Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Babar Taimoor
  4. Hum Sabhi To Ahle Koofa Hain

Hum Sabhi To Ahle Koofa Hain

ہم سبھی تو اہل کوفہ ہیں‎‎

عیسائی فوجیں اس چار ہزار مربع میل کے علاقے کو فتح کر چکی تھیں۔ ابو عبداللہ نے شہر کی چابیاں فاتح عیسائی کے ہاتھ میں دیں اور اپنی والدہ کیساتھ وہاں سے جلا وطن ہو گیا۔ وہ رکا، پیچھے کو مڑا اور لمبی آہ بھری۔ اپنے عظیم اسلاف کے سرمایہ عظیم کو دیکھا اور بچوں کیطرح رو پڑا۔ ابو عبداللہ کی والدہ نے اسے تھپکی دی اور طنزا کہا، "جس چیز کی تو مرد کی طرح حفاظت نا کر سکا اس کے چھن جانے پہ عورتوں کی طرح کیوں روتا ہے؟ " ابو عبداللہ نے شرمندگی اور کرب سے اپنی ماں کو دیکھا اور چل دیا۔ مسلمانوں کے زوال کی گھڑی آ چکی تھی۔

یہ میرا وطن پاکستان ہے، یہ میری داستاں بھی ہے یہ میرا ارمان بھی ہے، یہ میرا آستاں بھی ہے، یہ میرے خوابوں کی حسین تعبیر بھی ہے، یہ میرے وجود کا ایک اٹوٹ ا نگ بھی ہے، یہ میری روح بھی ہے اور یہ میرے سانسوں کی اک لڑی بھی ہے۔ میرے وجود کےمٹی میں وہ دلکشی اور دلفریبی نہیں جو اسکی خاکی مٹی میں ہے، میرے خو ن کے آبی قطروں میں وہ تقدس نہیں جو اسکے خاکی ذروں میں ہے اور میری جبیں کی لکھت میں وہ عزم نہیں وہ حوصلہ نہیں جو اسکے آبی ذروں میں ہے۔ یہ پھولوں کا دیس ہے یہ میرا پیارا پاکستان ہے۔

وہ کوشش کتنی دل نشیں ہوگی جس کی منزل پاکستان بنا، وہ سوچ کتنی پاکیزہ و زرخیز ہوگی جس میں اس پاک دھرتی کا عکس ابھرا، وہ سینے کتنے مقدس اور فراخ ہونگے جن کے اندر اس ملک کو حاصل کرنے کے ارمان ابھرے، وہ دماغ کتنا وسیع اور روشن ہوگا جس میں اس مملکت کا نقشہ تیار ہوا۔

مملکت خداداد پاکستان کو آزاد ہوئے 74 سال کو عرصہ ہو گیا ہے۔ لیکن میرے قلب و روح پہ ان گناہوں کے زخموں کے نشان ہیں جو اس ملک پاکستان کو برباد کرنے کے لیے ہم سے سرزد ہوئے ہیں۔ ہم نے ان ماؤں کی قربانیوں کو بھلا دیا، ان بہنوں کی تار تار ہوتی عزتوں کو پس پشت ڈال دیا، ہم نے ان معصوم بچوں کی آہ و بکا کو بھلا دیا جو اس ملک پاکستان کے لیے کٹ مرے، ہم نے لیاقت علی خان کو سر عام روالپنڈی میں سید اکبر سے گولی مروا کر شہید کر دیا جنہوں نے اس مملکت خداد کے لیے اپنی تمام تر جاگیر کو ٹھوکر مار دی تھی۔

ہم ایک عجیب قوم ہیں، تاریخ پڑھتے ہیں لیکن تاریخ سے سیکھتے کچھ نہیں۔ آپ ساری تاریخ اٹھا لیں کہیں سے بھی کسی بھی دور حکومت کا تجزیہ کر لیں آپ کو ہمیشہ مسلمان ایک دوسرے کو مارتے ہوئے ہی نظر آئیں گے۔ یہ ہمارے زوال کی نشانی ہی نہیں ہے بلکہ قران اولی کے وقت سے جاری ہے۔ خلفائے راشدین کے خلاف جس طرح فتنوں کو ابھارا گیا وہ سبھی کے سامنے ہے۔ بنو امیہ کے دور میں فاتح اندلس جناب طارق بن زیاد کو پس زندان ڈالنے والا کون؟ افریقہ میں مسلم روایت کا دفاع کرنے والے جناب قتیبہ بن مسلم بابلی کو دنیا کے نقشہ سے غائب کرنے والے کون؟ بوڑھے فاتح جناب موسی بن نصیر سے مدینہ و حجاز کی سر زمین پر بھیک منگوانے والے کون؟ اسلام کو سرزمین عرب سے ایشیائے کوچک میں لانے والے اور مسلم بیٹی کو بازیاب کروانے والے کمسن فاتح محمد بن قاسم کو بیڑیاں ڈال کر دمشق لے جانے والے کون؟

