Aaj Ka Julius Caesar (2)
آج کا جولیس سیزر(2)
مارک انتونی کہتا ہے "دوستو! روم والو! ہم وطنو! میں تو سیزر کی تدفین کے لیے آیا ہوں، اسکی تعریف کے لیے نہیں۔ لوگ جو برائیاں کرتے ہیں انکے بعد بھی زندہ رہتی ہیں اور انکے اچھے کام انکے ساتھ ہی دفن ہو جاتے ہیں۔ پس سیزرنے بھی جو کچھ کیا وہ اسکے ساتھ ہی گیا۔ تمہیں اچھے بروٹس نے بتایا ہے نا کہ سیزر اقتدار کا لالچی تھا، اگر ایسا تھا تو پھر اسکا انجام بھی ٹھیک ہی ہوا۔
بروٹس تو عزت دار آدمی ہے اور سبھی عزت دار آدمی یہاں سیزر کی تدفین کے لیے موجود ہیں۔ میں تو یہ کہنے آیا ہوں کہ وہ میرا دوست تھا۔ میری حد تک وہ وفادار بھی تھا۔ لیکن بروٹس کہتا ہے وہ آمر بننا چاہتا تھا بلاشبہ بروٹس تو ایک معزز آدمی ہے۔
لوگو! سیزرتو بہت سے رومی قیدیو ں کو چھڑا کر وطن واپس لے آیا تھا اور انکا تاوان بھی خود سے ادا کیا، تو کیا اس وجہ سے سیزر اقتدار کا حریص تھا؟ جب کوئی غریب روتا تو سیزر آہیں بھرا کرتا تھا، کیا اسکے آہیں بھرنے سے اسکی حرص و ہوس کا ثبوت ملتا ہے؟ بروٹس کہتا ہے سیزر اقتدار کا لالچی تھا اور بروٹس تو عزت دار آدمی ہے۔
میں نے تم سب کے سامنے تین بار سیزر کو بادشاہت کا تاج پہنانا چاہا لیکن اسنے تینوں مرتبہ لینے سے انکار کر دیا۔ کیا یہی تھا اسکا لالچ؟ بروٹس کہتا ہے وہ لالچی تھا اور بیشک بروٹس تو ایک معزز آدمی ہے۔ میں بروٹس کی کسی بات کو جھٹلانا نہیں چاہتا میں تو وہ کہہ رہا ہوں جو میں جانتا ہوں "
(سارا مجمع انتونی کی تقریر سن رہا ہے اور انتونی بڑے مدبرانہ انداز میں حقیقت سے پردہ ہٹا رہا ہے۔ اب لوگ انتونی کی بات توجہ سے سن رہے ہیں اور وہ پھر سے بولتا ہے)
"روم والو! تم بھی ایک وقت میں سیزر سے محبت کیا کرتے تھے جو بلا وجہ نہیں تھی۔ مگر آج کیا سبب ہے کہ تم سیزر کا ماتم نہیں کر رہے۔ میں تمہیں بغاوت پر آمادہ نہیں کر رہا نا ہی بروٹس کو جھٹلا رہا ہوں، کیونکہ بروٹس تو عزت دار آدمی ہے۔ جو بھی غلطی ہے وہ مرے ہوئے سیزر کی ہے، میری ہے، تمہاری ہے۔ مجھے تو بس اسکی وصیت کا پتا ہے جو میں تمہارے سامنے نہیں پڑھوں گا کیونکہ اگر میں نے یہ وصیت پڑھ دی تو تم اسکی محبت میں مبتلا ہو جاؤ گے۔
یہ وصیت اس عزت دار آدمی کی بات کو جھٹلائے گی جس کی تلوار نے سیزر کو موت بخشی۔ میں بروٹس جتنی اچھی تقریر نہیں کر سکتا میں تو سادہ سا آدمی ہوں۔ بس میں تمہیں اسکی وصیت بتا دوں کہ اسنے ہر رومی کے لیے پچہتر سکہ چھوڑے ہیں۔ اپنی سیر گاہیں تمہارے نام کر دی ہیں اور اپنا باغ بھی تمہیں دے دیا ہے تا کہ تم وہاں تفریح کے لیے جاؤ"۔
یونہی مارک انتونی کی تقریر ختم ہوتی ہے لوگ آہیں بھر کر رونا شروع کر دیتے ہیں اور بروٹس کو برا بھلا کہنا شروع کر دیتے ہیں اور اسکا گھر جلانے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ بروٹس جو کچھ لمحے پہلے ایک عزت دار آدمی سمجھا جاتا تھا اب ایک غدار کا روپ دھار چکا ہے۔
