Wo Jo Qarz Rakhte Thay Jan Par
وہ جو قرض رکھتے تھے جان پر
"یہ کیسے فاتح ہیں جنہوں نے ہماری عزت و آبرو کے پیراہن چاک نہیں کئے۔ ہمیں سامان رسوائی کے ساتھ بازاروں میں نہیں پھرایا اور ہمارے مال و متاع کی طرف نظر کرنا بھی گوارا نا کیا۔ یہ کیسے مہذب لوگ ہیں جنکا حکمران بھی عام لوگوں کے ساتھ باہم قدم ملا کر چل رہا ہے۔ یہ لوگ کہاں سے آئے ہیں؟ ہمارے تو اپنے بادشاہ قیصر نے ہم پر ظلم کے پہاڑ توڑ دئیے تھے۔" اہلیان یروشلم حیرانی و سراسیمگی کے ملے جلے جذبات کے ساتھ فاتح فوج اور اسکے سالار کو شہر میں داخل ہوتے دیکھ رہے تھے۔
17 سال کا وہ نوجوان دربار میں داخل ہوا۔ اسکی سحرزدہ شخصیت سبھی کو ایک نئے دور کا ترانہ سنا رہی تھی۔ نشے میں دھت بادشاہ "فلپ دوئم" اس نوجوان کا استقبال کرنے کے لیے تخت سے اترنے کی کوشش میں گر پڑا۔ محافظ اور وزراء اپنے بادشاہ کو اٹھانے کے لیے دوڑے لیکن وہ نوجوان وہیں پہ کھڑا بڑے کروفر کے ساتھ وہ منظر دیکھتا رہا۔ وہ نوجوان گویا ہوا، "کیا یہ وہ بادشاہ ہے جس کی تم پیروی کرتے ہو جو اس قابل بھی نہیں کی تخت سے نیچے اتر سکے۔" پورے دربار میں اب سکوت کا سماں تھا اور "فلپ دوئم" بھی اپنے حواس میں واپس آچکا تھا۔
وہ نوجوان 353 قبل مسیح میں مقدونیہ (یونان) میں پیدا ہوا جو شمالی یونان سے جزیرہ بالکان تک پھیلا ہوا ہے۔ وہ مقدونیہ کے سب سے عظیم بادشاہ "فلپ دوئم" کی چوتھی ملکہ "اولمپئس" میں سے تھا۔ ملکہ "اولمپئس "سے پہلے "فلپ دوئم " کی تین بیویاں تھیں لیکن کوئی بھی اسے جانشین نا دے سکیں۔ اولمپئس اس لیے اہم اور بااثر تھی کیونکہ وہ مقدونیہ کے اکلوتے شہزادے اور جانشین کی ماں تھی۔ یہ لڑکا، 12 برس کی عمر تک یونان کے سب سے عظیم شاعر "ہومر" کی تمام شاعری پر عبور حاصل کر چکا تھا اور واحد جانشین ہونے کی حیثیت سے اسے بہترین تعلیم دی گئی تھی جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسکے اساتذہ میں "ارسطو" بھی شامل تھا۔ ملکہ "قلوپطرہ "کی بیٹی کی شادی میں فلپ دوئم کو اسی کے محافظ نے قتل کر ڈالا اور یوں وہ 20 سال کی عمر میں مقدونیہ کا نیا بادشاہ بنا۔ تاریخ اسے "سکندراعظم" کے نام سے جانتی ہے۔
وہ 12 برس حاکم رہا اور اس نے 12 ہزار میل کا سفر کیا۔ وہ جہاں بھی گیا کمال کرتا گیا۔ اس نے 50 ہزار فوج سے اس وقت کی ایلیٹ فورس کی حامل سلطنت فارس کی 25 لاکھ فوج کو شکست دی اور یونانی ثقافت کو ایشیا تک پھیلا دیا۔ اس جنگ میں سلطنت فارس کا زوال مکمل ہوا اور اسکا بادشاہ "ڈرائیس سوئم" اپنے اختتام کو پہنچا۔ وہ بابل پھرمشرق میں انڈیا تک آیا۔ وہ اور اسکا وحشی گھوڑا "بیوسیفیلیس" یونان سے مشرق تک ہر سلطنت کو روندتے ہوئے بلآخر جہلم پہنچے جہاں سپوت پنجاب "راجا پورس" کے ساتھ جنگ میں سکندر اعظم زخمی ہوا اور اسکا گھوڑا مارا گیا اور دریائے جہلم کے کنارے دفنا دیا گیا۔
