Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Saeed Arshad
  4. Mariam Astrolabe

Mariam Astrolabe

مریم اسطرلابی

مِلکی وے گلیکسی جس میں ہمارا سولر سسٹم موجود ہے، کے اندر سورج کے جیسے 200 ارب ستارے موجود ہیں اور ان ستاروں کے ساتھ ساتھ سیارے اور چٹانیں بھی موجود ہے۔ یہ چٹانیں بھی سیاروں کے ساتھ ساتھ سورج کے گرد چکر لگاتی ہےاور ان چٹانوں کو (Asteroid) آسٹرائڈ کہا جاتا ہے۔ یہ آسٹرائدز مختلف سائز کے ہوتے ہیں کوئی چھوٹے تو کوئی اپنے حجم میں بڑے سائز کے ہوتے ہیں۔ ان آسٹرائڈ کی ایک بڑی تعداد مارس اور جیوپیٹر کے مدار کے درمیان موجود ہے جنہیں آسٹرائڈ بیلٹ (Asteroid Belt) کہا جاتا ہے۔

اِن آسٹرائڈز کو Study کرنے کیلئے ایک سو سال سے پرانا ادارہ امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا کے شہر سیان ڈیاگو میں قائم ہے جسے پالومر آبزرویٹری (Palomar Observatory) کہا جاتا ہے۔ اس ادارے میں موجود ماہر فلکیات جب کوئی نیا آسٹرائڈ دریافت کرتے ہیں تو اس کا نام پچھلے وقتوں میں گزرے کسی قابل ذکر ادیب، سائنسدان یا ماہر فلکیات کے نام پر رکھ دیتے ہیں تاکہ ا ن کے کاموں کو خراج تحسین پیش کیا جاسکے اور ان کے ناموں کو بھی ہمیشہ یاد رکھا جائے۔

15 ستمبر 1990ء کو ایک امریکی ماہر فلکیات ہنری ہولٹ (Henry Holt)نے ایک آسٹرائڈ دریافت کیا جس کانام ہنری نے دسویں صدی میں گزری ایک مسلمان خاتون مریم الاجلیہ کے نام پر "7060 الاجلیہ" رکھا۔ مریم الاجلیہ کو تاریخ میں مریم اسطرلابی کے نام سے یاد کیا اور لکھا جاتا ہے۔ اُن کی یہ وجہ شہرت اسلئے تھی کیونکہ انہوں نے صدیوں سے چلے آرہے اسطرلاب آلہ کو جدید کیاتھا۔ اسطرلاب نامی آلہ کو سب سے پہلے قدیم یونان میں اپولونیئس (Apollonius) نامی ماہر فلکیات نے 150 سے 220 قبل مسیح کے درمیان ایجاد کیا تھا۔ یہ ایک گول آلہ تھا جس سے سورج کی روشنی کی مدد سے کسی بھی چیز کا طول بلد (Latitude) معلوم کیا جاتا تھا۔

دسویں صدی میں ایک مسلمان خاتون مریم الاجلیہ کے نام سے شام میں پیدا ہوئی۔ مریم کی ابتدائی زندگی کے بارے میں زیادہ معلومات میسر نہیں ہے۔ اُن کے والد کانام کوشیار الاجلیہ تھا اور وہ اسطرلاب بنایا کرتے تھے۔ دسویں صدی آتے آتے مسلمان ساری دنیا میں پھیل چکے تھے اور شام سے لیکر اندلس تک ان کی حکومتیں قائم ہو چکی تھی۔ مسلمان ابتداء سے ہی نماز یں سورج کے اوقات کے مطابق ادا کیا کرتے تھے اور اندلس وغیرہ میں تو کعبہ کی ڈائریکشن معلوم کرنا مشکل کام تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ سمندروں میں سفر کرتے وقت وقت کا حساب اور سفر کی سمت متعین کرنا بہر حال ایک مشکل امرتھا۔

