Yahood, Musalman Aur Teesri Jang (3)
یہود، مسلمان اور تیسری عالمی جنگ (3)
انگلینڈ سے تعلقات بڑھانے کے ساتھ ساتھ صیہونی تحریک نے ترکی میں ینگ ترک (Young Turk) نامی تحریک کو بھی سپورٹ کرنا شروع کردیا جن کا مقصد خلافت کا خاتمہ تھا۔ 1908ء میں ینگ ترک نے پاور حاصل کرنے کے بعد صیہونیوں کو خوش کرنے کیلئے فلسطین میں یہودیوں کے زمین خریدنے پر عائد پابندی ختم کردی۔ ایک دفعہ پھر سے یہودیوں نے بڑی تعداد میں فلسطین میں زمینیں خریدنا شروع کردی۔
1914ء میں پہلی جنگ عظیم کا آغاز ہوگیا۔ نومبر 1914ء میں برطانیہ نے خلافت عثمانیہ کے خلاف جنگ کا اعلان کردیا اور 2 مہینے کے اندر اندر صیہونیوں کی حمایت حاصل کرنے کیلئے برطانوی پارلیمنٹ میں فلسطین میں ایک آزاد یہودی ریاست کا میمورنڈم پیش کردیا گیا۔ 2 نومبر 1917ء کو برطانوی وزیر خارجہ آرتھر بالفورڈ نے انگلینڈ میں مقیم ایک بڑے یہودی سرمایہ دار روتھ شیلڈ کو خط لکھ کر اسرائیل کے قیام میں برطانیہ کی مدد کا اعلان کردیا۔ اس اعلان کو آج بالفورڈ ڈکلریشن کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ 9 نومبر 1917ء کو یہ خط برطانوی پریس میں بھی شائع ہوگیا۔
1918ء میں پہلی جنگ عظیم ختم ہوگئی۔ خلافت عثمانیہ کو اس جنگ میں شکست ہوگئی اور فلسطینی علاقہ برطانیہ کے پاس چلاگیا۔ اگلے 2 دہائیوں میں ایک لاکھ سے زیادہ یہودیوں نے فلسطین میں ہجرت کی۔ برطانیہ کی فوج فلسطین میں موجود رہی مگر اس کی کاروائیاں صرف ان عرب عسکریت پسند گروپوں کے خلاف رہی جو یہودیوں کے فلسطین میں آکر بسنے کے خلاف تھے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی میں ہونے والے ہولوکاسٹ کی وجہ سے یورپ اور جرمنی سے یہودیوں ایک بہت بڑی تعداد فلسطین کا رخ کرنے لگی۔ اُن کے فلسطین میں آنے کی وجہ سے مقامی عربوں کے ساتھ ان کی لڑائیاں عام سی بات ہوگئی۔ برطانیہ فلسطین کا معاملہ اقوام متحدہ میں لے گیا اور نومبر 1947ء میں اقوام متحدہ نے اسرائیل اور فلسطین دو علیحدہ ریاستیں کے قیام کا اعلان کردیا اور 14 مئی 1948ء کو اسرائیل کا قیام عمل میں آگیا۔
بیسویں صدی آتے آتے یہودی یورپ میں طاقتور ہونا شروع ہوگئے تھے۔ سارا بینکنگ سسٹم ان کے کنٹرول میں تھا۔ اپنے سرمائے اور میڈیا میں بے تحا شا اثر و رسوخ کی وجہ سے صیہونیوں نے ہولوکاسٹ کو بنیاد بنا کر اپنے حق میں خوب پروپیگنڈہ کیا۔ اسی پروپیگنڈہ کی بنیاد پر انہوں نے مغربی دنیا میں خوب ہمدردیاں سمیٹی جس کی وجہ سےان لوگوں نے مغربی دنیا میں ایسے قوانین بنالیئے جن میں ان کے خلاف بات کرنا جرم بن گیا۔ یورپ جو صدیوں تک یہودیوں پر ظلم کرتا آیا تھا، اس نے اپنا احساس جرم مٹانے کیلئے اسرائیل کے ہر غیر قانونی اور غیر انسانی کام میں اس کا ساتھ دینا شروع کر دیا۔
اسی لئے 1948ء میں پہلی اور 1967ء میں دوسری عرب اسرائیل جنگ میں یورپ اور امریکہ نے اسرائیل کی خفیہ اور اعلانیہ دونوں طریقے سے مدد کی۔ عرب جو گولی سے لیکر جنگی جہاز تک امریکہ اور یورپ پرمنحصر تھے، یہ جنگ ہار گئے نہ صرف یہ جنگ ہار گئے بلکہ اپنے علاقے بھی کھودیئے اور 1967ء میں تو یروشیلم بھی دو ہزار سال بعد یہودیوں کے پاس چلا گیا۔ اب ان کا اگلا ہدف مسجد اقصیٰ کو منہدم کرکے وہاں ہیکل سلیمانی دوبارہ تعمیر کرنا ہے کیونکہ ان کے عقیدے کے مطابق پھر ان کا مسیحا دینا میں آئے گا اور ان کی عالمی حکومت قائم کرے گا۔