332 قبل مسیح میں اس نے اپنے وطن مقدونیہ کو پلٹنے کا ارادہ کیا لیکن بابل و نینوا کے علاقے میں ہی دم توڑ گیا۔ وہ جنگ کے دوران جب رات کو سوتا تو اپنے تکیہ کے نیچے "ہومر" کی عظیم شاہکار نظم "الیاڈ" کے اشعار رکھ کے سوتا تھا اور جب لڑتا تو اپنے آنکھوں میں عظیم جرنیل "اکیلیئس" کا عکس رکھتا جس نے ٹرائے جیسے شہر کو محض ایک لکڑی کے گھوڑے سے شکست دی تھی۔
کہانی کا رخ کچھ صدیاں آگے سرزمین عرب کی جانب موڑتے ہیں۔ جہاں نہ تو کوئی حکومت نہ شہنشائیت اور نہ ہی ارسطو جیسے استاد۔
وہ نا تو کسی بادشاہ کے گھر پید ا ہوا نہ اسے ورثے میں سکندراعظم کی طرح کوئی بلند پایہ فوج ملی۔ وہ تیس سال تک یونہی گمنامی کی زندگی گزارتا رہا۔ نا کوئی منصب تھا نہ کوئی مقام۔ تاریخ اسکے سنہ پیدائش پر خاموش ہے کیونکہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ عام سا پہلوان تاریخ میں "الفاروق" کے درجہ پر پہنچ جائے گا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ "بنو عدی" کے قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے جو عرب کے ممتاز ترین دس قبائل میں شامل تھا۔"لوئی" وہ شخصیت ہے جسے قریش کا بانی کہا جاتا ہے۔ انکے دو پوتے تھے۔ ایک عدی بن کعب جوحضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مورث اعلی ہیں اور دوسرے پوتے "مرہ بن کعب" تھے جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مورث اعلی ہیں۔
30 سال کی عمر میں اسلام قبول کیا اور یوں مسلمانوں کا مکہ میں استحصال کافی کم ہو گیا۔ وہ اسلام کے دوسرے خلیفہ تھے جنہوں نے اسلامی اقدار اور روایات کی پاسداری کی اور اسلام کی حقیقی روح کو 23 لاکھ مربع میل کی وسیع سلطنت میں روشناس کرا یا۔ یہ وہی عمر تھے جن کو دیکھ کر شیطان بھی راستہ بدل لیتا تھا اور دوسری طرف حساسیت اور رحم دلی ملاحظہ کریں تو ہمیں انکے یہ الفاظ سننے کو ملتے ہیں کہ "اگر فرات کے کنارے کوئی پیاسا کتا بھی مر گیا تو عمر رضی اللہ عنہ کو اسکا جواب دینا ہوگا۔"
اسلامی فوج دو ماہ سے بیت المقدس کا محاصرہ کیے ہوئے تھی۔ سپاہی اپنے سپہ سالار حضرت عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ کچھ پادری شہر کی فصیل پر نمودار ہوئے ہیں اور آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ جب فصیل کے پا پہنچے تو پادریوں نے کہا، "اے سپہ سالار یہاں سے لوٹ جاؤ۔ تم یہ شہر فتح نا کر سکو گے کیونکہ اس شہر کا فاتح ایک بزرگ سپہ سالار ہے جیسا کہ تورات میں لکھا ہے اور وہ مجھے تم میں دکھائی نہیں دے رہا۔"
