Marathon Tarweej Mein Aamir Shahzad Advocate Ka Kirdar
میرا تھن ترویج میں عامر شہزاد ایڈووکیٹ کا کردار
کھیل کی دنیا میں پاکستانیوں نے ہمیشہ وطن عزیز کا نام سربلند کیا ہے۔ 90 کی دہائی میں پاکستان دنیا کا واحد ملک تھا جسکے پاس بیک وقت کرکٹ، ہاکی، اسکوائش اور سنوکر کی عالمی چیمپئن شپ موجود تھی۔ پاکستان کا قومی کھیل ہاکی ہے مگر کرکٹ سب سے محبوب و پسندیدہ کھیل بن چکا ہے اور اکثریت کرکٹ کے سحر میں مبتلا ہے۔
ہم کرکٹ کیساتھ والہانہ محبت اور لگاؤ کا اظہار کرتے ہیں مگر دیگر کھیلوں کو یکسر نظرانداز بھی کرچکے ہیں، جسکی بڑی وجوہات میں حکومت، کارپوریٹ سیکٹر اور میڈیا کی جانب سے دیگر کھیلوں کی پشت پناہی اور پذیرائی کی بجائے صرف اور صرف کرکٹ کو گلیمرائز کرنا اور دیگر کھیلوں کیساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کرنا ہے۔ صرف اسی بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ قومی چینل پی ٹی وی پر پانچ روزہ کرکٹ ٹیسٹ میچ کی براہ راست نشریات کا بندوبست کیا جاتا ہے مگر قومی کھیل ہاکی کے بین الاقوامی میچوں کو دیکھانے کے لئے پی ٹی وی ہچکچاہٹ کا اظہار کرتا دیکھائی دیتا ہے۔
کارپوریٹ سیکٹر بھی صرف کرکڑز کی سپانسرشپ میں آگے آگے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سوائے کرکٹ دیگر کھیلوں سے کھلاڑی سامنے نہیں آرہے۔ ارشد ندیم جنہوں نے پیرس اولمپک میں جیولین تھرو میں وطن عزیز کے سبز ہلالی پرچم کو پوری دنیا میں سربلند کیا، انہوں نے پاکستانی شہریوں سمیت حکومت، کارپوریٹ سیکٹر اور میڈیا کو یہ بات سمجھانے پر مجبور کردیا کہ کرکٹ کے علاوہ بھی کھیل ہیں جنکی طرف توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔
پاکستان میں کئی ہیرے پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے وطن عزیز کا نام روشن کیا مگر افسوس حکومت، کارپوریٹ سیکٹر اور میڈیا کی عدم دلچسپی کے باعث پاکستانی کھیل کے میدان میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ یاد رہے ایک وقت تھا جب عبدالخالق اتھلیٹ نے پوری دنیا میں وطن عزیز کا نام روشن کروایا تھا۔ سابق صدر ایوب خان نے عبدالخالق کو صدارتی پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ دیا جو سپورٹس کے شعبے میں کسی بھی پاکستانی کیلئے پہلا اعزاز تھا۔
پاکستان کی تاریخ ایسے عظیم کرداروں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے اپنے کارہائے نمایاں کی بدولت دنیا بھر میں سبز ہلالی پرچم سربلند کیا لیکن بدقسمتی سے ہم نے ان کی صحیح قدر نہ کی اور انہیں وہ مقام و مرتبہ نہ دیا جس کے وہ لائق تھے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم نے اپنے کئی نامور ہیروز کو بھلا ہی دیا۔ عبدالخالق ایک ایسا ہیرو جسے انڈیا کے سابق وزیراعظم جواہر لال نہرو نے "فلائنگ برڈ آف ایشیا" کاخطاب دیا۔ عبدالخالق نے جہاں ایشیا میں 100 اور 200 میٹر تیز دوڑ کے کئی ریکارڈز اپنے نام کئے تو وہیں 36 انٹرنیشنل اور 70 نیشنل طلائی تمغے جیت کر گولڈ میڈلز کی سنچری بنا کر ایک ایسا ریکارڈ بھی قائم کیا جو شاید اگلے سو برس تک بھی نہ ٹوٹ سکے۔