اسرائیل نے دنیا بھر کے یہودیوں کو اپنے ملک میں بسانے کیلئے بہت پاپڑ بیلے ہیں، انہیں روزگار، اچھی تعلیم اورسب سے بڑھ کر سیکورٹی کی گارنٹی دی تھی۔ مگر حماس کے 7 اکتوبر کے حملے کے بعد سے حالات یکسر تبدیل ہوگئے ہیں۔ حماس کے حملے کے بعد سے اسرائیل نے غزہ کے عام شہریوں پر انسانیت کو شرمندہ کر دینے والے فضائی حملے کئے ہیں اور غزہ کے لوگوں پر پانی اور بجلی تک بند کر رکھی ہے۔ سخت سردی میں لوگ کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ اسرائیل اس حملے کو جواز بناکر غزہ پر قبضہ کرنا چاہتا ہے جس کا اظہار خود اسرائیل کا وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کر چکاہے۔ اسرائیلی فوج فلسطینیوں کا حوصلہ توڑنے کیلئے غزہ کے ہسپتالوں تک کو تباہ کر چکی ہے۔ اب تک 21,000 کے قریب فلسطینی اسرائیل کے ظلم کا شکار ہوچکے ہیں۔
اسرائیل کے اس ظلم کی وجہ سے سارا یورپ سڑکوں پر ہے۔ یورپی اور امریکی حکومتیں چاہے اسرئیل کے ساتھ کھڑی ہے مگر عوام فلسطین کے ساتھ کھڑی ہے۔ عوام کے روزکے احتجاج کی وجہ سے مغربی حکومتیں بھی کھل کر اسرائیل کی حمایت نہیں کر پارہی اور اسرائیل بڑی تیزی سے یورپ میں اپنی حمایت کھوتا جارہا ہے۔ اسرائیل کی ٹوٹل آبادی 90 لاکھ ہے جن میں بہت بڑی تعداد باہر سے آئے لوگوں کی ہے جو یورپ یا روس وغیرہ سے آئے ہیں۔ ان لوگوں کے پاس دوہری شہریت ہے۔ 7 اکتوبر کے حملے کے بعد سے 5 لاکھ سے زیادہ اسرائیلی ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں، اسرئیل کی ٹورازم زیرو ہوچکی ہے، اسرئیلی کرنسی مسلسل گر رہی ہے اور ڈیرھ لاکھ سے زائد لوگوں نے اسرائیل میں بیروزگاری الاؤنس کیلئے خود کو رجسٹر کروالیا ہے۔
دوسری طرف 2 مہینے سے زائدکا وقت گزر چکا ہے مگر اسرئیل غزہ کی جنگ نہیں جیت سکا۔ روزانہ کی بنیاد پر اسرائیل کے ٹینک تباہ ہو رہے ہیں اور فوجیوں کی لاشوں کے تابوت واپس اسرئیل جارہے ہیں۔ دوسری جانب حزب اللہ سے بھی اسرئیل کی سرحدی کشیدگی جاری ہے اور یمن نے بھی اسرئیل کے بحری جہازوں کا راستہ بلاک کر رکھا ہے۔ اگر حزب اللہ اور یمن سے بھی اسرئیل کی جنگ شروع ہوجاتی ہے تو 10 سے 15 لاکھ لوگ مزید اسرئیل کو چھوڑ کر چلے جائیں گے۔ بس ایک چھوٹی سی حساب کتاب کی غلطی مشرق وسطیٰ کو جنگ میں دھکیل سکتی ہے اور یہ جنگ تیسری عالمی جنگ کا نقطہ آغاز بھی بن سکتی ہے۔ اور شاید یہ وہی آخری جنگ ہےجو یہودیوں نے مسلمانوں کے خلاف لڑنی ہے اور جس کی تیاری یہودی دہائیوں سے کررہے ہیں اور جس جنگ کا ذکر احادیث نبوی ﷺ میں تواتر کے ساتھ ملتا ہے۔
"قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ مسلمان یہود سے لڑیں گے۔ پھر مسلمان ان کو قتل کریں گے یہاں تک کہ یہودی کسی پتھر یا درخت کی آڑ میں چھپے گا تو وہ پتھر یا درخت بولے گا، اے مسلمان! اے اللہ کے بندے!یہ میرے پیچھے ایک یہودی ہے ادھر آ اور اس کو مار ڈال سوائے غرقد کے درخت کے۔ کیونکہ یہ یہود کا درخت ہے" (صحیح مسلم)۔
جنگ کے بادل منڈلارہے ہیں مگر ہم شاید ابھی خواب غفلت سے جاگنا نہیں چاہتے۔ (ختم)