حضرت عمروبن العاص فورا انکی بات سمجھ گئے اور یوں حضرت عبیدہ نے خط میں ساری صورتحال لکھ کر قاصد کو امیرالمومنین کی خدمت میں روانہ کر دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خط پڑھا۔ اپنا نائب مقرر کیا، اور اس حالت میں مدینہ سے روانہ ہوئے کہ ستوؤں کا ایک تھیلا، ایک اونٹ، ایک غلام اور ایک لکڑی کا پیالہ کل رخت سفر تھا۔ نہ چھتر شاہی، نہ فوج کثیر، نہ طبل و علم اور نہ محافظ و نقیب۔ قیصرو کسری کے تاج جسکے قدموں کی خاک بن چکے تھے یہ اس عظیم فاتح کا سفر تھا۔ کبھی غلام اونٹ کی مہار پکڑتا اور فاروق اعظم سوار ہوتے اور کبھی فاروق اعظم اونٹ کی مہار پکڑتے اور غلام سوار ہوتا۔ آسماں نے ایسا منظر نا کبھی دیکھا تھا نہ ہی دیکھے گا۔
شہر میں داخلے کے وقت مہار پکڑنے کی باری جناب فاروق اعظم کی تھی لیکن غلام نے انہیں ایسا کرنے سے منع کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نا مانے۔ یوں جب پورا شہر اس بزرگ فاتح کو دیکھنے کے لیے جس نے فارس و روما کی سلطنت کو اکھاڑ دیا تھا، شہر سے باہر بے تاب کھڑا تھا کہ اسی وقت گرد کے بادل میں سے ایک اونٹ اور دو انسانوں پر مشتمل اس عظیم فاتح کا قافلہ نمودار ہوا۔ اونٹ پر سوار غلام کو اہلیان شہر نے خلیفہ سمجھا اور سرگوشیوں میں کہنے لگے کہ اس سوار سے حسین اور بارعب تو اسکا غلام ہے جو مہار تھامے ہوئے ہی۔ لیکن جب انہیں بتایا گیا کہ انکا خلیفہ وہ سوار نہیں بلکہ وہ جو اونٹ کہ مہار تھامے ہوئے ہے۔
پادری نفس شناس تھے اور انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو فورا پہچان لیا۔ معاہدہ ہوا اور مسلمانوں نے تاریخی فتح حاصل کی۔
"یہ کیسے فاتح ہیں جنہوں نے ہماری عزت و آبرو کے پیراہن چاک نہیں کئے۔ ہمیں سامان رسوائی کے ساتھ بازاروں میں نہیں پھرایا اور ہمارے مال و متاع کی طرف نظر کرنا بھی گوارا نا کیا۔ یہ کیسے مہذب لوگ ہیں جنکا حکمران بھی عام لوگوں کے ساتھ باہم قدم ملا کر چل رہا ہے۔ یہ لوگ کہاں سے آئے ہیں؟ ہمارے تو اپنے بادشاہ قیصر نے ہم پر ظلم کے پہاڑ توڑ دئیے تھے۔" اہلیان یروشلم حیرانی و سراسیمگی کے ملے جلے جذبات کے ساتھ فاتح فوج اور اسکے سالار کو شہر میں داخل ہوتے دیکھ رہے تھے۔
مصر میں حملے کے دوران نپولین بونا پارٹ نے قرآن مجید کا ترجمہ سن کر بہت تعریف کی، لیکن یورپ خوش قسمت تھا کہ نپولین نے ابتدائی اسلامی تاریخ جواسلام کی اصل روح ہے، سے روگردانی کی ورنہ وہ یہ بات فورا سمجھ جاتا کہ قیصر و کسری کو عرب تلواروں نے نہیں بلکہ اسلامی مساوات، اخوت اور آزادی کے نظریات نے تباہ کیا تھا۔ اگر وہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خاک نشینی کا راز پا لیتا تو سر پر وہ تاج نا رکھتا جس کے خلاف صرف پیرس کے ایک لاکھ لوگوں نے اپنے سر کٹائے تھے۔
لیکن پھر یورپ کے تخت نشین کہاں ہوتے؟ خواہ وہ مقدونیہ کا "سکندر" ہو یا فرانس کا " نپولین"۔