1.  Home/
  2. Blog/
  3. Muhammad Ali Ahmar/
  4. Us Bazar Mein

Us Bazar Mein

اس بازار میں

عورت کیا ہے؟ کسی نے کہا عورت ماں ہے، جس کے پیروں تلے جنت ہے۔ کسی نے کہا عورت بیوی ہے، جو تمہارے آدھے ایمان کی ضامن ہے۔ کسی نے کہا عورت بیٹی ہے، جو رحمت ہی رحمت۔ یہ سب تو عورتوں کے اچھے روپ ہو گئے۔

کوٹھوں اور بازاروں میں بیٹھنی والی عورتوں کو کیا کہیں گے؟ بلکہ سوال تو یہ ہے کہ ہم ان کو عورت ذات کی قطار میں شمار بھی کرتے ہیں یا نہیں؟

مجھے تو اس کا جواب نہ میں ہی ملا جب بھی میں نے اس بارے میں سوچا۔ یہ تمہید بہت لمبی ہو جائے گی، اگر اس پر بحث کرنا شروع کر دی جائے تو۔ ہم اس کو کسی اور وقت پر اٹھا رکھتے ہیں اور آتے ہیں اس کتاب کی جانب۔

یہ کتاب میرا آغا شورش کاشمیری سے پہلا تعارف ہے۔ جس کے بارے میں شیخ رشید صاحب فرماتے ہیں"مجمع میں کھڑے ہو کر بولنے کا فن میں نے شورش کاشمیری سے سیکھا ہے"۔

وہ ہزاروں کے مجمع میں ایسے بے دھڑک بولتے تھے کہ اس وقت کے سامراجوں کی پتلونیں گیلی ہو جاتی تھیں۔ یار ایک تو میں بات کرتے کرتے ادھر اُدھر نکل جاتا ہوں۔ اب صرف اس کتاب پر بات ہوگی۔

اس کتاب کے سرورق پر شورش صاحب فرماتے ہیں"کاش مجھے اختیار ہوتا کہ میں بڑے بڑے عماموں کے پیچ کھول ڈالتا۔ ان کی دستار فضیلت کے پھریرے بنا کر بالاخانوں پر لہراتا۔ فقیہ شہر کی دراز قبا پھاڑ ڈالتا اور اس کے ٹکڑے دریدہ عفتوں کے حوالے کرتا کہ اپنی برہنگی ڈھانپ لیں"۔

کیا اس تمہید کے بعد اس کتاب پر بات کرنے کی کچھ گنجائش رہ جاتی ہے؟ کہ مصنف نے اپنے عزائم پہلے صفحہ پر ہی ظاہر کر دیے ہیں کہ عورت کو بازار میں بٹھانے اور اس کے جسم سے حظ اٹھانے میں جو شرفاء ملوث ہیں، یہ کتاب ان کو ننگا کرکے چھوڑے گی۔ مصنف نے بازار حسن کی سالہا سال کی گردش کے دوران کم و بیش آٹھ سو لڑکیوں کے حالات جاننے کی کوشش کی ہے اور کچھ کم زیادہ کرکے ہمارے روبرو بیان کر دیے ہیں۔

اس کتاب کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ بازار میں بیٹھی ہوئی لڑکی کس کس مجبوری کے تحت وہاں پہنچی ہے۔ ارباب اختیار محفلیں اڑانے تو وہاں پہنچ جاتے ہیں، مگر مسائل کا سدباب نہ کرتے ہیں اور نہ ہی کرنا چاہتے ہیں۔ وہ منٹو یہ کیا خوب کہا تھا۔

"میرے شہر کے شریفوں کو میرے شہر کی طوائفوں سے زیادہ کوئی نہیں جانتا"۔

Check Also

Jamhoor Ki Danish Aur Tareekh Ke Faisle

By Haider Javed Syed