Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Babar Taimoor
  4. Apna Gareban Chaak

Apna Gareban Chaak

اپنا گریباں چاک‎‎

جنرل صاحب نے اس خط کو کھول کر پڑھا اور مسکرا کر ایک طرف رکھ دیا۔ بعد میں علم ہوا کہ اس خط میں لکھا تھا کہ، "بھارت اس وقت کشمیر کا دفاع کرنے کے قابل نہیں ہے، اگر آپ چاہیں تو کشمیر بھارت سے باآسانی حاصل کر سکتے ہیں۔" یہ انکشاف پڑھ کر مجھے اس بات کی مکمل طور پر سمجھ آ گئی کہ جنرل موسیٰ خان نے 1965ء میں آپریشن جبرالٹر کی مخالفت کیوں کی تھی۔

جسٹس جاوید اقبال 5 اکتوبر 1924 کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ وہ جناب اقبال کی دوسری بیوی، سردار بیگم میں سے تھے۔ جسٹس جاوید اقبال مارچ 1982 سے 1986ء تک لاہور ہائی کورٹ اور، اکتوبر 1986 سے 1989ء تک سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج بھی رہے۔ انہیں قومی اور بین الاقوامی سطح پر خدمات کے عوض 2004ء میں "ہلال امتیاز" دیا گیا۔ اکتوبر 2015ء کو انہوں نے وفات پائی۔

جسٹس جاوید اقبال 1947 سے لے کر 2015ء تک پاکستان کی تاریخ کے عینی شاہد رہے ہیں۔ ان کی سوانح حیات "اپنا گریباں چاک"ایک بہترین ادبی شاہکار ہے۔ یہ کتاب محض ایک آٹو بائیوگرافی نہیں ہے بلکہ اس میں موجود کچھ انکشافات نے مجھے سکتہ میں ڈال دیا۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ بھی سکتے کی اس کیفیت میں سے گزریں۔

جسٹس صاحب لکھتے ہیں کہ 1962ء میں جب ذوالفقار علی بھٹوپاکستان کے وزیر خارجہ تھے تو سر ظفر اللہ خان کو یو این کی بین الاقوامی عدالت کا دوسری مرتبہ جج مقرر کیا گیا۔ یو این کے اجلاس کے اختتام پر سر ظفر اللہ خان نے مجھے ذاتی طور پر ایک خط دیا جو کہ صدر پاکستان جنرل ایوب خان کو پاکستان واپسی پر پیش کرنا تھا۔ انہوں نے لکھا کہ جب وہ واپس لاہور پہنچے تو اگلے ہی روز شیخ خورشید احمد (جنرل ایوب کے وزیر قانون) مجھے ملنے آئے اور فرمانے لگے کہ نواب آف کالا باغ (گورنر مغربی پاکستان) مجھے صوبہ کا وزیر قانون بنانا چاہتے ہیں اس لیے میں ان کے ساتھ جا کر انہیں مل لوں۔

میں نے خورشید سے کہا کہ میں نواب آف کالا باغ کو نہیں جانتا، ممکن ہے جنرل ایوب نے انہیں میرا نام تجویز کیا ہو، اس لیے میں پہلے جنرل ایوب سے مل کر یہ فیصلہ کروں گا کہ وزیر بنوں یا نا بنوں۔ خورشید رخصت ہو گئے اور پھر کبھی نہ آئے۔ وہ لکھتے ہیں کہ چند روز بعد میں جنرل ایوب خان کی خدمت میں حاضر ہوا اور انہیں سر ظفر اللہ خان کا دیا ہوا خط پیش کیا۔ جنرل صاحب نے اسے کھول کر پڑھا اور مسکرا کر ایک طرف رکھ دیا۔ بعد میں علم ہوا کہ اس خط میں لکھا تھا کہ، "بھارت اس وقت کشمیر کا دفاع کرنے کے قابل نہیں ہے، اگر آپ چاہیں تو کشمیر بھارت سے باآسانی حاصل کر سکتے ہیں۔" یہ انکشاف پڑھ کر مجھے اس بات کی مکمل طور پر سمجھ آ گئی کہ جنرل موسیٰ خان نے 1965ء میں آپریشن جبرالٹر کی مخالفت کیوں کی تھی۔

