Ye Election Awam Ka Aakhri Faisla Hai
یہ الیکشن عوام کا آخری فیصلہ ہے
2022ء میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کی حکومت ختم کرنا اپوزیشن کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ یہ بات سچ ہے کہ اپنے دور حکومت میں عمران خان صاحب کا زیادہ تر زور اپوزیشن کو رگڑا لگانے کی جانب تھا اور وہ زیادہ ڈیلیور نہیں کر پارہے تھے، لوگوں کو جو اُن سے امیدیں وابستہ تھی وہ اُن پر بھی پورا نہیں اتر پارہے تھے۔ نہ وہ 50 لاکھ گھر بناسکے تھے اور نہ ہی ایک کروڑ نوکریاں ہی عوام کو دلا سکے تھے۔ ڈالر کی قیمت بھی روپے کے مقابلے میں ملک کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی تھی اور پی ٹی آئی نے اپنے دور حکومت میں کوئی موٹر وے یا اورنج لائن بھی نہیں بنائی تھی کہ جِسے دِکھا کر وہ عوام سے ووٹ ہی لے سکتے۔
عوام کی جوسپورٹ پی ٹی آئی کو حاصل تھی وہ بھی آہستہ آہستہ ختم ہورہی تھی۔ اگر عمران خان صاحب کو 5 سال مکمل کرنے دیئے ہوتے تو یقین مانے پی ٹی آئی کی مقبولیت باقی جماعتوں سے بھی شاید کم ہوتی۔ مگر کیا کریں کہ اپوزیشن نے عین عصر کے وقت روزہ توڑنے کا فیصلہ کرلیا اور عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لے آئی۔ عدم اعتماد لانے کی وجہ آج تک ایک معمہ ہے کہ ایک دم سے تحریک عدم اعتماد لانے کی کیا ضرورت آن پڑی تھی، اس حوالے سے بہت سی تھیوریز ہیں مگر فیکٹ کوئی نہیں۔
عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد عوام کی پی ٹی آئی کی جانب کم ہوتی سپورٹ کو مزید کم کرنے کی بجائے بلکہ اُلٹا اور بڑھا گئی۔ خدا کی قدرت تبھی سائفر کا معاملہ سامنے آگیا (سائفر کیا تھا اور کیا نہیں تھا یہ ایک الگ موضوع ہے جس کے لئے ایک الگ کالم درکار ہے) عمران خان صاحب نے سائفر کو بیرونی مداخلت قرار دیتے ہوئے اپوزیشن کی طرف سے لائی گئی تحریک عدم اعتماد کے تانے بانے سائفر سے جوڑ کر خود کو مقبولیت کی بلندی پر پہنچا لیا۔ عوام کے دل میں اچانک سے اُن کیلئے ہمدردی کے جذبات پیدا ہوگئے اور جو عوام عمران خان کی حکومت سے زیادہ خوش نہیں تھے وہ ایک دم سے عمران خان کو مظلوم سمجھنے لگ گئے۔
گیارہ جماعتوں نے مل کر پی ڈی ایم کا اتحاد بناکر عمران خان کی حکومت ختم کی اور وزیر اعظم کا سہرا شہباز شریف کے سر باندھ کر ان کو کرسی پر بٹھا دیا۔ پیپلز پارٹی نے بھی مٹی میں نمی دیکھ مفاد کی فصل کاشت کرنے کا فیصلہ کیا اور بلاول بھٹو کو وزیر خارجہ بنوادیا۔ مگر اِس ساری سرگرمی کا عوام کو رتی بھر فائدہ نہیں ہوا بلکہ اُلٹا نقصان ہوا۔ آپ اس سے لاکھ اختلاف کریں مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ پی ڈی ایم کا دور حکومت پاکستان کی تاریخ کا سب سے ناقص دور حکومت تھا۔ مہنگائی کا وہ طوفان اٹھا کہ غریب تو ایک طرف مڈل کلاس طبقہ کی بھی چُولیں ہِل کر رہ گئی۔
700 یا 800 کی دیہاڑی لگانے والا مزدور شام کو 600 روپے کا کلو گھی خریدتا تھا، ملک میں پہلی بار پٹرول 300سے روپے سے اوپر کراس کرگیا، ڈالر کی قیمت ملک کی بلند ترین سطح پر پہنچ کر 300 سے اوپر چلی گئی، بجلی کے بلز 50 ہزار روپے تک چلے گئے۔ حالات یہاں تک خراب ہوگئے کہ عوام نے گھر کا زیور بیچ کر بجلی کے بلز ادا کیے۔ ملک اور ملکی نظام سے عوام کی مایوسی آخری حدوں کو پہنچ گئی اور لوگوں کو پی ٹی آئی کا دور حکومت شدت سے یاد آنے لگا۔
