Udas Naslain (2)
اداس نسلیں (2)
پھر فیصلہ سنایا گیا، " قتیہ بن مسلم اس شہر کو اسکے مالکان کے حوالے کر ے اور اپنا سارا لشکر لے کریہاں سے چلا جائے اور مستقبل میں حملہ کی اطلاع قبل از وقت لازمی دی جائے۔"پادری کو یہ ساری کارروائی محض مذاق اور تمثیل لگ رہی تھی۔ چند لمحوں کی یہ عدالت ایک تاریخ ساز فیصلہ کر کے برخاست ہو چکی تھی اور قتیبہ بن مسلم اسی قاضی کیساتھ باتیں کرتا ہوا فوج کے مسکن کی جانب رواں ہو گیا۔ اور چند گھنٹوں بعد ہی ثمرقندیوں نے اپنے پیچھے گردوغبار کے بادل چھوڑتے ہوئے قافلے دیکھے جو شہر کو ویران کرکے جا رہے تھے۔
اب آتے ہیں نور مقدم قتل کیس کی طرف۔ جو خیالات میرے ذہن میں اٹھ رہے ہیں یقینا آپ قارئین کے ذہنوں میں بھی اٹھ رہے ہونگے۔ کیا یہ ملک امیروں کے لیے بنا تھا؟ کیا اس ملک کا قانون جو 273 دفعات پر مشتمل ہے جس میں اب تک 18 ترامیم کی جا چکی ہیں وہ سب کی سب ان امیروں اور وڈیرا شاہی کو ہر قسم کا ظلم و ستم کرنے اور اس پر پردہ ڈالنے کے لیے ہیں؟ کیا یہ وہی ملک ہے جسکا خواب جناب اقبال نے دیکھا تھا؟ کیا یہ وہی ملک ہے جو حضرت قائد اعظم نے بنایا تھا؟ کیا یہ وہی سرزمین ہے جس کے لیے ہمارے سپاہی اپنی جان قربان کرتے آئے ہیں؟ ان سوالات کا جواب آپ اپنے آپ سے پوچھیئے۔
میرا جواب تو روزِروشن کی طرح ہے کہ اگر آپ کے پاس طاقت ہے، پیسہ بھی ہے تو آپ سرزمین پاکستان میں کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ اگر آپ کے پاس دولت ہے اور آپ کسی کو بھی خریدنے کی سکت رکھتے ہیں تو پھر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ سے کیا گناہ سرزد ہوا ہے۔ میرے سامنے اپنی اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کئی مثالیں موجود ہیں۔ شاہ زیب قتل کیس سے لے کر زین قتل کیس، اسامہ ستی کیس اور سانحہ ماڈل ٹاؤن سے سانحہ ساہیوال تک سینکڑوں مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ ملک امیروں کے لیے بنا تھا۔ اگر آپ پاورفل ہیں اور کسی کو بھی خرید سکتے ہیں تو پھر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ محمود خان اچکزئی کوئٹہ میں پولیس اہلکار عطاءاللہ کو کچل دے یا شاہ رخ جتوئی 20 سالہ نوجوان شاہ زیب کو کراچی میں سڑک پر قتل کر دے یا شوکت عزیز کی کابینہ کا ایک وزیر خاتون کو قتل کرے اور پھر اسکی لاش سڑک پر ہی پھینک دے یا پھر پاکستان کے سب سے محفوظ شہر اسلام آباد میں ذاکر جعفر ایک لڑکی کا سر اتار دے، یا راؤ انوار جیسے پولیس آفیسر انکاؤنٹر کرتے پھریں، کوئی فرق نہیں پڑتا، کوئی نہیں۔ آپ پیسے کے زور پر جسمانی ریمانڈ رکوا سکتے ہیں، آپ ڈی این اے کی رپورٹ تبدیل کروا سکتے ہیں، آپ اپنی مرضی کا کیس کروا سکتے ہیں، آپ پولیس کو اپنی مرضی کا بیان سچ ثابت کروا سکتے ہیں، آپ عدالت میں اپنی مرضی کا منصف خرید سکتے ہیں اور آپ یقین مانیں فیصلہ بھی اپنی پسند کا کروا سکتے ہیں۔
چلیے قرون اولی کے امیروں پہ بھی نظر ڈال لیتے ہیں۔ "کیا یہ خط مسلمانوں کے اس عظیم لشکر کو ہمارے شہر سے نکالے گا؟ کیا اس خط کی ان دو سطروں میں اتنی طاقت ہے؟ " قاصد سوچ رہا تھا اور فلک رشک سے مسکرا رہا تھا۔
پادری نے جب خط کا جواب دیکھا تو اسے مایوسی ہوئی کہ بھلا یہ دو سطریں کیسے انصاف کر سکتی ہیں؟ پادری بادل ناخواستہ اٹھا اور خلیفہ عمر بن عبدالعزیز کا جوابی خط لے کر وہ حاکم ثمرقند کے پاس چل دیا جس کے فریب کا وہ پہلے ہی شکار ہو چکے تھے۔ پادری کو یقین تھا کہ یہ کاغذکا ٹکڑا انہیں کوئی فائدہ نا دے گا۔ حاکم نے خط پڑھتے ہی فورا ایک قاضی کا تقرر کیا جسکا نام "جمیع" تھا جو ثمر قند والوں کی شکایت سننے کے لیے تیار ہو گیا تھا۔ موقع پر ہی عدالت لگی۔
