Saturday, 14 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Saqib
  4. Chuha Aur Sone Ke Dinar

Chuha Aur Sone Ke Dinar

چوہا اور سونے کے دینار

دنیا کی قدیم دانش عقل کو حیران کرنے والی کہانیوں سے بھری ہوئی ہے۔ آج کے اس کالم میں تقریباً 1300 سال قدیم ایک کہانی آپ کے لیے منتخب کی گئی ہے۔ اس کہانی میں ایک چوہا اپنے دوستوں کو اپنی زندگی کا ایک نادر واقعہ سنا رہا ہے۔ وہ کہتا ہے میرا ٹھکانہ ماروت نامی شہر میں تھا، ایک بالکل خالی گھر میں جس میں ایک عابد و زاہد شخص رہا کرتا تھا ہر روز ایک نوکر کھانا لے آتا وہ اپنی ضرورت کی مقدار کھالیتا اور باقی کولٹک کر رکھ دیتا۔

میں اس عابد کے نکل جانے کی تاک میں رہتا اور فوراََ ٹوکری پر ٹوٹ پڑتا جو کچھ اس میں بچا کچھا کھانا ہوتا اسے کھا جاتا اور دوسرے چوہوں کے لیے اسے نیچے گرا دیتا۔ عابد نے کئی دفعہ یہ کوشش کی کہ اس ٹوکری کو میری پہنچ سے دور جگہ پر لٹکائے، لیکن وہ ایسا نہیں کر پاتا۔ ایک رات اس کے پاس ایک مہمان کی آمد ہوئی، ان دونوں نے اکٹھے کھانا کھایا، پھر بات چیت میں لگ گئے

عابد نے مہمان سے کہا: "تم کہاں سے آئے ہو؟ اور کہاں جانا چاہتے ہو؟

اس آدمی نے ساری دنیا کی سیر کی تھی اور نہایت ہی حیران کن چیزیں اس نے دیکھی تھیں، وہ اس عابد کو تمام شہروں کی جہاں وہ پہنچا تھا اور جو کچھ عجائبات اس نے دیکھے تھے سنانے لگا۔ اس دوران وہ عابد شخص مجھے ٹوکری کے پاس سے بھگانے کے لیے تالیاں بجانے لگا۔

اس آدمی نے کہا میں تم سے گفتگو کر رہا ہوں اور تم میری گفتگو کا مذاق اڑا رہے ہو؟ تم مجھ سے یہ احوال پوچھ ہی کیوں رہے ہو؟

عابد نے اس سے معذرت کی اور کہا میں چوہے کو بھگانے کے لیے اپنی ہتھیلیاں بجا رہا ہوں، میں اس کے معاملے میں بہت زیادہ پریشان ہوگیا ہوں، میں گھر میں کوئی بھی چیز رکھتا ہوں تو وہ اسے کھا لیتا ہے۔

مہمان نے کہا ایک چوہا ہے یا بہت سے چوہے ہیں؟

عابد نے کہا گھر میں تو بہت سارے چوہے ہیں لیکن ان میں سے ایک چوہا مجھے بہت پریشان کرتا ہے۔

میں اس کے لیے کوئی تدبیر نہیں کر پاتا ہوں

مہمان نے کہا چوہے کی اس غیر معمولی طاقت کے پیچھے یقیناً کوئی راز ہے۔ تم میرے لیے ایک کلہاڑی لے آؤ، میں اس کے بل کو کھود دیتا ہوں، اس طرح اس کے بارے میں بعض معلومات حاصل کرتا ہوں۔

عابد نے اپنے کسی پڑوسی سے کلہاڑی لی، اسے مہمان کے پاس لایا، میں اس وقت اپنے بل کے علاوہ ایک دوسرے بل میں تھا اور ان دونوں کی گفتگو سن رہا تھا، میرے بل میں ایک تھیلی تھی جس میں ہزار دینار تھے، اس نے وہ لے لیے اور عابد سے کہنے لگا یہ چوہا جہاں کہیں بھی اچھل کود کرتا تھا تو انہی دینار کی طاقت کے بل بوتے پر چونکہ مال نے اس میں قوت و طاقت، غیر معمولی اصابت رائے کو پیدا کر دیا تھا"۔

دوسرے دن سب چو ہے جو میرے ساتھ رہتے تھے اکٹھے ہوئے، کہنے لگے ہمیں بھوک لگی ہے اور تم سے ہی ہماری امیدیں ہیں۔ میں اور میرے ساتھ تمام چو ہے اس جگہ چلے جہاں سے میں ٹوکری میں اُچھلتا تھا، میں نے کئی دفعہ ٹوکری میں چھلانگ لگانے کی کوشش کی، لیکن ایسا نہ کر سکا، چوہوں کو میری دگرگوں حالت کا پتا چل گیا۔

میں نے ان کو یوں کہتے سنا اس کے پاس سے چلو، اس سے امیدیں وابستہ نہ کرو ہمیں تو اس کی حالت ایسی دکھائی دی رہی ہے کہ وہ اب اپنی اس حالت میں دوسروں کا محتاج اور دست نگر نظر آ رہا ہے، وہ ہمیں چھوڑ کر دشمنوں کی صفوں میں داخل ہوگیا ہے اور اس نے ہم پر ظلم کیا ہے۔

