Wo Baang De Ke Aasman Tarap Uthe, Laraz Uthe (3)
وہ بانگ دے کہ آسماں تڑپ اٹھے لرز اٹھے (3)
"نوجوان مرد کے سامنے ایک ہی راستہ ہوتا ہے"، وہ اکثر اپنے بزرگوں سے یہ جملہ جو قبیلے کے نئے جوان سپاہیوں کو حلف کے وقت دی جانے والی ہرتقریر میں حرف آخر کا درجہ رکھتا تھا، بڑے انہماک سےسنتا اور محظوظ ہوتا، حالانکہ یہ جملہ اسکی سمجھ سے بالاتر ہوتا تھا۔
خلیفہ دوئم جناب فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اپنی عین جوانی میں ایک مائہ ناز پہلوان اور شہسوار تھے۔ گو کہ وہ اسلام کی دولت سے کچھ دیر محروم رہے مگر تاریخ شاہد ہے کہ جس طرح خطاب نے انکی پرورش کی تھی اس نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس بے دین عرب معاشرے میں کافی حد تک ایک با اصول انسان بنا دیا تھا۔ انکی قبل از اسلام زندگی میں کہیں نا کہیں توحید کی رمق موجود تھی جو سرور دو جہان ﷺ کی دعا سے ایک شعلہ کی مانند ابھری اور ایک عام سا نوجوان تھوڑے ہی عرصے میں 23 لاکھ مربع میل کا حکمران بن گیا۔ اس تمہید کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں بچوں کو اس نہج پر پروان چڑھانا چاہیئے کہ وہ برائی کی کثرت میں بھی اچھائی کو اپنا لینے کہ سکت رکھتے ہو ں۔
نپولین بونا پارٹ 1769ء کو پیدا ہوا۔ 1788ء میں اسے آرٹلری میں بطور لیفٹنینٹ کمیشن دیا گیا۔ وہ اپنی نوجوانی میں اس قدر انقلابی اور تخلیقی سوچ کا حامل شخص تھا کہ اس نے ملٹری اکیڈمی میں تربیت کے دوران فرانسیسی زبان میں لکھی "ملر"، "کوروپاٹکن" جیسے فلاسفروں اور انقلابی راہنماؤں کی ہرکتاب پڑھ ڈالی تھی۔ وہ اکثر یہ کہا کرتا تھاکہ، " ایک نوجوان مانند آتش فشاں ہے جو دنیا کو روشن کرنے کے لیے خود کو جلا دیتا ہے"۔ اس نے 1803ء میں آسٹریا کی ہیزبرگ سلطنت کو شکست دی اور پھر روس، اطالیہ اور پروشیا سبھی نے نپولین کے سامنے معاہدہ ایمینیز کی رو سے گھٹنے ٹیک دیے۔
مصر میں حملے کے دوران نپولین نے قرآن مجید کا ترجمہ سن کر بہت تعریف کی، لیکن یورپ خوش قسمت تھا کہ نپولین نے ابتدائی اسلامی تاریخ سے روگردانی کی ورنہ اس جیسا نابغہ یہ بات فورا سمجھ جاتا کہ قیصر و کسری کو عرب تلواروں نے نہیں بلکہ اسلامی مساوات، اخوت اور آزادی کے نظریات نے تباہ کیا تھا۔ اگر وہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خاک نشینی کا راز پا لیتا تو سر پر تاج نا رکھتا لیکن پھر یورپ کے تخت نشین کہاں ہوتے؟ "اعظم" کا لاحقہ ہر ایک کو زیب نہیں دیتا۔ انقلاب کی پیداوار اور انقلاب کے ہی خلاف!
ہر مدعی کے واسطے دارورسن کہاں!
اقوام کی تقدیر اسکے اپنے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ اس مادی دنیا میں اگر کوئی قوم اپنا رعب جمانا چاہتی ہے تو اسے ہر شعبہ میں یک دل یک جان ہو کر محنت کرنا ہوگی۔ تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا ہو گا اور انقلابی تفکرات کو پروان چڑھانا ہوگا۔ اس مقصد کے لیےقوم کا سب سے ہم حصہ اسکی نوجوان نسل ہے۔ کیونکہ وہ تمام عناصر جو کسی بھی انقلاب اور تبدیلی کے لیے موزوں ہوتے ہیں، آدمی کی نوجوانی میں اپنے جوبن پر ہوتے ہیں۔ یادداشت، غیرت، جرات و بہادری نوجوانی کےاہم نشان ہوتےہیں۔ یہی وہ عناصر تھے جن کی بنیاد پر اللہ تعالی نے عربوں کو اسلامی انقلاب کے لیے چنا۔ فقط کوشش کرنے سے منزل نہیں ملا کرتی بلکہ منزل کی راہ میں آنے والی ہر مصیبت کو جھیلنے اور مسلسل آگے بڑھنے کا حوصلہ بھی ہونا چاہیے۔ بقول حضرت اقبال؎
حقیقت ازلی ہے رقابت اقوام
نگاہ پیروفلک میں نا میں عزیز نہ تو
