Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Ishtiaq
  4. Khair Main Bukhal

Khair Main Bukhal

خیر میں بخل

نہ میں مومن وچ مسیت آں

نہ میں وچ کفر دی ریت آں

نہ میں پاکاں وچ پلیت آں

جب سے شعور نے آنکھ کھولی اپنے ارد گرد انتہا پسندی دیکھی ہے، عدم برداشت، نفرت، اور ڈپریشن کا چین ری ایکشن (chain reaction)۔ دل و دماغ تلاش میں ہے کہ کہیں سے کوئی مثبت روئیے نظر آئیں۔ زندگی کے ہر شعبے میں ہم نے انتہا پسندی کو اپناشعار بنا لیا ہے۔ ہمارا ہر فقرہ "ناں" سے شروع ہوتا ہے اور ہم "رد" کے لئے بات سن رہے ہوتے ہیں۔ ہم دوسروں سے لامحدود اطاعت چاہتے ہیں۔ ہم دوسروں کو اختلافی رائے رکھنے کی اجازت دینے کو تیار نہیں۔ ہم کسی کی بات پہ غور کرنے کو تیارنہیں اور اپنی بات ہر ایک سے منوانا چاہتے ہیں۔ ہم شخصیت پرستی کے ایک اونچے مینار پہ بیٹھے ہیں جہاں سے باقی ہمیں حقیر لگرہے ہیں۔ ہم اختلاف پہ جان لینے کو تیار ہیں۔

آج انڈیا کے مشہور اداکار، فن اداکاری میں الگ اسلوب رکھنے والے عرفان خان کی وفات ہو گئی۔ میرا پسندیدہ ایکٹر تھا۔"گھات" کے دنوں سے۔ جب منوج باجپائی کے لئے دیکھی جانے والی فلم میں سے ایک اور لیجنڈ ملا۔ وہ مسلسل میری اس لسٹ میں رہا جن کا نام فلم کی کاسٹ میں شامل ہو تو وہ قابل دید ہوتی ہے۔ اس کی ناگہانی موت کا سن کے ایک فنکار کھونے کا دکھ ہوا کہ اب اس فنکار کو دوبارہ نہیں دیکھ سکیں گے۔ اس کی تعزیت، ایصال ثواب، اپنی پسندیدگی کا اظہار، اس کے فن کی تصدیق کے لئے دوسطری پوسٹ لگا دی۔ کوئی غیر مسلم ہوتا تو (RIP) لکھ دیتا، مسلمان تھا تو بخشش کی دعا کردی۔ یہ کوئی ایسی حرکت نہیں تھی جس پہ اعتراض کیا جاتا۔ لیکن ایک دفعہ پھر وہی تجربہ ہوا جو بہت عرصے سے ہوتا آرہا تھا کہ ہم ہر چیز کو زندگی موت کا مسئلہ بنا لیتے ہیں، ہم کسی کو گنجائش دینے کو تیار نہٰیں ہوتے۔ ایک مسلمان کے لئے بخشش کی دعا کرنا جرم کب سے ہو گیا۔

اعتراضات سنئیے اور سر دھنیے۔

وہ شرابی تھا

خدا کے وجود کو نہیں مانتا

اس نے ہندو عورت سے شادی کی تھی

ہمارے ملک کے خلاف بننے والی فلموں میں کام کرتا تھا

وہ ایک انڈین تھا

اس کے لئے دعا کی امان اللہ کے لئے کیوں نہیں کی

ہمیں اس کے ایمان کا کیا پتہ

ان سب اعتراضات کو کشید کر کے نتیجہ یہ نکلا کہ ہم اس کے لئے بخشش کے لئے دعا نہیں کر سکتے۔ خیر کی دعا بھی پانی کی بوندہوگئی، اس کربلا میں شمر کی طرح روک کے ان کو پیاسا مار دینا چاہتے ہیں۔ ہم وہ فرعون ہیں جو اپنے اختیار کو استعمال کرنا چاہتےہیں بھلائی کے لئے نہیں، کسی کو جہنم میں پہنچانے کے لئے۔ ہم اس کی امت ہیں جو پتھر کھا کے بھی ہدایت اور بخشش کے لئےدعا مانگتا تھا۔ جو عین حالت جنگ میں، تلوار کے نیچے آئے ہوئے دشمن کے جان بچانے کے لئے کلمہ پڑھنے پہ بھی یہ کہے "تم کون ہوتے ہو اس کے ایمان کا فیصلہ کرنے والے"۔ آج ہم نے اپنی اپنی عدالتیں لگائی ہیں، ہم بیٹھ کے کسی کے ایمان پہ فیصلے دیتےہیں۔ خدائی فیصلوں میں تو کسی کی مجال نہیں کہ وہ سفارش بھی کر سکے تو پھر کیوں ہم اپنی نیت کا بھی ثواب پانے کے خواہشمندنہیں۔

