Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Ishtiaq
  4. Meri Beti Mera Fakhar

Meri Beti Mera Fakhar

میری بیٹی میرا فخر

بیٹیوں کو اہمیت لوگوں نے پچھلی چند دہائیوں سے دینا شروع کی ہوئی ہے۔ میرے ابا جی نے اسی کی دہائی میں اپنی بیٹی کو خوشاب شہر کے ہوسٹل میں پڑھنے کے لیے بھیجا تھا۔ وہ میرے خاندان کی پہلی اور گاوں کی دوسری لڑکی تھی۔ اور اس وقت یہ ایک مشکل فیصلہ تھا جس کی مخالفت بھی کی گئی۔ لیکن پھر سارے مخالفین نے بھی اپنی بیٹیوں کو تعلیم دلائی۔ اس اہمیت دینے کا نتیجہ یہ ہے کہ آج میرے لیے یہ فیصلہ کرنا کہ میں بیٹی سے زیادہ پیار کرتا ہوں یا بیٹے سے، بہت مشکل ہے لیکن یہ طے ہے کہ گرنے کی آواز پہ میں صرف بیٹی کے لیے بھاگتا تھا۔

اپنی بیٹی اور دوسروں کی بیٹی کو عزت دینا، اہمیت دینا ہی عورت مارچ ہے۔ ان کو حقوق دینا، ان کے فرائض پورے کرنا عورت مارچ ہے۔ لیکن اس کے باوجود میں "عورت مارچ" کے ٹھیکیداروں کے ساتھ اتفاق نہیں کر پاتا۔ وہ حقوق کی بات کریں، ظلم کی چکی میں پسنے والی عورتوں کو انصاف دینے کی بات کریں۔ تو اکثریت ان کا ساتھ دے گی۔ لیکن انہوں نے مقابلے کی فضا بنائی ہے، بے راہ روی اور بے حیائی کے پلے کارڈ لگا کے اس اسی فیصد آبادی کے جذبات کو چٹکی کاٹی ہے۔

جو کام پیار محبت سے کرنے والا تھا اس کام میں مینگنیاں ڈال کے اس کو مکروہ کیا ہے۔ ان کی نیت پہ شک ہے کہ وہ عورت کے حقوق اور اہمیت کی نہیں، معاشرے میں ایک اور تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جس اصول پہ کسی کو اختلاف نہیں صرف لوگوں کو احساس دلانا ہے اور عمل کروانا ہے اس پہ جنگ کا آغاز کیوں کیا جا رہا ہے۔ اس لیے میں اپنی بیٹی کے اور دوسروں کی بیٹیوں کے حقوق کا ساتھ دینے کو تو تیار ہوں لیکن جس طریقے سے وہ مطالبہ کر رہے ہیں وہ صرف اور صرف کسی کے ایجنڈے کا حصہ ہو سکتا ہے۔

کل ایک صاحب لگے تھے کہ پہناوا میری بیٹی کا اپنی مرضی کا ہو گا۔ اب اس بات سے کسی کو اختلاف نہیں کہ ہر انسان کا پہناوا اس کی مرضی کا ہونا چاہیے۔ اپنی بیٹی کی بجائے میں اپنی بات کر لیتا ہوں کہ میں کتنا آزاد ہوں اس معاملے میں۔ میں شلوار قمیض پہنوں یا پینٹ کوٹ میری مرضی۔ لیکن میں انڈر وئیر پہن کے بینک نہیں جا سکتا۔ یا بغیر کچھ پہنے نہیں جا سکتا۔ میری چوائیس میرے خاندان کے اپروول کی محتاج ہے۔ ہمیں بہت سی چیزوں سے ابا جی نے روکا۔

آج لگتا ہے کہ وہ ٹھیک تھے۔ اگر اس تربیت کو سائیڈ پہ بھی کیا جائے تو بھی میں کسی نہ کسی ضابطے کا پابند ہوں۔ ان میں سے دو اہم۔۔ ملکی قانون اور مذہبی قانون۔ ہمیں ان کو فالو کرنا پڑتا ہے۔ خاص طور پہ ملکی قانون کہ مذہب کے نام پہ ہی وہ بدک جاتے ہیں۔ ان کو لگتا ہے مذہب کا نام لے کے ان کو کسی نے گالی دے دی ورنہ عورتوں کے حقوق پہ آگاہی قرآن کی آیتوں سے زیادہ اچھی طرح ممکن تھی بجائے "میرا جسم میری مرضی" کے غلط تشریح شدہ نعرے سے۔

