Tuesday, 05 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Saeed Arshad
  4. Yahood, Musalman Aur Teesri Jang (2)

Yahood, Musalman Aur Teesri Jang (2)

یہود، مسلمان اور تیسری عالمی جنگ (2)

حضرت عمرؓ کی طرف سے اجازت ملنے کے بعد یہودیوں نے بیت المقدس میں آزادی کے ساتھ رہنا شروع کردیا۔ یہودی تاریخ دان برنارڈ ریخ اپنی کتاب A Brief History of Israel میں لکھتے ہیں: "اسلامی حکمرانی کے آغاز میں، یروشلم میں یہودی آباد کاری کا دوبارہ آغاز کیا گیا، اور یہودی برادری کو تحفظ کے تحت رہنے کی اجازت دی گئی، جو کہ اسلامی حکمرانی کے تحت غیر مسلموں کی روایتی حیثیت ہے، جس نے ان کی جان، مال اور عبادت کی آزادی کا تحفظ کیا"۔

711ء میں طارق بن زیاد نے اسپین فتح کیا اور اسپین میں اسلامی دور کا آغاز ہوگیا۔ جب یہودیوں کو یورپ میں بد ترین تشدد اور غیر انسانی رویہ کا سامنا تھا تب مسلم اسپین یہودیوں کیلئے کسی نعمت سے کم نہیں تھا۔ یہودیوں کو وہاں مکمل مذہبی آزادی حاصل تھی نہ صرف مذہبی آزادی بلکہ یہود کو اسپین کے درباروں میں بھی اہم عہدے حاصل تھے اور کئی ایک یہودی تو وزیر کے عہدے تک بھی پہنچ گئے تھے۔ مسلمانوں کی ان مہربانیوں کے بدلے میں یہود ہمیشہ مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف رہے اور مسلمانوں کے دشمنوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کو کمزور کرنے کی کوششیں کرتے رہے۔

نبی کریم ﷺ کے دنیا میں تشریف لانے سے قبل یہودیوں کے کچھ قبیلے عرب میں آکر آباد ہوگئے تھے کیونکہ ان کو پتا تھا کہ ان کی کتابوں کے مطابق آخری نبی اس جگہ تشریف لائیں گے۔ یہود نے ہی مقامی بت پرستوں عربوں کو بتایا تھا کہ ایک آخری نبی تشریف لانے والا ہے۔ جب نبی کریم ﷺ دنیا میں تشریف لے آئے تو انہوں نے نبی کریم ﷺ کی مخالفت کرنی شروع کردی کیونکہ نبی کریم ﷺ حضرت اسحاقؑ کی بجائے حضرت اسماعیلؑ کی نسل میں سے تشریف لائے تھے۔ نبی کریم ﷺ کی مخالفت میں یہ لوگ اتنا آگے تک چلے گئے کہ انہوں نے نبی ﷺ پر جادو کیا، نعوذ باللہ نبی کریم ﷺ کو قتل کرنے کی سازشیں کی اور ایک بار تو نبی کریم ﷺکو زہر تک دینے کی کوشش کی۔

نبی کریم ﷺ نے یہود کے ساتھ معاہدے کئے انہوں نے عین جنگ کے موقع پر معاہدوں کو توڑا اور مسلمانوں کے خلاف ہی ہتھیار اٹھالئے۔ غزوہ خندق کے دوران مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان مدینے کا دفاع مل کر کرنے کا معاہدہ تھا۔ مگر جب مسلمان نبی کریم ﷺ کی قیادت میں خندق کھود کر مدینہ کی حفاظت کر رہے تھے تبھی یہودیوں نے معاہدہ توڑا اور مدینے کی دوسری جانب جہاں مسلمان عورتوں اور بچوں کو رکھا گیا تھا وہاں حملہ کردیا۔ اللہ کے حکم سے یہ حملہ تو ناکام رہا مگر مسلمانوں کو تکلیف پہنچانے کی ان کی پرانی روش کبھی ختم نہیں ہوئی۔