سیزر کی لاش کو پورے فوجی اعزاز کیساتھ "فیلڈآف مارس" میں لایا گیا جہاں سبھی سپاہیوں نے اپنے عظیم جرنیل کو فوجی طرز کا خراج عقیدت پیش کیا اور پھر "سیزر" کی لاش کو اسکی بیوی "کلپرینا" کی تحویل میں اسکی رہائش گاہ "ڈومبس پبلیکا" میں بھیج دیا گیا۔
یہ مکالمہ شیکسپیئر کے شہرہ آفاق ناول "جولیس سیزر" سے ترجمہ کر کے آپکے سامنے رکھا گیا ہے۔ اس ناول میں لکھا ایک ایک لفظ پاکستان کے وجود میں آنے سے لے کر اب تک ہم نے سچ کر کے دکھایا ہے۔ ہماری قومی تاریخ میں بہت سے جولیس سیزر آئے ہیں جنہیں ہم نے اقتدار میں ہوتے ہوئے کھلی ڈھیل دے رکھی اور جب انہیں کسی "بروٹس" نے پردے سے ہٹا دیا تو پھر اسکے اچھے کارنامے بیان کرنے کے لیے کوئی نا کوئی "مارک انتونی" اٹھ کھڑا ہوا۔
مگر اس بار جب میں نے مملکت خداداد پاکستان میں امریکی مداخلت کا کھلا پرچار ہوتے ہوئے دیکھا اور پھر اسکا ایک باقاعدہ نتیجہ بھی سامنے آیا تو مجھے پھر سے ایک اور جولیس سیزر دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اس بار عمران خان پاکستان کے جولیس سیزر بنے لیکن یہ سب مجھے اس وجہ سے لکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی جب میں نے عمران خان کو حق پر ہوتے ہوئے بھی گلی گلی سچ کا اعلان کرتے ہوئے مصروف عمل پایا۔
کبھی لاہور کبھی کراچی کبھی پشاور، عمران خان سچ کو سچ ثابت کرتا کرتا ایک ایسا سیزر بن گیا جس کے اچھے کام بیان کرنے کے لیے اسے کوئی "مارک انتونی" میسر نہیں۔ اب عمران خان کو اپنے اقتدار کے لاشے پر خود ہی تقریر کر کے یہ بتانا ہوگا کہ " اے لوگو! میرا انتظامی ڈھانچہ اتنا کارآمد نہیں تھا لیکن بلدیاتی نظام کو فعال کر کے عام طبقہ کو طاقتور بھی میں نے ہی بنایا، میرے دور میں مہنگائی بھلے ہی آسمانوں کو چھوتی رہی مگر ساری دنیا کے برعکس تیل اور گیس پر سبسڈی بھی میں نے ہی دی، آئی ایم ایف سے قرضہ بھلے ہی لیے ہوں مگر عشروں سے چلتی آرہی ذہنی غلامی سے نکل کر سر اٹھا کر جینا بھی میں نے ہی سکھایا۔
ملک کی جی ڈی پی بھلے ہی خستہ حال ہو مگر ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ ٹیکس ریکوری بھی میں نے ہی کی، دنیا میں کرونا کی وبا سے لاکھوں خاندان بھوک و افلاس میں جا گرے مگر ملک کو مکمل بند نا کر کے کافی حد تک مزدور کا سانس بحال بھی میں نے ہی کئے رکھا، ملک میں کاروباری مافیہ کتنا ہی سرگرم کیوں نا ہو مگر صحت کارڈ اور احساس پروگرام کے ذریعے سفید پوش طبقے کا بھرم بھی میں نے ہی رکھا، ملکی روپیہ کتنا ہی کیوں نا گر گیا ہو مگر ملکی تاریخ میں ابتک کے سبھی اقتداروں کے مقابلے میں قومی خزانے میں سب سے زیادہ زرمبادلہ بھی میں نے ہی چھوڑا"۔
پاکستان کی تاریخ میں بننے والے ہر "سیزر" کو اسکا "مارک انتونی" میسر رہا ہے، ایوب کو یحیی، بھٹو کو بےنظیر، نوازشریف کو شریف خاندان، مگر عمران خان ایسا بدقسمت "سیزر" ہے جسے بروٹس تو بہت سے دستیاب ہیں مگر انتونی کا کام اسے خود ہی کرنا ہوگا۔