Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Saeed Arshad
  4. Bikini Aur Youtubers

Bikini Aur Youtubers

بِکنی اور یوٹیوبرز

1940ء تک یورپ میں عورتوں کے (Bikini) بِکنی پہننے کا کوئی تصور موجود نہیں تھا۔ جولائی 1946ء میں دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد پہلی مرتبہ ایک ماڈل کو فرانس میں بِکنی پہنا کر عوام کے سامنے پیش کیا گیا تو عوام کا اس پر ردِ عمل بہت شدید تھا، عوام کے ساتھ ساتھ مقامی میڈیا نےبھی اس ڈریس کو مسترد کردیا۔ بات یہاں تک پہنچی کہ چرچ کو بھی اس معاملے میں کودنا پڑا اور پوپ نے بھی اس ڈریس کو بیہودہ اور شرمناک قرار دے دیا۔ مگر بِکنی کو بنانے والے اور اس کو عوام میں مقبول بنانے کیلئے جو قوتیں پیچھے کار فرما تھی وہ باز نہ آئی۔ 1951ء میں پہلی مرتبہ عالمی مقابلہ حسن میں ایک ماڈل نے بِکنی کو زیب تن کیا، لیکن عوامی ردِ عمل کی وجہ سے مقابلہ حسن میں بِکنی پہننے پر پابندی عائد کردی گئی۔

پھر 1953ء میں منعقد ہونے والے کینز فلم فیسٹیول میں ایک اداکارہ نے بِکنی پہن کر Beach پر فوٹو شوٹ کروایا، اس اداکارہ کو میڈیا میں تو خوب پذیرائی مِلی مگر عوام نے پھر بھی اسے مسترد کردیا۔ کچھ عرصہ خاموشی کے بعد مَردوں کیلئے مخصوص میگزینز میں بِکنی پہنے ماڈلز کی تصویریں شائع ہونا شروع ہوگئی اور اس کے بعد 1962ء میں آنے والی جیمز بانڈ کی ایک فلم میں اداکارہ کو بِکنی پہنے سمندر میں سرفنگ (Surfing) کرتا دکھایا گیا، پھر 1966ء میں آنیوالی ایک اور ہالی ووڈ فلم میں بھی ایک اداکارہ کو بِکنی پہنے دکھایا گیا۔

1946ء سے لیکر 1966ء تک 20 سالوں میں عوامی ردِ عمل، چرچ اور پوپ کی مخالفت اور میڈیا کی تنقید کے باوجود بھی بِکنی کو عوام کے سامنے کسی نہ کسی صورت میں پیش کیا جاتا رہا۔ وقت کے ساتھ ساتھ عوامی ردِ عمل کم ہوتا گیا اور عام ذہن نے بھی اس کو آہستہ آہستہ قبول کرنا شروع کردیا۔ آج بِکنی مغربی دنیا کے کلچر کا لازمی حصہ ہے اور عورتوں کے Beaches پر جانے کیلئے تو بِکنی لازم و ملزوم ہیں۔

کوئی بھی انسانی ذہن یا معاشرہ بے حیائی اور جنسی نمائش کو آسانی سے قبول نہیں کرتا، وہ شروع میں اس کی مخالفت کرتے ہیں مگر اگر بے حیائی اور جنسی نمائش متواتر، منظم طریقے سے اور وقفے وقفے سے جاری رہے تو انسان اور معاشرہ اس کو آہستہ آہستہ قبول کرنا شروع کردیتے ہیں۔ یہ ایک ایسا زہر ہے جسے وقفے وقفے سے اور تھوڑا تھوڑا مگر متواتر معاشرے کی رگوں میں انجیکٹ کیا جاتاہے، تاکہ معاشرہ اس کا عادی ہوجائے اور اتنا عادی ہوجائے کہ ایک وقت آنے پر معاشرے کو یہ برائی لگنا ہی بند ہوجائے۔ جو اس زہر کے خلاف بولے اسے دقیانوس، پرانے خیالات اور ترقی مخالف بول کر چپ کروادیا جاتا ہے۔

آج کل یہی زہر پاکستانی معاشرے کی رگوں میں بھی انجیکٹ کیا جارہا ہے۔ پرائیویٹ ٹی وی چینلز کی بہتات نے یہاں پہلے ہی TRP کے چکر میں پاکستانی معاشرے کی جڑیں کھوکھلی کر رکھی ہے۔ Content کے نام پر سالی اور بہنوئی کے درمیان تعلقات، بھابھی اور دیور کے درمیان تعلقات جیسے غلیظ موضوعات پر ڈرامے بنائے جارہے ہیں۔ شادی شدہ مرد اور عورتوں کے نامحرم مردوں اور عورتوں کے ساتھ تعلقات دکھائے جارہے ہیں اور طلاقوں کو Glorify کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں طلاقوں کی شرح بڑھ رہی ہے۔ باقی رہی سہی کسر ہمارے یوٹیوبر پوری کر رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں اچھے یوٹیوبرز بھی موجود ہے جو انفارمیٹو اور حالات حاضرہ پر اچھا Content بنا رہے ہیں۔ مگر ہم بات اُن یوٹیوبرز کی کر رہے ہیں کہ جو وی لاگ بنا رہے ہیں اور وی لاگ کے نام پر جو content بنایا جارہا ہے وہ معاشرے کیلئے زہر قاتل ہے۔