انسانی نفسیات کے برعکس ان صاحب کا مطالبہ یہ بھی تھا کہ کوئی بے لباسوں کو گھورے بھی نہ۔ گھورنے کا تعلق غیر روائتی سے جڑا ہے۔ آپ کسی کم لباس ملک میں لمبا چوغہ پہن کے گھومیں گے تو لوگ گھوریں گے۔ آپ ہمارے ملک میں کم لباس پہنیں گے تو لوگ گھوریں گے۔ جہاں لوگ کم لباس پہنتے ہیں وہاں گھورنے پہ کوئی اعتراض بھی نہیں کرتا۔ ان کی کم لباسی اور فگر کی تعریف کرنے پہ مائنڈ بھی نہیں کرتے۔

اگر آپ مائنڈ کرتے ہیں یا کرتی ہیں تو سمجھیے کہ آپ بھی کم لباسی کو صحیح نہیں سمجھ رہے ورنہ اس کو دیکھنے والے پہ گھورنے کا الزام لگا کے غصہ کاہے کا؟ آپ جب بن سنور کے نکلتے ہیں اور لوگ آپ کے لباس کی تعریف کرتے ہیں تو کیا غصہ آتا ہے؟ آپ کم لباس میں نکلے تو لوگ آپ کے جسم کی تعریف کریں تو غصہ کیوں ؟ جتنی آزادی آپ ڈیمانڈ کر رہے ہیں اتنی دوسروں کو بھی دیں۔

لیکن اگر آپ کو غصہ آرہا ہے تو میں اور آپ ایک ہی طرح سوچ رہے ہیں۔ ہم دونوں اس کم لباسی کو غلط سمجھ رہے ہیں۔ آپ احتجاجا یا کسی سے متاثر ہو کے پہن رہے ہیں۔ اور نہیں چاہتے کہ اس کا ذکر کر کے، گھور کے کوئی آپ کو احساس دلائے کہ آپ نے چھوٹے کپڑے پہنے ہیں۔ لیکن اگر آپ بکنی یا شارٹس میں ہیں اور کوئی آپ کی ٹانگوں، رانوں کو بڑے غور سے دیکھ کے آپ کو روک کے ہنس کے کہتا ہے " تمہاری رانیں بہت ہیجان خیز ہیں جو میرے جذبات کا برانگیختہ کر رہے ہیں "۔ اور آپ اس پہ خوش ہیں اور تھینکس بولتے یا بولتی ہیں تو پھر آپ واقعی اس کو صحیح سمجھ رہے ہیں اب آپ کو صرف ملکی قانون سے نمٹنا ہے۔

سوری بات لمبی ہو گئی عورت مارچ کی وجہ سے۔۔ لیکن میری بیٹی کو آزادی ہے اتنی ہی جتنی میرے بیٹے کو۔ لیکن دونوں کی حدود میں مقرر کرتا ہوں کہ اتنی آزادی دوں جتنی جتنی میں ان کے لیے محفوظ سمجھتا ہوں۔ دوسروں کی بیٹیوں کو اتنی آزادی دینے کی جدوجہد زیادہ کر رہا ہوں۔ کہ ہم دوسروں کی بیٹیوں کی آزادی کو احترام دینے پہ زیادہ توجہ نہیں دیتے۔ اس کے لیے زیادہ کوشش کرنی چاہیے۔

About Muhammad Ishtiaq

Muhammad Ishtiaq is a passionate writer who has been associated with literature for many years. He writes for Sukhan Kada and many other blogs and websites. He is a cricket addict and runs his own platform Club Info (www.clubinfo.pk) where he writes about cricket news and updates, his website has the biggest database of Domestic Clubs, teams and players in Pakistan. His association with cricket is remarkable. By profession, he is a Software Engineer and has been working as Data Base Architect in a Private It company.

Check Also

Salman Ahmed Ka Junoon Bhi Utaar Diya

By Syed Mehdi Bukhari