واقع اس علاقے میں عزیزہ نامی لڑکی نے اپنی جھگی میں ہی کلینک بنایا ہوا تھا، تقریباََ دو ہزار آبادی والا یہ پورا علاقہ اسی لڑکی کے پاس علاج کے لیے آتا تھا۔
ڈاکٹر شیبا رانی نے کووڈ کے دنوں میں جنگی بنیادوں پر کام کیا۔ پولیو پروگرام کے ساتھ وابستہ رہیں، کہتی ہیں پولیو کی فرنٹ لائن ورکرز کو میرا سلام ہے۔
سچ بولنے اور ایمانداری سے کام کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔ مثال دے کر بتایا کہ اگر مجھے فیلڈ میں دینے کے لیے چار پنسلیں ملی ہیں تو میں نے وہ چار ہی آگے دینی ہیں، میں ان میں سے کسی کو اپنے ذاتی استعمال میں نہیں لا سکتی جب آپ کا دل مطمئن ہوتا ہے تو آپ اصلی رزلٹ دے پاتے ہیں۔ خواتین کے لیے میسج دیا کہ اپنے آپ کو نئے کاموں کے لیے تیار کریں - سرٹیفیکیشنز اور دیگر کورسز کرتی رہا کریں - ڈاکٹر شیبا رانی خیرپور ڈسٹرکٹ میں ایک ہسپتال بنانا چاہ رہی ہیں اس سلسلے میں زمین لے لی گئی ہے ہسپتال کے ساتھ لرننگ سکول اور سکل ٹریننگ سینٹر کھولنے کا پروگرام ہے اس ادارے میں مستحق سٹوڈنٹس کو مفت تعلیم دی جائے گی- ڈاکٹر صاحبہ نے بتایا کہ انہوں نے سادگی، محبت، مہمان نوازی اور بچوں سے قریبی تعلق قائم کرنے کا طریقہ اپنی والدہ سے سیکھا۔
دنیا گھومتی رہتی ہیں، اٹلی کے شہر وینس کی تعریف کی، ترکی میں مولانا روم کے مزار پر حاضری دی۔
مولانا روم اپنے پیغام میں کہتے ہیں۔
باز آ باز آ، هر آن چه هستی
گر کافر و گبر بت پرست باز آ
این درگاه ما در گه نومیدی نیست
صد بار اگر توبه شکستی باز آ
آؤ اپنی ہستی کو بھول کر بارہا چلے آؤ
مت سوچو کہ کافر ہو کہ بت پرست، چلے آؤ
یہ میرا آستانه آستانہ نا امیدی نہیں
وہ توبه بھی جو تم ہزار بار توڑ چکے ہوا سے بھلا کر چلے آؤ
روٹری کلب کے پلیٹ فارم سے پلانٹیشن اور مختلف کام کرتی رہتی ہیں - ان کی آنکھوں میں چمک ہے بڑے خواب دیکھتی ہیں اور خیرپور میں قائم اپنے ادارے کی صورت میں لاکھوں لوگوں کی زندگیوں میں تبدیلی لانے کے لیے پرعزم ہیں اور آخر میں ان کی شخصیت کی عکاسی کرتا ہوا یہ جملہ کہ جہاں تک سوچ جاتی ہے وہیں تک انسان جاتا ہے۔