Tuesday, 07 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Muhammad Mohsin Bandesha/
  4. Talaba Union

Talaba Union

طلباء یونین

ہمارے ہاں جو طلباء سیاسی شعور رکھتے ہیں۔ ان کے ہاں ایک مطالبہ بڑا زور شور سے پایا جاتا ہے کہ طلبا یونین کو بحال کیا جاۓ۔ لیکن اس بات پہ کبھی کوئی بحث نہیں ہوتی کہ طلباء یونین کو بین کیوں کیا گیا؟ اور دوسرا یہ کہ طلباء یو نین کا بنیادی مقصد کیا ہونا چاہئے۔ اگر طلباء یونین کے نام پر قوم پرستی کے نام پر تنظیمیں بنانا ہے جیسے کہ ہمارے ملک کی بڑی جامعات میں قوم پرست طلباء تنظیمیں آج بھی موجود ہیں۔ اور پھر اس کے نام پر دنگا فساد کرنا ہے تو ان کی اجازت ہر گز نہیں ہونی چاہیے۔ کبھی آپ نے سنا برطانیہ کی لیبر پارٹی کا یا امریکہ کی ڈیموکریٹ پارٹی کا کوئی سٹوڈنٹ ونگ ہو۔ تنظیموں کے درمیان جو دنگافساد ہوتا تھا وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔

طلباء تنظیموں کا تعلق ہر گز کسی سیاسی جماعت سے نہیں ہونی چاہیے۔ نہیں تو وہ معصوم اور میرے جیسے جذباتی نوجوانوں اور طلباء کو کھوکلے نعروں کا پیچھے لگا کہ ان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو سلب کر لیں گے۔

طلباء یونین کا ہر گز کسی سیاسی جماعت سے نہیں ہونا چاہیے۔ اگر ہے بھی تو جامعات کے اندر اس کی ہر گز اجازت نہیں ہونی چاہیے۔طلباء یونین کا بنیادی مقصد قومی ہم آہنگی، قومی بھائی چارہ، آپس میں ایک دوسرے کو سننے سمجھنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہونا چاہیے۔

یونیورسٹی کے اندر، انتظامی سطح پر مختلف سوسائٹیز کا اجرا ہونا چاہیے۔ جس کے باقاعدہ الیکشنز بھی ہو لیکن یہ ایک ماحول میں ہونا بہت ضروری ہے نہیں تو ہمیں اپنی جامعات کے حالات اور ہمیں اپنے قومی شعور کا بڑا بخوبی اندازہ ہے۔

ہمارے ہاں بیرونی نظریات کی یلغار زیادہ تر ان معصوم بھولے بھالے، اور جذباتی طلباء ہی ہوتے ہیں۔ بظاہر تو یہ طلباء تنظیمیں بڑے پر شگاف نعرے لگاتے ہیں پر ان کے عزائم بچھو کے زہر سے بھی زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ اس کی دیکھ بھال ریاست کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔

سیاسی، معاشی نظریات پہ مباحث ہونے چاہیے پر اس کا مقصد اچھے نتائج برآمد کرنا ہوں۔

بہت سی تجاویز اور بھی دی جا سکتی ہیں۔ پر اسی پہ ختم کرتا ہو جو کہ ہمارے قائد محمد علی جناح نے طلباء کو نصیحت کی تھی آپ کا ایک ہی مقصد ہونا چاہیے وہ ہے تعلیم۔ میں بھی یہی کہتا ہوں کہ طلباء یونین کا مقصد سیاسی شعور دینا اور معاشرے کا ایک کارآمد شہری بنانا ہوں نہ کہ باغی۔

Check Also

Angrezi Kese Seekhen?

By Mubashir Ali Zaidi