Tuesday, 05 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Saeed Arshad
  4. Sirf 20 Saal Ke Liye

Sirf 20 Saal Ke Liye

صرف 20 سال کیلئے

جب چین نے 1949ء میں آزادی حاصل کی تب چین کی اقتصادی حالت انتہائی نازک تھی، انڈسٹری برائے نام تھی اور غربت کی شرح انتہائی بلند تھی۔ اِس کے مقابلے میں پاکستان جو 1947ء میں آزاد ہوا تھا، ترقی کی منازل بہت تیزی سے طے کر رہاتھا۔ پاکستان کی ترقی کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ پاکستان نے اپنا پہلا ڈیم "وارسک" 1949ء میں تعمیر کرنا شروع کردیا تھا اور پی آئی اے(PIA)نے 1955ء سے انٹر نیشنل پروزایں شروع کردی تھی۔ چین کے انجینئرز پاکستان میں ٹریننگ کیلئے بھیجے جاتے تھے۔ دنیا پاکستان کو ایشین ٹائیگر مانتی تھی۔ اگر 60ء کی دہائی میں کوئی یہ دعویٰ کرتا کہ چین مستقبل میں پاکستان سے ترقی میں آگےنکل جائے گا تو دنیا اس بات کو کبھی تسلیم نہ کرتی۔

مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم حماقتوں پر حماقتیں کرتے چلے گئے۔ ہم نے جمہوریت کو مضبوط نہیں ہونے دیا اور ملک کو سیاسی عدم استحکام کا شکار کیئے رکھا جس کے نتیجے میں 1971ء میں ملک دولخت ہوگیا اور رہی سہی کسر بھٹو صاحب کی معاشی پالیسیوں اور پرائیویٹ اداروں کو قومی تحویل میں لیے جانے نے پوری کردی۔ ملک میں سرمایہ کاری رُک گئی اور انڈسٹری کا بیڑا غرق ہوگیا۔ جبکہ دوسری طرف چین نے اپنا سارا دھیان اور ساری توجہ ملک کی معاشی ترقی کی طرف مرکوز کیئے رکھی۔

1978ء سے لیکر 2018ء تک کے 40 سال چین کی معاشی ترقی کیلئے بہت اہم سال تھے۔ دنیا آج اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ چین ان 40 سالوں میں ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے امریکہ کے بعد دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت بن چکا ہے اور بہت جلد دنیا کی سُپر پاور بننے کی جانب گامزن ہیں۔ ان 40 سالوں میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئی اور عالمی سیاست اتار چڑھاؤ کا شکار رہی۔ 1979ء میں ایران میں انقلاب آیا، روس افغانستان میں داخل ہوا اور 10 سال تک افغانستان میں جہاد کو لڑا گیا، افغانستان میں روس کوشکست ہوئی اور 15 نئے ممالک وجود میں آگئے۔

2001ء میں نائن الیون ہوا اور امریکہ تقریبا 50 ملکوں سمیت افغانستان پر حملہ آور ہوا اور 20 سال تک افغانستان میں خون کی ہولی کھیلی جاتی رہی مگر ان سب ہنگاموں اور جنگوں کے باوجود چین نے اپنی توجہ صرف اپنی ترقی پر مرکوز کیئے رکھی۔ آپ کو ان سب مذکورہ بالا واقعات میں کہیں چین کا نام تک نہیں ملے گا، چین نے خود کو اپنے ملک تک محدودکئے رکھا اور اپنا فوکس کلیئر رکھا۔ ان 40 سالوں میں چین نے سوئی سے لیکر جہاز تک اور موبائل فونز سے لیکر بحری جہاز تک بنا ڈالے، چین ان 40 سالوں میں دنیا کی فیکٹری بن گیا اور آج دنیا کی معاشی ترقی کو چین کے بغیر تصور کرنا بھی محال ہے۔

شاید یہ بات آپ کیلئے حیران کن ہوگی کہ ان 40 سالوں میں چین نے اپنے ملک میں 88 سے 90 کروڑ لوگوں کو غربت سے نکالا جو کہ جدید دنیا میں ایک ریکارڈ ہے اور 2021ء میں چین دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے سرکاری طور پر اعلان کیا تھا کہ اقوام متحدہ کے مقر کردہ غربت کے پیمانوں کے مطابق اب اُس کے ملک میں کوئی بھی غریب باقی نہیں ہے۔ یہ ہوتی ہے عوام دوست ریاستیں۔

دوسری طرف پاکستان جس کی 50 اور 60 کی دہائی میں ترقی ایک مثال تھی، نے 1978ء سے لیکر 2018ء تک اپنا فوکس اور توجہ ملکی ترقی کی بجائے عالمی طاقتوں کا آلہ کار بننے پر مرکوز کیئے رکھی۔ ہم نے 10 سال تک خود کو امریکہ کا اتحادی بنا کر روس کے خلاف جہاد جاری رکھا، جہادی پاکستان میں تیار ہوتے تھےاور افغانستان جاکر لڑتے تھے۔ اس جہاد کے چکر میں لاکھوں افغانی پاکستان منتقل ہوگئے جنہوں نے بعد میں پاکستان کو ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر تحفے میں دیا اور ملکی معیشت پر اس کا کتنا برا اثر پڑا اِس کا تو کوئی حساب ہی نہیں ہے۔ جس وقت دنیا انڈسٹریل اور ایگریکلچر کو جدید خطوط پر استوار کرنے میں مصروف تھی تب ہم اغیار کی جنگ کو اپنی جنگ سمجھ کر لڑنے میں مصروف تھے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکہ روس کی شکست کے بعد خود سپر پاور کی کرسی پر براجمان ہوگیا اور ہمارے حصے میں سوائے جہادی فیکٹریوں کے کچھ نہیں آیا۔