چوب دار نے بغیر کسی منصب و لقب کے قتیبہ کا نام پکارا۔ قتیبہ بن مسلم اپنی جگہ سے اٹھے اور قاضی کے روبرو اور پادری کے ساتھ ہو کر بیٹھ گئے۔ قاضی نے پوچھا، "کیا دعویٰ ہے تمھارا؟ " پادری بولا، "قتیبہ نے بغیر کسی پیشگی اطلاع کے حملہ کیا، نا تو اس نے ہمیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی اور نا ہی سوچ بچار کا کوئی موقع۔" قاضی نے قتیبہ کو دیکھا اور پوچھا، "تم اس دعویٰ کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ " قتیبہ بن مسلم بولے، " قاضی صاحب! جنگ تو ہوتی ہی فریب اور دھوکا ہے۔ ثمرقند ایک عظیم ملک ہے۔ اس کے قرب و جوار کے کمتر ملکوں نے نا تو ہماری دعوت اسلام قبول کی اور نا جزیہ دینے پر راضی ہوئے تھے اور انہوں نے جنگ کو ترجیح دی۔ ثمر قند ان سے کہیں زیادہ طاقت ور اور سرسبزوشاداب ہے۔ ہمیں پورا یقین تھا کہ اہلیان ثمر قند بھی جنگ کو ہی ترجیح دینگے۔ لہذا میں نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور قبضہ کر لیا۔
" قاضی نے رعب دار لہجے میں پوچھا، "قتیبہ میرے سوال کا جواب دو، کیا تم نے ثمرقند کو جزیہ دینے یا سوچ بچار کا وقت دیا، کیا حملہ کی اطلاع کی تھی؟ قتیبہ بن مسلم نے بواب دیا، "نہیں قاضی صاحب جیسا کہ میں نے پہلے ہی بتایا ہے کہ ہم نے موقع سے فائدہ اٹھایا۔" قاضی گویا ہوا، "قتیبہ اللہ نے اس دین کو عظمت عدل کی بددولت دی ہے نا کہ فریب اور دھوکہ دہی کی بددولت"، پھر فیصلہ سنایا گیا، " قتیہ بن مسلم اس شہر کو اسکے مالکان کے حوالے کر ے اور اپنا سارا لشکر لے کریہاں سے چلا جائے اور مستقبل میں حملہ کی اطلاع قبل از وقت لازمی دی جائے۔"
پادری کو یہ ساری کارروائی محض مذاق اور تمثیل لگ رہی تھی۔ چند لمحوں کی یہ عدالت ایک تاریخ ساز فیصلہ کر کے برخاست ہو چکی تھی اور قتیبہ بن مسلم اسی قاضی کیساتھ باتیں کرتا ہوا فوج کے مسکن کی جانب رواں ہو گیا۔ اور چند گھنٹوں بعد ہی ثمرقندیوں نے اپنے پیچھے گردوغبار کے بادل چھوڑتے ہوئے قافلے دیکھے جو شہر کو ویران کرکے جا رہے تھے۔
لوگ حیرت سے ایک دوسرے سے سبب پوچھ رہے تھے اور جاننے والے بتا رہے تھے کہ عدالت کے فیصلے کی تعمیل ہو رہی ہے۔ اگلے دن جب سورج طلوع ہوا تو ثمر قند کی گلیوں میں صرف آوارہ کتے گھوم رہے تھے اور گھروں سے دھوئیں کے ساتھ آہ و بقا کی آوازیں آ رہی تھیں کیونکہ وہ لوگ جن کے عدل، مساوات، رحم دلی اور طرز معاشرت نے اہلیان ثمرقند کو ذہنی اور جسمانی دونوں سطح پر فتح کر لیا تھا چھوڑکر جا چکے تھے۔
اس تمہید کے بعد مجھے نہیں لگتا کہ کسی اور بات کی ضرورت ہے۔ اپنی پاک سرزمین پر ہونے والی نا انصافیوں اور بے ایمانیوں کا استحصال کرنا اب لازم و ملزوم ہے۔ شاید یہ امیر زادے بھول چکے ہیں کہ مکافات عمل کی چکی چلتی بہت آہستہ ہے مگر پیستی بہت باریک ہے۔ یقینا ہمیں قومی احتساب کی ضرورت ہے ایسا احتساب جس میں کوئی عدالت، کوئی وکیل اور کوئی مقدمہ نہ ہو نا تو کوئی سی-آئی-ڈی ہو نا کوئی نیب، بلکہ ہر شخص کا ضمیر ہی اسکا منصف اور وکیل ہو۔ ہر کوئی اپنا احتساب خود کرتا پھرے تب جا کر ہی کوئی تبدیلی رونما ہو سکتی ہے۔ ورنہ تو وہ لوگ جن کو اس ملک کی فکر ہے اور وہ اس کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں ان کے دل میں سے سوائے شکوہ کے اور کیا نکل سکتا ہے۔ اور ہم جیسے لوگ پھر اپنے ہم وطن عدیم ہاشمی کی طرح بد دعائیں ہی دے سکتے ہیں ؛
اتنی غلاظتیں ہیں کہ دھونے کو ذہن ذہن
سیل خلا بھی صورت آب آئے تو ہے کم
تیرا لکھا کرے گا یہاں کیا اثر عدیمؔ
یاں جبرئیل لے کے کتاب آئے تو ہے کم