Udas Naslain (1)
اداس نسلیں (1)
"میں ثمرقند کے پادری کیطرف سے بھیجا گیا قاصد ہوں "۔ اس نے خط کو کھولا، اور پڑھ کر اسکی پشت پر لکھا، "عمر بن عبدالعزیز کی طرف سے ثمر قند میں تعینات اپنے عامل کے نام! فورا ایک قاضی مقرر کیا جائے جو ان کی شکایات سن سکے۔" قاصد کبھی اس شخص کو دیکھتا، کبھی خط کی پشت پر لکھے وہ الفاظ اور پھر خود سے گویا ہوتا کہ، "کیا یہ خط مسلمانوں کے اس عظیم لشکر کو ہمارے شہر سے نکالے گا؟ " قاصد سوچ رہا تھا اور فلک رشک سے مسکرا رہا تھا۔۔
کتاب الحکمت قرآن مجید نا صرف ہمارے مذہب کی علامت اور راہنمائی کا ذریعہ ہے بلکہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے امت مسلمہ کو ایک مکمل فلاحی نظام بھی دیتی ہے۔ ایسا نظام جس نے محض چند دہائیوں میں رومتہ الکبری کو ملیا میٹ کر دیا تھا، وہ نظام جس نے کئی فرقوں میں بٹے ایرانی معاشرے اور اوہام پرستی سے بھر پور ساسانی مذہب و سلطنت کو شکست سے دوچار کیا تھا۔ یہی وہ نظام تھا جس نے فیٹی شیزم، اور نیو اینیمیزم جیسی مذہبی تھیوریز کو جو سرزمین عرب میں صدیوں سے زیر عمل تھیں جڑ سے اکھاڑ دیا۔
اسی کتاب الحکمت کی ایک "سورۃ النمل "میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ، "بے شک اللہ تعالی حسن سلوک اور عدل کا حکم دیتا ہے۔" ایک جگہ "سورۃ المائدہ" میں بھی ارشاد ربانی ہے کہ، " عدل کرو یہ تقوی کے زیادہ قریب ہے۔" یہی وہ قانون ہے جس کو نافذ کر کے مسلمان پوری دنیا میں عزت و احترام سے دیکھے جاتے تھے۔ اسی نظام کا ہر سو چرچہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ مدینہ کے یہودی بھی اپنے معاملات حضرت محمد ﷺ کے پاس لے کر آتے تھے۔
اس مادی دنیا میں اقوام کی تشکیل میں کچھ عناصر ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان میں محنت، اخوت، مساوات اور عدل پہلو بہ پہلو سر فہرست آتے ہیں۔ کچھ دیر کے لیے ہم اپنا تعصب اور نفرت ایک طرف کر کے مغربی معاشرے اور ریاستوں کی کامیابی کا تجزیہ کر لیتے ہیں۔ مغرب میں خواہ آپ کوئی بیوروکریسی کے اعلی عہددار ہیں یا ورجینیا کے ایک معمولی سے کاشت کار، خواہ آپ جیسیکا روبنیلٹ ہیں یا شہزادہ کیمرون ہیرن قانون سبھی کے لیے یکساں ہے۔ کہانی میں آگے بڑھنے سے پہلے میں آپکو ماضی میں لے کر جانا چاہوں گا۔ چلیے آپ اب 2018ء میں ہیں۔
ایک تاریک رات میں بولیورڈ کے ساحل کے پاس والدین نے اپنے بیٹے کو اسکے اٹھارویں یوم پیدائش پر مہنگی "مسٹرڈ فورڈ" گاڑی بطور تحفہ پیش کی۔ کچھ دن آگے چلیے تو اسی بولیورڈ کی ایک گلی میں رات کے وقت 24 سالہ جیسیکا روبنیلٹ اپنی ایک سالہ بیٹی کے ساتھ سڑک پار کر رہی تھی کہ ٹھیک اسی وقت 100 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے آتی ہوئی ایک کالے رنگ کی "مسٹرڈ فورڈ" دونوں ماں بیٹی کے ساتھ ٹکرائی اور یوں انکی وہیں پر موت واقع ہو گئی۔ قاتل کو پکڑلیا گیا۔ اقرار جرم بھی ہوگیا۔ قاتل ایک 18 سال کا لڑکا تھا پس اسکو 20 سال کی عمر میں جیل بھیجا جانا تھا۔ اب میں آپکو ماضی سے حال میں لاتا ہوں۔ یہ 2021ء ہے۔ جون کے مہینے میں "محکمئہ برائے انصاف" نے اس قاتل لڑکے کو جو اب 20 سال سے کچھ زیادہ کا ہے، 24 سال عمر قید سنا دی۔ یہ لڑکا "پرنس کیمرون ہیرن" ہے جس نے اپنے یوم پیدائش پر ملنے والی "مسٹرڈ فورڈ" سے ایک رات اپنے دوستوں کے ساتھ "سٹریٹ ریسنگ" کرتے ہوئے جیسیکا اور اسکی ننھی بیٹی کو کچل ڈالا تھا۔
میرے نزدیک صرف یہی مثال اس بات کو مصدقہ طور پر ثابت کر دیتی ہے کہ مغرب جس نظام کو اپنی ریاستوں میں نافذ کر چکا ہے جس کی بددولت وہاں ہر محکمہ اپنا فرض مکمل ایمانداری سے نبھاتا ہے، وہ در حقیقت اسلامی نظام کا ہی ایک عکس ہے۔ ایسا نظام جس میں حضرت فاطمۃالزہرا رضی اللہ عنہا اور قریش کی ایک عام عورت سبھی کے لیے یکساں قانون تھے۔ اب میں اصل کہانی کی طرف آتا ہوں۔ 20 جولائی، 2021ء کو جب پورا ملک عید قربان کی تیاریوں میں مصروف تھااس وقت قریب دوپہر دو بجے شہر اقتدار اسلام آباد میں نور مقدم کے قتل کا ہولناک واقعہ پیش آیا۔ میرے نزدیک یہ قتل کا واقعہ اتنا سنگین نہیں جتنا اس مقدمہ میں اب تک ہونے والی پیش رفت ہے۔ جس طرح اس واقعہ نے ہمارے نظام پر سوالیہ نشان لگا دئیے ہیں اس کے بعد بھی اگر کوئی "ریاست مدینہ" کا خواب لیے بیٹھا ہے تو اس شیخ چلی والی عادت سے اللہ پناہ!