نواب سراج الدولہ ہو یا ٹیپو سلطان، میسور کا حیدر علی ہو یا سلطان حیدر یلدرم جس نے قسم کھائی تھی کہ میں روم کے سینٹ پیٹر کے گرجا گھر کو اپنے گھوڑوں کااصطبل بناؤں گا، ہم نے ہر دور میں میر جعفر اور میر صادق پیدا کیے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ خواہ ہم لارنس آف عرب سے بھی ڈسے جائیں یا ہنری کسنجر کی 1962ء کی کھلی دھمکیاں بھول جائیں، کچھ فرق نہیں پڑتا کیونکہ تاریخ کا سبق یہی ہے کہ اس سے کوئی سبق نہیں سیکھا جاتا۔

ہم بحیثیت قوم بہت دلچسپ لوگ ہیں، ایک طرف اسلام ہمیں اس ملک میں نافذ کرنا ہے تو دوسری طرف ہمارے منافق رویے رخ روشن کی طرح ہیں۔ دنیا ہمیں ریمنڈ ڈیوس کو رہا کرنے والی بے حس قوم کہے یا، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے معاملے پر ہمارے رویے کو منافقوں سے تشبیح دے، چاہے کچھ بھی کہے یا سوچے لیکن ایک بات آپ سب کو ماننا ہوگی کہ ہم وہ لوگ ہیں جو ایوانوں میں بیٹھے بیٹھے ہی اس ملک کا سودا کر دیں صرف یہی نہیں اگر کوئی دام لگا کر دیکھے تو ہم ایوان میں لگی اپنے قائد کی تصویر تک بیچ دیں۔

چلیں ہم مان لیتے ہیں کہ ا ن سب معاملات میں کہیں نا کہیں کوئی سیاسی چپقلش رہی ہوگی، کوئی اقتدار کو قائم کرنے کا دلدادہ رہا ہوگا، کسی کے لیے یہ اقتدار کی مجبوریاں رہی ہونگی، لیکن ہے کوئی جو یہ اعتراف کرے کہ ہم اہل کوفہ ہیں جو شہادت حسین کے بعد پھر کسی حسین کے منتظر ہیں، ہے کوئی جو یہ اعتراف کرے کہ ہمارے ہونٹوں پہ خامشی کا سایہ ہے اور ہمارے دلوں میں ایک طرف توحید اور ساتھ ہی یزید وقت کا خوف بھی ہے، ہے کوئی جو یہ اعتراف کرے کہ ہم اپنے حکمرانوں کی پیٹھ پیچھے تو انکی برائیاں کرینگے لیکن انکے پیش نظر انکی شان میں قصیدے لکھیں گے، انکی عظمت کے ترانے گائیں گے۔

کہ سننے والو یہاں نہ آنا

یہ کربلا ہے یہ کربلا ہے

تمہارے محسن نے جان دی ہے

تمہاری خاطر سسک سسک کر

کہ تمہاری سوچوں میں جینے والا

تمہارے تیروں سے مر گیا ہے

ابو عبداللہ اندلس کی آخری مسلم ریاست غرناطہ کا وہ بدبخت حکمران تھا جس نے عین اس وقت اپنے والد ابوالحسن اور چچا محمد بن سعد الزاغل کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا جب وہ اندلس میں عیسائیوں کے مشترکہ لشکر سے اندلس میں مسلمانوں کی بقا کی آخری لڑائی لڑ رہے تھے۔ اراغون کی ملکہ ازبیلا اور دوسری طرف قسطلہ کا متعصب شاہ فرنڈیڈ تھا۔ یہ دونوں مسلمانوں کو سر زمین اندلس سے نکال باہر کرنا چاہتے تھے۔ اس مقصد کے لیے ان دونوں نے 1469ء میں اراغون اور قسطلہ کو باہم مدغم کر لیا اور ایک دوسرے سے شادی کر لی۔ 1469ء تک مسلمان اندلس میں غرناطہ تک محدود ہو چکے تھے۔ سارا اندلس چھن چکا تھا اور غرناطہ مسلمانوں کی بقا کی آخری امید تھا۔ اسکا حکمران مولائے ابوالحسن ایک قابل اور نڈر حکمران تھا۔ اہل اندلس نے اسے اپنا نجات دہندہ تصور کیا اور اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب ابوالحسن کے بھائی محمد بن سعد الزاغل نے دیکھا کہ عیسائی ان دونوں بھائیوں میں پھوٹ ڈالنا چاہتے ہیں تو اس نے مالقہ سے دستبردار ہوتے ہوئے ابوالحسن کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور پہلے سے زیادہ مضبوط ہو گئے۔ جب ملکہ ازبیلا نے ابوالحسن سے خراج مانگا تو اس نے تاریخی الفاظ میں کہا، "غرناطہ کے ٹکسال میں عیسائیوں کو دینے کے لیے سکوں کی بجائے اب فولاد کی تلواریں تیار ہوتی ہیں جو ان کی گردنیں اتار سکیں۔"