1492ء میں مسلمانوں کا اقتدار اسپین میں ختم ہوگیا۔ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ یہودیوں کو بھی اسپین سے نکال دیا گیا جو کہ ایک بڑی تعداد میں اسپین میں موجود تھے۔ اسپین سے نکالے جانے کے بعد ان کی ایک بڑی تعداد روس اور مشرقی یورپ میں جاکر آباد ہونا سروع ہوگئی۔ اس کے ساتھ ساتھ انگلینڈ، فرانس اور وسطی یورپ سے بھی نکالے جانے والے یہودیوں کا مسکن روس اور پولینڈ بنتا گیا۔ 1881ء میں روس میں یہودیوں کی بڑی تعداد میں نسل کشی شروع ہوگئی اور ان کو روس سے بھی نکالے جانے لگا۔

1516ء سے فلسطین خلافت عثمانیہ کے زیر نگین تھا۔ جب یورپ اور روس سے یہودیوں کو نکالے جانے لگا تو یہ لوگ فلسطین کا رخ کرنے لگے۔ یہ لو گ بڑی بڑی کشتیوں میں ہاتھوں میں مدد کیلئے بڑے بڑے سائن بورڈ لئے فلسطین میں آرہےتھے اور خلافت عثمانیہ اور مقامی مسلمان ان کو انسانی ہمدردی کے تحت فلسطین میں بسنے کی اجازت دے رہے تھے۔ یہودیوں نے اس مہربانی کا صلہ اس طرح دیا کہ امیر یہودی خاندان روتھ شیلڈ کے پیسے سے فلسطین میں بڑی تعداد زمینیں خریدنا شروع کردی۔ 1897ء میں آسٹریا کے ایک یہودی تھیوڈور ہرزل نے یورپ میں صیہونی تحریک کی بنیاد رکھی، اس تحریک کا نعرہ تھا کہ فلسطین میں ایک آزاد یہودی ریاست کا قیام۔

یورپ جو صدیوں سے یہودیوں کی نسل کشی اور قتل عام کرتا رہا تھا۔ اُسی یورپ نے اس تحریک کی حمایت شروع کردی۔ یہودیوں کی اس شازش کے سد باب کیلئے خلافت عثمانیہ نے فلسطین میں یہودیوں کے زمین خریدنے پر پابندی لگا دی۔ 1900ء میں سلطان عبد الحمید دوم نے فلسطینی سرزمین میں یہودیوں کے قیام کو 30 دن تک محدود کر دیااور مزید یورپ سے آنے والے یہودیوں کے فلسطین میں داخل ہونے پر پابندی لگادی۔ 1901ء میں صیہونی تحریک کے سربراہ تھیوڈور ہرزل نے سلطان عبد الحمید دوم سے ملاقات کی اور کہا کہ اگر سلطان فلسطین کا علاقہ یہودیوں دے دیں تو بدلے میں گولڈ اسمتھ اور روتھ شیلڈ جیسے یہودی سرمایہ دار خلافت عثمانیہ کا سارا قرض ادا کردیں گے اور سلطان کیلئے یورپ میں پروپیگنڈا بھی کریں گے۔

خلافت عثمانیہ پر اس وقت آج کے حساب کے مطابق 11 ارب ڈالر کا قرضہ تھا۔ سلطان عبد الحمید دوم نے اس آفر کو سختی سے ٹھکرا دیا اور فلسطین کا ایک انچ بھی بیچنے سے منع کردیا۔ یہودی سلطان عبد الحمید دوم سے مایوس ہوکر نئے موقع کی تلاش میں لگ گئے۔ انہوں نے انگلینڈ سے اپنے تعلقات بڑھانا شروع کردیئے جو خلافت عثمانیہ کا دشمن تھا اور ہر حال میں خلافت عثمانیہ کو ختم کرنا چاہتاتھے۔ یہودیوں نے انگلینڈ کو یقین دلایا کہ اگر انگلینڈ انہیں فلسطین میں ایک یہودی ریاست کے قیام میں مدد کرے تو دینا بھر کے یہودی اس کے وفادار رہیں گے اور اپنے سرمایہ سے انگلینڈ کی مدد بھی کریں گے۔

(جاری ہے)

Check Also

Munhasir Donald Pe Ho Jis Ki Umeed

By Irfan Siddiqui