پی ڈی ایم حکومت عوام کو ریلیف دینے کی بجائے اپنے مقدمات ختم کرنے میں زیادہ دلچسپی لیتی رہی۔ عوام کو کسی ایک چیز میں بھی ریلیف نہیں ملا اور گیارہ جماعتوں نے مل کر عوام کا بھرکس نکال دیا۔ اگر پی ڈی ایم تھوڑا بہت ڈیلیور کر پاتی تو شاید عوام کی ہمدردیاں پی ٹی آئی کی طرف اتنی شدت اختیار نہ کرتی۔ دوسری طرف عمران خان کو مختلف مقدمات میں دی جانیوالی سزائیں بھی عوام کے دل میں عمران خان کیلئے ہمدردی کا باعث بنتی رہی۔ عمران خان کے پارٹی ورکروں پر ہونے والے ریاستی جبر نے بھی عوامی رائے عامہ کو مزید عمران خان کے حق میں ہموار کیا۔ اور حد تو تب ہوگئی جب عمران خان کو نکاح عدت کیس میں اُن کی اہلیہ سمیت سزا سنادی گئی۔ آپ مانے یا نہ مانے اِس سزا نے بھی عوام کی ایک بڑی تعداد کو اِس عدالتی نظام سے متنفر کیااور عمران خان کیلئے مزید ہمدردیاں پیدا کی۔
عوام جو پی ڈی ایم کی حکومت سے ناراض اور اس نظام کےخلاف غصے سے لبریز تھے، اُن کے پاس سوائے ووٹ کی طاقت سے اپنا غصہ نکالنے کے کوئی چارہ باقی نہیں بچاتھا۔ اب آپ اِس عوام کو بیوقوف کہیں، بلڈی سویلین کہیں یا جاہل کہیں مگر عوام نے اپنا فیصلہ سنادیا ہے۔
یہ ملکی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ ایک جماعت کو اتنا دیوار سے لگایا گیا ہوکہ اُس جماعت کے چیئرمین کا نام ٹی وی پر لینے کی پابندی ہو اور اُس پارٹی کے چیئرمین کو لمبی سزا سنا کر جیل میں بند کیا گیا ہو مگر پھر بھی وہ جماعت الیکشن میں سب کو اڑا کر رکھ دے تو آپ اِسے اِس جماعت کی مقبولیت نہیں کہیں گے تو اور کیا کہیں گے۔ آپ لوگوں کی عمران خان سے محبت کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ جو لوگ عمران خان کو چھوڑ کر گئے عوام نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا۔
کے پی کے میں سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نوشہرہ کی سات نشستوں پر اپنے دو بیٹوں اور داماد کے ساتھ کھڑے تھے اور وہ سات کی سات نشستوں سے ہار گئے قطع نظر اس کے وہ اپنے جلسوں اور کارنر میٹنگز میں خود کو کے پی کے کا اگلا وزیراعلیٰ کہا کرتے تھے اور پی ٹی آئی کو کے پی کے سے ختم کرنے کے دعوے کیا کرتے تھے۔ پرویز خٹک کے بعد وزیر اعلیٰ بننے والے محمود خان نے بھی عمران خان کو خیر باد کہہ دیا تھا وہ دو نشستوں پر الیکشن لڑ رہے تھے وہ بھی اپنی دونوں نشستیں سے ہار گئے۔ جہانگیر ترین خان پنجاب سے اپنی نشست ہار گئے۔ یہ چیزیں ثابت کرتی ہے کہ عوام کی اکثریت عمران خان کے ساتھ ہیں۔
اس الیکشن میں بہت سی ایسی باتیں اور حقائق ہیں کہ جن پر بحث کی جاسکتی ہے کہ جیسے پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ آزاد امیدوار مہر بانو کے 16 ہزار ووٹ کیسے ریجیکٹ کر دیئے گئے، جو امیدوار رات گئے تک ہار رہے تھے وہ اگلی صبح یک دم سے کیسے جیتنے لگ گئے یا ایم کیو ایم کراچی سے اتنی سیٹیں کیسے جیت گئی۔ ان سب باتوں سے قطع نظر اب تک کی اطلاعات کے مطابق آزاد امیدوارسو سے زائد نیشنل اسمبلی کی سیٹیں جیت چکے ہیں۔
الیکشن کایہ رزلٹ اس بات کی جانب اشارہ کررہا ہے کہ عوام کیا چاہتے ہیں اور عوام کی حمایت کس جانب ہیں۔ خدارا ریاست اس الیکشن کو تسلیم کرکے عوام کے فیصلے کا احترام کریں۔ عوام پہلے ہی اس نظام سے مایوس ہیں انہیں مزید مایوس نہ کریں۔ یہ الیکشن عوام کا آخری فیصلہ ہیں اسے قبول کرکے سر تسلیم خم کیا جانا چاہیئے ورنہ عوام کے پاس سوائے سڑکوں پر نکلنے کے کیا آپشن باقی بچے گا۔