صبح سو کر اٹھنے سے لیکر رات کو سونے تک اپنی روزمرہ کی زندگی کو کیمرے کی آنکھ میں قید کرکے، یوٹیوب پر اپلوڈ کرکے یہ کس قسم کا Content ہے جو بنا یا جا رہا ہے۔ ایک وی لاگر اپنی بیوی کے کپڑوں اور میک اپ پر لوگوں کی رائے مانگ رہا ہے۔ دوسرا اپنی بیوی کے ساتھ وی لاگ میں بیوی کی پریگننسی کا اعلان کر رہا ہے اور بیوی کے بیٹھنے اور کپڑوں کے پہننے کے سٹائل بھی انتہائی قابل اعتراض ہے جسے کسی بھی طرح Justify نہیں کیا جاسکتا، الٹرا ساؤنڈ کی تصویریں اپلوڈ کی جارہی ہے، پریگننسی کِٹ کیسے کام کرتی ہے یہ لوگوں کو بتایا جارہا ہے۔

اگر یہ سب ان کے گھر تک محدود ہوتا تو ہم کبھی بھی اس کو ڈسکس نہیں کرتے مگر وہ لوگ یہ سب ساری دنیا کو دکھا رہے ہیں اور معاشرے پر اسکے کیا اثرات مرتب ہونگے اس پر بات کرنے کیلئے ہم ان کو ڈسکس کر رہے ہیں کیونکہ ان کی ویڈیوز پر ویوز لاکھوں میں آتے ہیں۔ ویوز اور پھر ویوز سے ملنے والے ڈالرز کی وجہ سے یہ لوگ کچھ بھی کر گزرنے اور کچھ بھی دکھانے پرآمادہ ہے۔ ایک فی میل یو ٹیوبر نکاح سے پہلے ہی اپنے منگیتر کے ساتھ دبئی کی سیر کر رہی ہے اور وہ دونوں ایک ہی ہوٹل میں رہ رہے ہیں۔ ان کی ویڈیوز کو دیکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد نوجوانوں اور بالخصوص لڑکیوں کی ہے۔ ان پر اس کے کیا اثرات ہوسکتے ہیں اس پر کوئی بات کرنے کو تیار نہیں۔

نکاح کے بغیر ایک لڑکے اور لڑکی کے ایک ساتھ سفر کرنے اور ایک ہی ہوٹل میں رہنے کو نارملائز کیا جارہا ہے۔ پھر یہی یو ٹیوبر اپنی پوری شادی کو ریکارڈ کرکے اپلوڈ کررہی ہے، نکاح اور رخصتی کے ساتھ ساتھ اپنے شوہر کے ساتھ شادی کی پہلی رات کو بیڈروم میں داخل ہونے تک سب کچھ دکھایا جارہا ہے۔ بیڈ روم کی باتیں سر عام عوام کے ساتھ شیئرکی جارہی ہیں۔ بے حیائی کا زہر ہے جو انجیکٹ کیا جارہا ہے اور ستم ظریفی تو یہ ہے کہ مین سٹریم میڈیا ان یوٹیوبرز کو نوجوانوں کے آئیڈیل کے طور پر اپنے پراگرامز میں مدعو کر تا ہے اور نوجوانوں کو بھی ان کے نقش قدموں پر چلنی کی ترغیب دی جاتی ہے۔

عوام بھی اب ان چیزوں کو آہستہ آہستہ قبول کر رہی ہے۔ TV پر تو ایسے Content کی روک تھام کیلئے پیمرا موجود ہے مگر سوشل ویب سائٹس پر ایسے Content کی روک تھام کیلئے کوئی ادارہ سِرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ بے حیائی کا دروازہ اگر ایک بار کھل جائے تو اس میں سے سوائے تباہی کے اور کچھ نہیں نکلتا اور بعد میں اس دروازے کو بند کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔

مغرب نے بے حیائی اور جنسی نمائش کی روک تھام کیلئے کچھ نہیں کیا تو اس کے نتائج آج وہ بھگت رہےہیں۔ خاندانی نظام تباہ ہو کر رہ گیا، لاتعداد ایسے بچے ہیں جن کے باپوں کے نام کسی کو پتا نہیں اور جگہ جگہ اولڈ ہومز کھل چکے ہیں۔ کوئی بھی نہیں چاہے گا کہ ایسا حال ہمارے معاشرے میں بھی ہو۔ خدارا عوام کو چاہئے کہ ایسے یوٹیوبرز کا بائیکاٹ کریں، ان کو ویوز نا دیں جس کی بنیاد پر یہ لوگ پیسہ کماتے ہیں اور والدیں کو بھی چاہئے کہ اپنے بچوں پر نظر رکھیں کہ کے وہ انٹرنیٹ پر کیا دیکھ رہے ہیں۔

Check Also

Technology Bhagwan Hai Sahib

By Mubashir Ali Zaidi