نور مقدم کا قاتل پاکستان کے معروف بزنس ٹائیکون "جعفر برادرز" کا چشم چراغ ہے۔ جس طرح ملزم جعفر ذاکر کو اسکے والدین نے سپورٹ کیا ہے، جس طرح پاکستان کے مہنگے ترین وکیل قطاروں میں لگا دئیے گئے، منرل واٹر اور ہوٹلز کا کھانا ایک قاتل کو مہیا کیا گیا، جسطرح پولیس کو ریمانڈ نہیں کرنے دیا گیا، پولیس کو میڈیا بریفنگ کرنے سے باز رکھا جا رہا ہے اور سونے پر سوہاگہ کے ملزم جعفر ذاکر نے جائے وقوعہ پربیان دیا کہ "نور بے وفائی کر رہی تھی اس لیئے اسکو قتل کر دیا" پھر اس بیان کو مہنگے ترین وکلاء نے کچھ یوں تبدیل کروا دیا کہ، " نور نے خود کشی کی تھی مگر چونکہ وہ میری دوست تھی اور اسلام میں خودکشی حرام ہے تو میں نے اپنی دوست کو اس بے عزتی سے بچانے کے لیے اسکا سر جسم سے الگ کر دیا اور اسکی خودکشی کو قتل بنا کر اپنے ذمہ لے لیا"۔ جب سے ذاکر جعفر نے یہ بیان دیا ہے تب سے بہت سے خیالات اور سوالات میرے ذہن میں اٹھ رہے یں۔ لیکن اس سے پہلے میں آپکو قرون اولی کے مسلم معاشرے میں لے کر چلتا ہوں۔
یہ ثمر قند کا عظیم ملک جس پر اب مسلمانوں نے بہ زور شمشیر قبضہ مکمل کر لیا ہے۔ مسلم جرنیل جناب قتیبہ بن مسلم بابلی فتح کے جوش میں جہاد کے اصولوں کو منحرف کرنے کی غلطی سرزد کر چکے تھے۔ اصول یہ تھا کہ حملہ کرنے سے پہلے تین دن کی مہلت دی جائے جو کہ اہلیان ثمرقند کو نہیں دی گئی تھی۔ زمام خلافت جناب عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں ہے۔ ثمر قند کے پادری نے اس اصول کی خلاف ورزی کی شکایت کے لیے اپنے قاصد کو ایک خط کے ساتھ دمشق روانہ کیا۔ دمشق پہنچ کر قاصد نے ایک عالی شان مسجد کو دیکھ کر پوچھا کہ "کیا یہ خلیفہ کا مسکن ہے؟ " لوگوں نے کہا، "کیا تم نماز نہیں پڑھتے؟ یہ گھر نہیں مسجد ہے۔" جب وہ لوگوں کے بتائے ہوئے پتے پر پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک نوجوان جسکا چہرہ پرکشش ہے ایک کچے مکان کی دیوار کو مٹی لگا رہا ہے۔ قاصد واپس پلٹ گیا اور جا کر لوگوں سے کہنے لگا "تم مجھ سے دل لگی کرتے ہو۔ تمہارے بتائے ہوئے پتے پر تو ایک نوجوان گھر کی دیوار کو مٹی لگا رہاہے وہ شخص کیونکر خلیفہ ہو سکتاہے؟ " اہلیان دمشق نے اسے باور کروایا کہ وہی خلیفہ کا گھر ہے۔
قاصد دوبارہ وہاں پہنچا تو وہ نوجوان فارغ ہو چکا تھا۔ قاصد نے رشک کے عالم میں ثمر قند کے پادری کا خط پیش کیا۔"میں ثمرقند کے پادری کیطرف سے بھیجا گیا قاصد ہوں "۔ اس نے خط کو کھولا، پڑھا اور اسکی پشت پر لکھا، "عمر بن عبدالعزیز کی طرف سے ثمر قند میں تعینات اپنے عامل کے نام! فورا ایک قاضی مقرر کیا جائے جو ان کی شکایات سن سکے۔" قاصد کبھی اس شخص کو دیکھتا، کبھی خط کی پشت پر لکھے وہ الفاظ پڑھتااور پھر خود سے گویا ہوتا، "کیا یہ خط مسلمانوں کے اس عظیم لشکر کو ہمارے شہر سے نکالے گا؟ کیا اس خط کی ان دو سطروں میں اتنی طاقت ہے؟ " (جاری)