اگر کسی کے گناہوں کی فہرست دیکھ کے ہم نے بخشش کی دعا دینے کا فیصلہ کرنا ہے تو پھر اپنے اپنے گریبانوں میں جھانک کےفیصلہ کریں کیا ہمارے لئے کسی کو بخشش کی دعا کرنی چاہیے کسی کو۔ کیا ہم بھی ایسے ہی شفاعت کے لئے ترسیں گے۔ جھرجھری نہیں آجاتی؟ پھر کیا یاد آتا ہے؟ اللہ بڑا غفور الرحیم ہے۔ وہ تو ہے، کوئی شک نہیں۔ وہ تو اپنے بندوں کی بخشش کے لئے بے تاب ہے۔ تم کیوں بخیل بنے بیٹھے ہو۔ بخشش کرنے کا تو تمہیں اختیارنہیں رکھتے۔ جس کی قدرت رکھتے ہو وہ تو دے دو۔ دعا کے چند لفظ، نیت کے چند پھول تو اس کی قبر پہ چڑھا دو۔ تمہیں تمہاری نیت کا ثواب ملے گا۔ ثواب اور نیکی کا تصور"نیت" کے سوا کیا ہے؟ اگر ہم ایک "نیت" بھی درست نہیں رکھ سکتے اس میں بھی نفرت گھول دیتے ہیں اور دعوی ہے رحمتہ للعالمین کا امتی ہونے کا تو ضرورت ہے ہمیں اپنے محاسبے کی۔

ہم اس کائنات میں ایک پرزے کی بھی حیثیت نہیں رکھتے، شائد زرہ بھی نہیں۔ نہ ہم کسی کی بخشش کر سکتے ہیں اور نہ شفاعت کی طاقت رکھتے ہیں۔ چلیں تھوڑی دیر کے لئے فرض کئے لیتے ہیں کہ "عرفان خان" میری یا آپ کی دعا کی بنیاد پہ "بخشا" جائے گا۔ توکیا کریں گے؟ اس کی اٹھنی پہ پاوں رکھ دیں کہ نہ بھائی تو نہیں جا سکتا جنت میں۔ تجھ میں تو فلاں فلاں برائی تھی۔ اور اگر ہماری اٹھنی پہ کسی نے پاوں رکھ دیا تو؟ کوئی اڑ گیا کہ نہیں بھائی، تم نہیں جا سکتے۔ اگر ہم اس کے رحم وکرم پہ ہوئے اور وہ شمر بن گیا ہماری شفاعت کے چشموں پہ اس نے قدغن لگا دی تو؟

چلیں، ہم دعا کر دیتے ہیں اس کی بخشش پھر بھی نہیں ہوتی۔ تو کیا اس دعا کرنے کا پہ ہم گناہ گار ہو جائیں گے؟ زیادہ سے زیادہ قبول نہیں ہو گی، یہ تو مالک کی مرضی ہے کہ وہ ہماری سنتا ہے یا نہیں۔ پر دعا مانگنے پہ تو ناراض نہیں ہوگا۔ پھر بھی کنجوسی، پھربھی بخیلی۔ اور اپنے لئے امید کہ وہ غفورالرحیم ہے۔ وہ تو ہے مسئلہ تو ہمارا ہے، ہم کتنے ظالم، کنجوس اور بخیل ہیں کہ دعائےخیر بھی روک کے رکھنا چاہتے ہیں۔

About Muhammad Ishtiaq

Muhammad Ishtiaq is a passionate writer who has been associated with literature for many years. He writes for Sukhan Kada and many other blogs and websites. He is a cricket addict and runs his own platform Club Info (www.clubinfo.pk) where he writes about cricket news and updates, his website has the biggest database of Domestic Clubs, teams and players in Pakistan. His association with cricket is remarkable. By profession, he is a Software Engineer and has been working as Data Base Architect in a Private It company.

Check Also

Yaroshalam Aur Tel Aviv Mein Mulaqaten

By Mubashir Ali Zaidi