جسٹس صاحب مزید لکھتے ہیں کہ جب میں نے جنرل ایوب سے پوچھا کہ کیا انہوں نے میرا نام نواب آف کالا باغ کو صوبائی وزیر قانون کے لیے پیش کیا تھا؟ جنرل ایوب بولے، " نہیں۔ میں صوبائی معاملات میں دخل نہیں دیتا۔" پھر میں نے انہیں بتایا کہ کس طرح خورشید احمد میرے پاس نواب آف کالا باغ کا پیغام لے کر آئے اور میں نے انہیں کہہ دیاکہ میں اس پر پہلے جنرل ایوب سے مشاورت کروں گا۔ جنرل ایوب اس پر حیران ہوئے اور کچھ دیر سوچنے کے بعد بولے، "میں حیران ہوں کہ نواب صاحب کو آپکے نام کا خیال کس طرح آیا، ہم تو " راسکلز" (بدمعاش) کی تلاش میں رہتے ہیں۔ آپ تو ماشاء اللہ "رائیٹ مین" (دیانتدار) ہیں۔" مجھے جنرل ایوب کی بات بہت گراں گزری۔ میں نے دکھ اور طنز سے کہا، " سر کیا نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ ملک کو چلانے کے لیے "راسکلز" ہی رہ گئے ہیں؟ "

جسٹس صاحب نے ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں بھی تفصیل سے لکھا ہے۔ بھٹو جنرل ایوب خان کے وزیر خزانہ شعیب سے بہت نفرت کرتے تھے۔ درحقیقت ایوب حکومت میں شعیب امریکی مفادات کا خصوصی خیال رکھتے تھے۔ علاوہ ازیں جنرل ایوب خان خود بھی امریکہ نواز ہی نہیں بلکہ امریکہ کی جیب میں تھے۔

ایک جگہ اور لکھا کہ ہمارے یو این مشن پر نیو یارک میں پرنس علی خان کی پارٹیاں بہت مشہور تھیں۔ ان میں شرکت کے لیے ہالی وڈ سے ایکٹرسیں اور فلمی ستارے مدعو ہوتے تھے۔ سارا مشن رنگ برنگے پھولوں اور ماڈل لڑکیوں سے سجا دیا جاتا۔ ساتھ ہی مشرقی یورپین سٹائل کی موسیقی کا انتظام بھی ہوتا۔ بعض غیر اہم مدعو شخصیات بھی سمگل ہو کر ان پارٹیوں میں شرکت کرتیں لیکن وہ سارے اخراجات اپنی جیب سے برداشت کرتے اور حکومت پاکستان سے تنخواہ بھی نہ لیتے تھے۔ ایسی ہی ایک پارٹی میں خوب شیمپئن بہائی گئی اور ذوالفقار علی بھٹو خوب بہکے۔ جب میں نے بارہ بجے کے قریب واپسی کے لیے بھٹو سے اجازت طلب کی تو کہنے لگے، "جاوید جا رہے ہو تو نصرت کو بھی لیتے جاؤ اور ہوٹل ڈراپ کر دینا۔" وہ لکھتے ہیں کہ جب میں نے بیگم نصرت سے چلنے کا کہا تو وہ کہنے لگیں، "اس (بھٹو) کو میں یہاں چھوڑ کر نا جاؤں گی۔"

وہ مزید لکھتے ہیں کہ بھٹو امریکہ کے بہت خلاف تھے اور اکثر انکے لیڈرز کو فحش گالیاں بھی دے دیتے تھے۔ اسی پارٹی میں یا ایسی ہی کسی پارٹی میں (مجھے یاد نہیں پڑتا) بھٹو صاحب نے "ماڈی ڈیوس" سے بدتمیزی کی جس پر انہوں نے مجھے آغا شاہی کے ہاتھ پیغام بھیجا "کہ اگر یہ شخص (بھٹو) کبھی بھی تمہارا وزیراعظم بنا تو یقین رکھو امریکہ کے پاکستان کے ساتھ تعلقات ختم ہو جائیں گے۔"

