Tobata Al-Nasooh
توبتہ النصوح
لو بھائیو، ڈپٹی نذیر احمد کی ایک اور کتاب۔ یارو میرا نہ ایک لوچہ ہے، مجھے جس مصنف کی تھوڑی بہت سمجھ میں آئے میں اس کا سارا کام منگوا لیتا۔ اب دو سال پہلے میں نے کہیں سنا کہ ڈپٹی نذیر احمد گورو گھنٹال قسم کا آدمی ہے تو میں نے سوچا، اس کی کتابوں پر ہاتھ صاف کرتے ہیں۔ اوپر سے اللہ پوچھے ان فیسبک والوں کو، ایسے مزے مزے کے پیکج بنا کر سامنے رکھتے ہیں کہ بندے کے پاس بیشک روٹی کے پیسے ہوں نہ ہوں، وہ کتابیں منگوا ہی لیتا ہے۔ اسی دوران مجھے یہ پانچ کتابوں کا سیٹ نظر آیا اور وہ بھی صرف ہزار روپے میں، میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ جھٹ سے سیٹ آرڈر کر دیا۔
اب کتابیں پہنچ چکیں تو سب سے پہلے ابن الوقت پڑھنا شروع کی۔ اور دل لگتی پوچھو تو میں نے کہا وڑ گئے، ہزار روپے ضائع۔ پھر سوچا یار تنقید کے لیے اچھی کتابوں کے ساتھ ساتھ بری کتابیں بھی پڑھنی ضروری ہوتی تاکہ موازنہ رہے (ایویں ای پاپی دل کو خوش کرنے کے بہانے) پھر ایک خیال آیا یارا پڑی رہنے دیتا ہوں لائیبریری کی شوبھا بڑھے گی۔ دو سو روپے کی ایک کتاب کوئی ماڑی ہے، اتنے میں تو آج کل ایک اچھا برگر نہیں آتا، جسے چٹ کرنے میں کوئی تین کو منٹ صرف ہوتے ہیں۔ لیں جی یہ سوچ کر دل ایسا سرشار ہوا، جیسے ہفت اقلیم کے خزانے قدموں میں آ گرے ہوں۔ یار ایک تو میں باتیں کرتے کرتے ادھر اُدھر نکل جاتا ہوں، اب آتے ہیں کتاب کی طرف۔
مولانا کی باقی کتابوں کی طرح یہ بھی ایک اصلاحی ناول ہے۔ کہانی اس کی کچھ یوں ہے کہ ہیضہ کی وبا پھیلی ہوئی ہے اور نصوح بھی اس کا شکار ہو کر قریب المرگ ہو جاتا ہے۔ اسی دوران اس کو خواب میں دوسرا جہان نظر آتا ہے، جہاں پر تمام لوگ اپنے کیے کی سزا و جزا بھگت رہے ہوتے ہیں۔ جب اس کی نظر اپنے والد پر پڑتی ہے تو وہ مشکلات کا شکار نظر آتا ہے۔ نصوح حیران ہوتا ہے کہ میرا والد تو نماز روزے کا پابند، معاملات میں کھرا، سب کے کام آنے والا تھا، پھر یہ مشکل میں کیوں ہے؟
اس کا والد بتاتا ہے، مجھ سے فلاں جگہ بھول چوک ہوگئی تھی۔ جس کا خمیازہ بھگت رہا ہوں۔ اسی کے ساتھ نصوح کو ہوش آ جاتا ہے اور تمام خواب اس کی آنکھوں میں پھر جاتا ہے۔ جب وہ اپنے گھر نظر ڈالتا ہے تو اسے گھر کا گھر بگڑا نظر آتا ہے اور وہ اُن تمام کے گناہوں اور بد کرداروں کا بھار بحیثیت گھر کے سربراہ کے اپنے کاندھوں پر محسوس کرتا ہے۔ اور عزم کر لیتا ہے کہ پورے گھر کو دیندار بنا کر چھوڑے گا۔ اس سفر میں اسے کیسی کیسی مشکلات سے واسطہ پڑتا ہے وہ سب پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ زبان اس ناول کی بھی خوب رواں ہے۔
اگر کوئی ترقی پسند ادیب اس ناول پر بحث کرے گا تو وہ کہے گا مولانا نے سیدھی سیدھی تبلیغ کی ہے۔ جس کی ادب میں کوئی خاص جگہ نہیں بنتی۔ خیر یہ بھی ایک نقطہ نظر ہے اور اس پر الگ سے بحث کی جا سکتی ہے، یہاں میرا مقصد صرف اس کتاب سے متعارف کروانا تھا۔ اچھی کتاب ہے پڑھنے کے لائق۔