مریم نے اسطرلاب آلے کو نئے سرے سے اور مزید نئے آلات نصب کرکےجدید بنایا۔ جسکی وجہ سے مریم کانام مریم اسطرلابی مشہور ہوگیا۔ اس نئے اسطرلاب کی مدد سے کعبہ کی ڈائریکشن معلوم کرنا، دن کا حساب لگانا کہ دن کتنا لمبا ہوگا اور وقت کا تعین کرنا ممکن ہوسکا۔ اس کے ساتھ ساتھ سورج، چاند، سیاروں اور ستاروں کی سمت کا تعین کرنا، کسی بھی چیز کا طول بلد یا عرض بلدمعلوم کرنا بھی اسی آلے کی وجہ سے ہی ممکن ہوپایا تھا۔ نیویگیشس سسٹم، فلکیاتی مشاہدات، ٹائم کیپنگ اور سمندری جہازوں کیلئے سمت متعین کرنا بھی اسی آلے کی وجہ سے آسان ہو پایا تھا۔ اسی آلے سے مسلمان اپنا قمری کیلنڈر، روزوں کے سحرو افطار اور حج کے اوقات مقرر کیا کرتے تھے۔ اسی اسطرلاب آلے کے ذریعے البیرونی نے زمین کا قطر معلوم کیاتھا۔ یہ آلہ اپنے وقت کا ایک کمپیوٹر تھا۔

اسی جدید اسطرلاب کی وجہ سے مریم کی شہرت دربار تک بھی پہنچ گئی۔ حلب امارات کے بانی اور پہلے امیر سیف الدولہ نے مریم کو اپنے دربار میں ملازمت دی اورمریم کی ایجادات کو سپانسر کیا۔ 944ء سے لیکر 967ء مریم نے اسطرلاب کو مزید بہتر کیا۔ یہی اسطرلاب آلہ بعد میں جدید GPS سسٹم کی بنیاد بنا۔ اگر 1609ء میں گلیلیو نے دور بین ایجاد کرکے زمین کے چاند، زحل، جیوپیٹر کے چاند، سورج کے دھبوں اور ایک سُپر نوا کا مشاہدہ نہ کیا ہوتا تو شاید آج خلا میں انسان کی بنائی ہوئی اب تک کی سب سے بڑی دوربین ہبل بھی دنیا میں موجود نہ ہوتی۔ اسی طرح اگر مریم الاجلیہ نے اپنے وقت کا جدید اسطرلاب نہ ایجاد کرتی تو شاید دنیا میں GPS سسٹم بھی موجود نہ ہوتا۔

UKکی ایک سائنسی اور ثقافتی ورثہ کی تنظیم "1001 Inventions" میں مریم اسطرلابی کا نام "اسلامی سنہرے دور کی غیر معمولی عورت"کے طور پر درج ہیں۔ نائیجیرین امریکی لکھاری نیڈی اوکورافور (Nnedi Okorafor) نے 2015ء میں مریم اسطرلابی پر ایک ایوراڈ وِننگ ناول "بِنتی" (Binti) تحریر کیا تھا۔ نیڈی اوکورافور کو دبئی میں منعقد ہونے والے ایک کتاب میلہ میں مریم کے بارے میں معلوم ہوا تھا۔

کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ہاں کسی کو بھی مریم اسطرلابی کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہے۔ نہ ہمیں ان شخصیات کے بارے میں بتایا جاتا ہے اور نہ ہی پڑھایا جاتا ہے۔ اگر ہنری ہولٹ آسٹرائڈ کا نام مریم کے نام پر نا رکھتا اور اگر برطانوی تنظیم مریم کو اپنی فہرست میں شامل نا کرتی تو شاید ہم مریم اسطرلابی کے بارے میں کبھی جان نہیں پاتے۔ اغیار ہمارے ہیروز کو یاد کرکے انہیں سنہری حرفوں سے یاد کر رہے ہیں اور ہم علم جن کی میراث ہے، سوائے غفلت کی نیند سونے کے کچھ نہیں کر پارہے ہیں۔

Check Also

Time Magazine Aur Ilyas Qadri Sahab

By Muhammad Saeed Arshad