Sinf e Aahan Aur Mard e Aahan
صنف آہن اور مرد آہن
ٹوئٹر مزے کی چیز ہے پرانی کہانیاں یاد کرا دیتا ہے۔ آج اعجاز الحق پسر مرد مومن مرد حق ضیاءالحق کا ٹویٹ دیکھا کہ ڈرامہ "صنف آہن" کی آخری قسط دیکھ کے ساری فیملی کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ ان کو فوج سے محبت ہی اتنی ہے۔ ان کو کیا ہمیں بھی بہت محبت ہے ہماری سرحدوں کے محافط ہیں۔۔
لیکن اعجاز الحق کو ہماری نسبت ذرا زیادہ ہوگی۔ کیونکہ ان کے والد محترم آئین پاکستان کے تحت آرمی چیف بنے اور اس ملک کی سرحدوں کی نگہبانی کرتے رہے۔ پھر اسی آئین کے اوپر بیٹھ کےاگلے دس سال اس کا انجن کھول کے دوبارہ فٹ کرتے رہے۔ آخر کار اوپر والے کو ان کی یاد آئی تو تیس اور کو لے کے بارگاہ الہی میں حاضر ہوگئے۔ ہم نے فرط جذبات میں اتنا بڑا جنازہ کیا کہ چشم فلک اور اظہر لودھی دھاڑ دھار کے روئے جیسے اعجاز الحق صاحب صنف آہن دیکھ کے روئے۔
کہانی یہاں ختم نہیں ہوئی، ضیئاالحق فاتح افغانستان و ذوالفقار علی بھٹو کے احسانوں کا بدلہ اس قوم نے یوں دیا کہ ان کے روحانی بیٹے نواز شریف کو ووٹوں کی جھولیاں بھر بھر کے دیں۔ اور نواز شریف نے روایتی رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے مرشد کے غیر سیاسی اور غیر عوامی بیٹے کو سینے سے ایسے لگا کے رکھا جس کی مثال تازہ ہسٹری میں منصور اختر اور عثمان بزدار کے علاوہ اور کوئی نہیں۔۔ ان تینوں میں سے عثمان بزدار بہتر ثابت ہوا کہ اپنے ساتھ سینہ بھی لے گیا ایسا کہ سینا مشکل ہو رہا ہے۔
ایسا نہیں کہ اس غیر سیاسی بیٹے نے سیاسی بننے کی کوشش نہیں کی۔ بینظیر بھٹو کے دوسرے دور میں شیخ رشید جو ماشااللہ اس وقت بھی اتنے ہی بدتمیز تھے جتنے اب ہیں، کو سزا دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ پولیس نے چھاپہ مارا اور لال حویلی کے صوفوں کے نیچے سے کلاشنکوف برآمد کر لی۔ یہ پولیس کی مہربانی تھی کہ اتنا تردد کیا ورنہ اس زمانے میں یہ کسی ٹھیلے والے سے بھی برآمد کی جاسکتی تھی۔
خیر شیخ رشید گرفتار ہو گئے۔ مسلم لیگ نے شدید احتجاج کیا۔ اس موقعے پہ فوجی بیرکوں کے آس پاس فوجی کالونیوں میں پلنے والے ایک فوجی کے بیٹے کو ایویں ہی پتہ نہیں کہاں سے خیال آیا کہ ایم این اے ہونا کافی نہیں "سیاسی" لیڈر بننا چاہیئے۔ موصوف نے بھرے جلسے میں تقریر کرتے کلاشنکوف لہراتے ہوئے کہا "حوصلہ ہے تو مجھے گرفتار کرو"، اگلوں نے واقعی گرفتار کر لیا۔
اب یہ بات تو زہن میں نہیں تھی کہ گرفتاری بھی ہوسکتی ہے۔ ساری لیڈری رستے بدل بدل کے نکل گئی۔ شام تک بس ہوگئی۔ لیکن کہانی یہاں ختم نہیں ہوئی۔ موصوف کے جرنیل سسر ایکشن میں آئے اور اپنے داماد کو وزیراعظم سے شخصی ضمانت پہ کہتے چھٹکارا دلایا کہ وہ اصلی کلاشنکوف نہیں "کھلونا" کلاشنکوف تھی۔ یوں اصلی مجاہد کے بیٹے کو نقلی کلاشنکوف کی وجہ سے چھوڑا گیا۔
تاریخ گواہ ہے کہ موصوف نے اس دن کے بعد سے کبھی لیڈر تو کیا سیاسی بننے کی بھی کوشش نہیں کی۔ نہ کبھی تتی جگہ پیر رکھا۔ ہمیشہ محفوظ یا ڈکٹیٹر کی سائیڈ پہ کھیلتے رہے۔
لازمی بات ہے صنف آہن کو دیکھ کے حب الوطنی اور تشکر کے آنسو ان کے نہیں تو اور کیا ہمارے نکلنے ہیں۔