آئیے آج ہم آپکو پاکستان کے ایسے گمنام ہیرے سے متعارف کرواتے ہیں جو پاکستان میں میراتھن دوڑ کی ترویج کے لئے اپنی مدد آپ کے تحت سرتوڑ کوششوں میں مصروف عمل ہیں۔ عامر شہزاد اعوان ایڈووکیٹ جن کا تعلق لہندے پنجاب کے ضلع شیخوپورہ سے ہے۔ یاد رہے شیخوپورہ کرکٹر عاقب جاوید، رانا نوید الحسن، محمد آصف، عمران نذیر، ہاکی کے نامور اولمپئین اسد ملک، سعید انور، انجم سعید، نعیم امجد، اشتیاق احمد، نوید عالم جیسے کئی نامور سپوتوں کی جنم بھومی ہے۔
شیخوپورہ کے سپوت عامر شہزاد اعوان نے اپنی مدد آپ کے تحت دہائیوں سے معدوم کھیل یعنی دوڑ کو بحال اور پروان چڑھانے کا بیڑھا اُٹھایا ہے پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں۔ شیخوپورہ کے نواحی علاقہ کالوکے سے تعلق رکھنے والے عامر شہزاد کئی ممالک میں سبز ہلالی پرچم کی نمائندگی کرتے ہوئے میراتھن ریس میں حصہ لے چکے ہیں۔ بغیر حکومتی امداد انہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت سال 2016 اور 2017 جنوبی کوریا میں متعدد مرتبہ دس کلومیٹر، اکیس کلومیٹر اور بیالیس کلومیٹر میراتھن مقابلوں میں حصہ لیا۔
سال 2020پنجاب سپورٹس بورڈ کی وساطت سے دبئی میراتھن میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ رواں برس اپریل میں پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن نے عامر شہزاد کی صلاحیتوں کی بدولت نیپال میں منعقدہ انٹرنیشل میراتھن ریس میں حصہ لینے کے لئے پاکستان کی نمائندگی کا موقع فراہم کیا۔ اس ریس میں 57 اتھلیٹس نے حصہ لیا اور عامر شہزاد نے 12 ویں پوزیشن حاصل کی۔ عامر شہزاد واحد پاکستانی اتھلیٹ ہیں جنہوں نے بین الاقوامی مقابلوں میں دس میڈل حاصل کئے ہیں۔ عامر شہزاد پاکستان کے واحد ایسے کھلاڑی ہونگے جو بیک وقت ایم بی اے ایم فل اور قانون کی ڈگری کے حامل ہیں۔
عامر شہزاد ایڈووکیٹ فلائنگ برڈ آف ایشیا، اولمپین عبدالخالق کو اپنا آئیڈیل مانتے ہیں یہی وجہ ہے کہ میراتھن دوڑ کو پروان چڑھانے کے لئے انہوں نے 2017 میں عبدالخالق اتھلیٹکس کے نام سے اکیڈمی بنائی۔ انکی اکیڈمی میں بغیر کسی فیس لاتعداد بچے مستقبل کے اتھلیٹ بن رہے ہیں۔ انکا عزم ہے کہ اتھلیٹکس خصوصا میراتھن دوڑ میں پاکستانی سبز ہلالی پرچم دنیا کے ہر میدان میں سربلند ہو اور خصوصا سال 2028 اور 2032کی اولمپکس گیمز میں پاکستانی کھلاڑی میراتھن دوڑ میں حصہ لیں۔
عامر شہزاد کی زیر نگرانی شیخوپورہ کے بچے بچیاں اس صحت مند سرگرمی میں بھرپور حصہ لے رہے ہیں۔ رواں ماہ کے آخیر میں عبدالخالق ہاف میراتھن دوڑ کا انعقاد کیا جارہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پنجاب اور حکومت پاکستان کرکٹ کیساتھ ساتھ دیگر کھیلوں کی سرپرستی کے لئے آگے بڑھیں اور عامر شہزاد جیسے گمنام ہیروز کا ہاتھ پکڑیں تاکہ ارشد ندیم جیسے پاکستانی نوجوان سبز ہلالی پرچم کو سربلند کرسکیں۔
کرکٹ کے علاوہ دیگر کھیلوں میں دلچسپی لینے والے نوجوانوں کو معاشی فکروں سے آزاد کیا جائے انکو ماضی کی طرز پر حکومتی اداروں میں نوکریاں دی جائیں اور کارپوریٹ سیکٹر کو دیگر کھیلوں کے کھلاڑیوں کے لئے اسپانسر پروگرامز جاری کرنے چاہیے۔ اسی طرح میڈیا کو کرکٹ کی جان چھوڑ کر دیگر کھیلوں کی پروموشن و ترویج میں باقاعدہ حصہ ڈالنا چاہیے۔ یاد رہے کھیل نوجوانوں کو بے راہ روی اور منشیات جیسی لعنت سے دُور کرتے ہیں۔ پاکستان زندہ باد اور پاکستانی کھلاڑی پائندہ باد۔