نائن الیون کے بعد امریکہ کو ایک بار پھر سے ہماری ضرورت پیش آئی اور ہم نے بنا سوچے سمجھے انہی افغانوں کے خلاف امریکہ کی جنگ میں شمولیت اختیار کرلی کہ جن کو ہم نے خود تیار کیا تھا۔ امریکہ خود تو افغانستان سے ہزاروں کلومیٹر دور بیٹھا تھا، اُس کے اپنے ملک میں ایک پتھر تک نہیں گِرا مگر پاکستان میں دہشت گردی کی جو خون ریز لہر اٹھی اس نے پاکستان کا سب کچھ تباہ کرکے رکھ دیا۔ سرمایہ کاری تو بھول ہی جائے جو تھوڑی بہت انڈسٹری باقی بچی تھی انہوں نے بھی اپنا سرمایہ اور انڈسٹری کو بیرون ملک منتقل کرنے میں ہی عافیت سمجھی۔

لاکھوں پاکستانی خود کش حملوں میں بے موت مارے گئے جن کا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کوئی حصہ نہیں تھا۔ بیروزگاری اور غربت آخری حدوں کو چھونے لگی۔ ان سب غلطیوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے آج ہماری حالت یہ ہے کہ ہم پائی پائی کے محتاج ہیں، اگر دوست ممالک ہمارے اکاؤنٹس میں پیسے جمع نہ کروائیں تو ہم دیوالیہ ہوجائےاور اگر آئی ایم ایف ہمیں سود پر ڈالر نہ دیں تو ہم سرکاری ملازمین کو تنخواہ دینے کے قابل بھی نہیں ہیں۔ چاہے ہمیں یہ بات کتنی ہی ناگوار گزرے مگر دنیا اب ہمیں ایک بھکاری کی طرح ہی دیکھتی اور ڈیل کرتی ہے۔

یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ ہم بہت سارا قیمتی وقت ضائع کرچکے ہیں مگر اپنے آپ کو سنبھالنے اور اپنی غلیطوں سے سبق سیکھنے کا تھوڑا سا وقت ابھی بھی ہمارے پاس موجود ہے۔ ہم چین کی طرح 40 نہیں تو کم سے کم 20 سال کیلئے اپنے آپ کو صرف اپنے ملک تک محدود کرلیں۔ ان 20 سالوں کی پلاننگ کیلئے تمام اسٹیک ہولڈر مل کر بیٹھیں اور ایک ہی وقت میں یہ فیصلہ کرلیں کہ اس ملک کو چلانا کیسے ہیں۔ اگر جمہوری طریقے سے چلانا ہے تو کھلے دل سے عوامی فیصلے کو قبول کریں اور جو سیاسی جماعت اکثریت حاصل کرےاُس کو بنا رکاوٹ کے حکومت بنانے دی جائے۔

ایک ہی دفعہ معاشی پالیسیاں مرتب کرلی جائیں اور 20 سال تک ان کو من و عن نافذ کرکے اُن پر عمل کروایا جائے۔ سیاسی استحکام اور ملکی امن پہلی ترجیح ہونی چاہئے۔ ان 20 سالوں میں اپنے اداروں کو ٹھیک کیا جائے، کرپشن پر قابو پانے کیلئے آخری حد تک جایا جائے، سرمایہ داروں کو تحفظ فراہم کیا جائے، پولیس کا نظام بہتر کیا جائے، تعلیمی نظام کو از سر نو مرتب کیا جائے، فرقہ واریت اور لسانی نفرت کا پوری طاقت سے مقابلہ کیا جائے، آئی ٹی سیکٹر کو سہولیات فراہم کی جائے اور آرٹیفیشل ٹیکنالوجی کو سمجھنے کیلئے ادارے قائم کئے جائے۔

اگر ہم ان 20 سالوں میں خود کو تنازعات سے دور رکھیں، عالمی طاقتوں کا آلہ کار بننے سے پرہیز کریں اور صرف اپنے دفاع اور ملکی مفادات کو ترجیح دیتے رہے تو ان 20 سالوں کے بعد ہم اگر ایک عالمی طاقت نا بھی بن سکے تو علاقائی طاقت تو بن ہی جائیں گے۔ اِس کی واضح مثال چین ہمارے سامنے موجود ہیں۔ ایک دفعہ ہم یہ تجربہ بھی کرکے دیکھ لیں ورنہ کھائی میں گرنے کا سفر تو ویسے بھی جاری ہی ہے۔

Check Also

Munhasir Donald Pe Ho Jis Ki Umeed

By Irfan Siddiqui