ایک جگہ جسٹس جاوید اقبال نے لکھا کہ، مجھے بھٹؤ نے بتایا کہ پیپلزپارٹی کا نعرہ "اسلامی سوشلزم" ہوگا یعنی "روٹی، کپڑا اور مکان"، اور مجھے انکی پارٹی میں شامل ہو کر ملک کی خدمت کرنی چاہیے۔ میں نے جواب دیا، " کہ یہی ایجنڈا مسلم لیگ کا تھا اور اس کے لیے تو "اسلام " ہی کی اصطلاح کافی ہے۔"اسلامی سوشلزم" چہ معنی دارد؟ بھٹو نے اس پر طنزا کہا، "تم تو پروفیسروں جیسی باتیں کرتے ہو۔ بھائی میں نے"اسلامی سوشلزم" کا نعرہ اس خیال سے نہیں بنایا کہ اس اصطلاح کے کوئی خاص معنی ہیں۔ سیاست میں اصطلاحیں کوئی خاص معنی نہیں رکھتیں، اصل مقصد اقتدار حاصل کرنا ہوتا ہے۔

بھٹو کہنے لگے، " میں نے یہ نعرہ اسی لیے بنایا ہے کہ مشرقی پاکستان میں جب تک سوشلزم کا نام نہ لو کوئی بات سننے کو تیار ہی نہیں ہوتا اوراسی طرح مغربی پاکستان میں اسلام کا نام لیے بغیر کام نہیں بنتا۔ میرا تعلق نا تو سوشلزم سے ہے نہ اسلام سے، اصل مقصد حصول اقتدار ہے اور بس۔"

جسٹس صاحب آگے چل کے لکھتے ہیں کہ جس روز مغربی پاکستان پر حملہ ہوا اس وقت میں اور جسٹس ظلہ بہاولپور بینچ پر تعینات تھے۔ اسی شب بلیک آؤٹ کے دوران لاہور پہنچے۔ بھارت کی طرف سے ہوائی حملے کا خطرہ ہر وقت رہتا تھا۔ ہمارے ہوائی جہاز بھی خاصے فعال تھے۔ انہوں نے لکھا کہ، "ایک شام مجھے یاد ہے۔ میں اور ناصرہ اپنے بیڈروم میں تھے۔ چھ سالہ منیب اور چار سالہ ولید اپنے کمرے میں مولوی صاحب سے قرآن شریف کا درس لے رہے تھے۔ اتنے میں دو بھارتی ہوائی جہاز انتہائی نیچی پرواز کرتے چنگھاڑتے ہوئے ہمارے گھر کے اوپر سے گزرے۔ انکا ارادہ شاید ریلوے لوکو شاپ پر بم گرانے کا تھا جو ہمارے گھر سے ایک دو میل دور تھی۔ میں اور ناصرہ سراسیمگی کے عالم میں بچوں کے کمرے کی طرف دوڑے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ دونوں بچے مولوی صاحب سمیت میز کے نیچے گھسے بڑے اطمینان کے ساتھ قرآن شریف پڑھ رہے ہیں۔ انکے چہروں پر نا تو کوئی خوف کے آثار تھے نہ اس آفت ناگہانی نے انکی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی۔

ایک جگہ جسٹس صاحب نے لکھا کہ، "جب ہمارے وزیر یا وفد بیرون ملک جاتے ہیں تو انکے لیے وہاں سفیروں کو نا جانے کیسے کیسے انتظامات کرنے پڑتے ہیں۔" جسٹس جاوید اقبال نے اس کی تفصیل لکھنے سے منع کر دیا شاید اس سے کئی شرفاء کا "گریباں چاک " ہو جاتا۔

Check Also

Rawaiya Badlen

By Hameed Ullah Bhatti