لوشہ کے میدان میں جب ابوآلحسن عیسائی فرنڈیڈ سے بر سرپیکار تھا اسی وقت ابوعبداللہ نے علم بغاوت بلند کیا اور غرناطہ کے تخت کا جانشین بن گیا۔ صرف یہی نہیں اس کے کچھ بعد مالقہ کے میدان میں ابوعبداللہ نے ذلالت کی انتہا کرتے ہوئے اپنے ہی باپ پر پشت سے حملہ کر دیا۔ ابوالحسن تجربہ کا تھا اس نے عیسائیوں سے بھی مقابلہ کیا اور اپنے بیٹے کو بھی پسپا کر دیا۔ ابو عبداللہ پسپائی میں کالوشنیہ کے مقام پر فرنڈیڈ سے ٹکرایا اور شکست کھائی یوں گرفتار ہوا۔ قید کے دوران اس کی ہوس اور اقتدار کا لالچ کھل کر سامنے آیا اور فرنڈیڈ نے اسے ابوالحسن کے خلاف استعمال کیا یوں 1492ء کو سقوط غرناطہ کے ساتھ مسلمانوں کا اندلس پہ 806 سالہ دور حکومت ختم ہو گیا۔

عیسائی فوجیں اس چار ہزار مربع میل کے علاقے کو فتح کر چکی تھیں۔ ابو عبداللہ نے شہر کی چابیاں فاتح عیسائی کے ہاتھ میں دیں اور اپنی والدہ کیساتھ وہاں سے جلا وطن ہو گیا۔ وہ رکا، پیچھے کو مڑا اور لمبی آہ بھری۔ اپنے عظیم اسلاف کے سرمایہ عظیم کو دیکھا اور بچوں کیطرح رو پڑا۔ ابو عبداللہ کی والدہ نے اسے تھپکی دی اور طنزا کہا، "جس چیز کی تو مرد کی طرح حفاظت نا کر سکا اس کے چھن جانے پہ عورتوں کی طرح کیوں روتا ہے؟ " ابو عبداللہ نے شرمندگی اور کرب سے اپنی ماں کو دیکھا اور چل دیا۔ مسلمانوں کے زوال کی گھڑی آ چکی تھی۔

یاد رہے کہ ابو عبداللہ بھی اپنی قوم سے یہی کہا کرتا تھا کہ میں جو بھی عیسائیوں سے معاہدے کر رہا ہوں وہ غرناطہ کے مستقبل کے لیے بہت ضروری ہیں۔ اور پھر انہی عیسائیوں نے ابو عبداللہ کو غرناطہ سے جلا وطن کر دیا۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ غزوہ ہندکی اہمیت و افادیت کو پہچانا جائے یہ نا ہو کہ ہندوتوا کا نظریہ ہمارے دلوں کو روند نہ دے۔ کیونکہ اب جنگ ملکوں ی نہیں نظاموں کی ہوگی۔ افغانستان میں نظام اشتراکیت اور کیپیٹیلیزم ناکام ہو گئے۔ اب بس پاکستان ہے جو تاریخ کے ایسے چوراہے پر واقع ہے جہاں قوموں کی قسمتوں کا فیصلہ ہونا ہے اور رہی بات بھارت کی تو وہ تاریخ کے غلط رخ پر واقع ہے، وہ یونہی بہہ جائے گا۔ لیکن بھارت نے نازی جرمنز کی طرح آر-ایس-ایس کو پہلے آئین کا حصہ بنایا اور اب فوجی طاقت بھی بنا رہا ہے لیکن ہم مسلمان اتنی پیشین گوئیوں کے باوجود غزوہ ہند کی اصطلاح استعمال کرنے سے بھی ڈرتے ہیں۔ مگر تاریخ کا سبق یہی ہے کہ اس سے کوئی سبق نہیں سیکھا جاتا۔

بابرؔ اک کام کرتے ہیں، چلو احتساب کرتے ہیں

ہم سبھی کیا اہل کوفہ ہیں؟ خود سے یہ سوال کرتے ہیں

Check Also

Fahash Tarkari

By Zubair Hafeez