پھر وہ لوگ میرے دشمنوں اور حاسدوں کے سامنے میری چغلی اور شکایت کرنے لگے تو میں نے اپنے دل میں کہا بھائی، دوست، مددگار تو مال کی بنا پر ہوتے ہیں، میں نے دیکھا ہے کہ جس کے پاس مال و دولت نہیں ہوتی جب وہ کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو اسے محتاجی، فقیری اس کے ارادے سے باز رکھتی ہے، جیسے سردی کے موسم میں پانی گڑھوں، گڈوں میں محفوظ رہ جاتا ہے جو نہ کسی نہر سے گزرتا ہے اور نہ کسی جگہ چلتا ہے اسے زمین ہی جذب کر لیتی ہے، جس کے دوست نہیں ہوتے اس کے اہل وعیال نہیں ہوتے، جس کے اہل وعیال اور اولاد نہیں ہوتی اس کا ذکر خیر نہیں ہوتا، جس کے پاس مال نہیں ہوتا نہ اس کے پاس عقل ہوتی ہے نہ دنیا یا آخرت، چونکہ جب آدمی محتاج ہوتا ہے تو اس کے رشتے دار، اس کے دوست و احباب اس سے قطع تعلق کر لیتے ہیں، چونکہ شوریدہ اور نمک والی زمین پر پیدا ہونے والا درخت (جس کے ہر طرف نمک ہی نمک ہو) اس کی حالت اس تنگ دست کی سی ہوتی ہے جو لوگوں کے ہاتھوں میں موجود چیزوں پر نظر کرتا ہے میں نے فقر و محتاجی کو ہر مصیبت کی جڑ پایا ہے، اس کی وجہ سے اسے ہر طرح کی ناراضی اور چغلی و شکایت کا سرچشمہ بننا پڑتا ہے، جب آدمی محتاج اور تنگ دست ہوتا ہے تو اس پر وہی شخص الزام تراشی کرنے لگتا ہے جو اسے امین سمجھتا تھا، وہی اس کے ساتھ بدظن ہو جاتا ہے جو اس کے بارے میں حسن ظن رکھا کرتا تھا، اگر کوئی گناہ اور جرم کرے تو یہی شخص ملزم اور مجرم ٹھہرتا ہے۔

جو عادت مالدار کے حق میں تعریف و توصیف کے قابل سمجھی جاتی وہی تنگ دست و محتاج کے حق میں قابل مذمت و ملامت گردانی جاتی ہے، اگر وہ بہادر ہوتا ہے تو اسے جو شیلا کہا جاتا ہے، اگر وہ سخی ہوتا ہے تو فضول خرچ، اگر بردبار ہوتا ہے تو کمزور اور اگر پروقار ہوتا ہے تو سست کہا جاتا ہے۔

اس ضرورت سے جو مانگنے پر مجبور کر دے اس سے موت اچھی ہے، خاص طور پر بخیلوں اور کمینوں سے مانگنے سے چونکہ شریف با عزت شخص کو اپنا ہاتھ سانپ کے منہ میں ڈالنے اور اس سے زہر نکال کر اسے نگلنے کے لیے کہا جائے تو یہ اس کے حق میں بخیل کے سامنے دستِ سوال دراز کرنے سے آسان اور بہتر ہے۔

میں نے دیکھا کہ مہمان نے جب دینار لے لیے تو اسے عابد نے تقسیم کیا، عابد نے اپنے حصے کو اپنے سر کے پاس ایک تھیلی میں رکھ چھوڑا، جب رات ہو چکی تو مجھے خواہش ہوئی کہ میں ان دینار میں سے کچھ لے کر اسے اپنے بل میں واپس لے جاؤں، اس طرح میری طاقت وقوت میں اضافہ ہو سکتا ہے اور اس کی وجہ سے پھر کچھ میرے دوست ہو جائیں۔ میں عابد کے پاس گیا تو وہ سویا ہوا تھا، میں اس کے سرہانے گیا تو دیکھا کہ وہاں مہمان ہے، اس کے ہاتھ میں لاٹھی ہے۔ اس نے میرے سر پر زور دار چوٹ ماری، میں اپنی بل میں بھاگ آیا، پھر جب میری تکلیف اور درد ختم ہوگیا تو حرص اور لالچ پھر میرے اندر انگڑائی لینے لگا، پھر میں پہلے ہی کی طرح لالچ میں چل پڑا، مہمان اس وقت بھی میری نگرانی کر رہا تھا، پھر اس نے مجھے ایسی مار ماری کہ میرا خون بہہ گیا۔ میں پیٹ اور پیٹھ کے بل الٹ پلٹ کرتے ہوئے اپنی بل تک پہنچا، پھر میں بے ہوش ہو کر گر پڑا اس کے بعد میں نے کوشش ترک کر دی۔

* محترم دوستو، اس کالم کو پڑھنے کے بعد یقیناً سوچ کے نئے دروازے آپ پر کھلیں گے۔

About Muhammad Saqib

Muhammad Saqib is a mental health consultant who has been working in the fields of hypnotherapy, leadership building, mindfulness and emotional intelligence for over ten years. Apart from being a corporate trainer, he is involved in research and compilation and documenting the success stories of Pakistani personalities in the light of Mindscience. Well-known columnist and host Javed Chaudhry is also a part of the trainers team.

Check Also

9 May Ka Phanda Hai Aur Hum Hain Dosto

By Abdullah Tariq Sohail