دریائے آمو کے جنوب میں خراسان کا علاقہ تھا جہاں سفید داڑھی اور اونچے عمامہ والے اب اسلام سے مالا مال ہو چکے تھے اور جنگ و قتال کی بجائے تبلیغ و کھیتی باڑی کرتے تھے۔ دریائے آمو کے شمال میں توران کا علاقہ سخت گیر جنگجوؤں کا مسکن تھا۔ وہ سبھی تاتاری نسل سے تھے۔ اسی سرزمین کے شہر سبزوار میں عظیم نوجوان فاتح امیر تیمور گورگاں پیدا ہوا۔ اسکے مشاغل میں گھوڑ سواری اور پہاڑوں میں جنگی مشقیں کرنا تھا۔ وہ جب بھی کھلیتے یا شکار پر جاتے امیر تیمور ہمیشہ سردار بنتا۔ شکار کے دوران وہ اکیلا سبھی کو پیچھے چھوڑ جاتا اور کئی کئی میل تک شکار کا تعاقب کرتا۔ اسکا باپ اسے مسجد اور مدرسہ کی تلقین کرتا لیکن وہ سبھی سرگرمیوں میں حصہ ضرور لیتا۔
"نوجوان مرد کے سامنے ایک ہی راستہ ہوتا ہے"(ارین مور لیگین بو)"، وہ اکثر اپنے بزرگوں سے یہ جملہ جو قبیلے کے نئے جوان سپاہیوں کو حلف کے وقت اور نئے جوان سپاہیوں کو پہلی مرتبہ مہم پہ جاتے وقت دی جانے والی ہرتقریر میں حرف آخر کا درجہ رکھتا تھا، بڑے انہماک سےسنتا اور محظوظ ہوتا، حالانکہ یہ جملہ اسکی سمجھ سے بالاتر ہوتا تھا۔ امیر تیمور اپنے گھر کی منڈیر سے آنے والے تجارتی قافلوں کو دیکھا کرتا اور یوں اپنے اندر اس دنیا کو تسخیر کرنے کی جستجو پالتا رہا۔ وہ فارس و ہند اور عرب سے آنے والے قافلوں کے پڑاؤ میں شامل ہو جاتا اور یوں اسے تاجروں کی زبانی ساری دنیا کے احوال معلوم ہو جاتے۔ امیر تیمور کو جب اسکا باپ قافلے کے پڑاؤ میں شامل ہونے پر ڈانٹتا تو امیر تیمور بسورا سا منہ بنا کر کہہ دیتا کہ "نوجوان مرد کے سامنے ایک ہی راستہ ہوتا ہے"۔
ہمارا تعلیمی نظام ہماری ترقی میں سب سے اہمیت کا حامل ہے۔ تعلیم محض ڈگریاں اور ڈپلوموں کا نام نہیں بلکہ اسکا مطلب جاننا اور آگاہی حاصل کرنا کے ہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے نوجوان اپنا زیادہ تر وقت سوشل میڈیاکی نظر کر دیتے ہیں یوں وہ مطالعہ جیسی عادت سے مکمل طور پر انحراف کرتے جا رہے ہیں۔ ہم بحیثیت قوم ایک قسم کی غلط سوچ کو پروان چڑھاتے نظر آتے ہیں کہ انگریزی سیکھنا اور بولنا مغربی نظام کو اپنانے کے مترادف ہے یوں ہم ہر میدان میں دنیا سے کیا اپنے روایتی حریف بھارت سے بھی پیچھے ہیں۔ ایمازون، یوٹیوب، فیس بک، واٹس ایپ نیز ہر قسم کے سوشل میڈیا ٹائیکون بھارت میں آپریٹ کر رہےہیں جبکہ پاکستان میں صرف یوٹیوب کا ایک ہیڈآفس ہے تبھی تو جب کشمیر کے لیے ٹویٹر پر ہم پاکستانیوں نے آواز اٹھائی تو بھارت نے بڑے آرام سےاکاؤنٹس بند کر دئیے اور اگر ہمیں کوئی اکاؤنٹ بند کروانا ہو تو کئی پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ آج سے 20 سال پہلے "جارج بش جونئیر" نے کہا تھا کہ، " بھارت ہمارے لیے خطرہ بن سکتا ہے کیونکہ انکے پاس افرادی قوت زیادہ ہے اور وہ ہماری زبان اچھے سے بول لیتے ہیں "۔ جبکہ پاکستان میں گویا انگریزی بولنا اور سیکھنا ہمارے کچھ مذہبی راہنماؤں کے نزدیک اچھا فعل نہیں ہے۔ اگر ہم تاریخ میں جھانکیں تو یورپ کے تاریک دور میں جب ویٹیکن نے مسلمانوں کے عروج اور بغداد میں اسلامی لٹریچر کی فراوانی دیکھی تو سب سے پہلے کیتھولک عیسائی ہی عربی زبان سیکھنے اور سمجھنے کے لیے تیار ہوئے تھے اور پھر دیکھتے ہی وہ چند صدیوں میں اس دنیا پر چھا گئے۔
ہمیں مایوسی کو چھوڑنا ہوگا، سوچ کو ترقی پسند اور وسیع کرنا ہوگا تا کہ مسلم امہ جسے قرآن میں "خیر امت" کا درجہ دیا گیا ہےاپنے قرون اولی جیسے دور کی یاد تازہ کرسکیں تا کہ یہ ٖفلک پھر سے پکار اٹھے کہ "وہ بانگ دے کہ آسماں تڑپ اٹھے لرز اٹھے"۔