Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Ali Ahmar
  4. Tehreek Khatam e Nabuwat

Tehreek Khatam e Nabuwat

تحریک ختم نبوت

شورش کاشمیری کی دو کتابوں کا تعارف میں پہلے ہی کروا چکا ہوں جن میں کاشمیری صاحب کی ذاتی زندگی کے اوپر تفصیلاً بات ہو چکی ہے۔ آج بات کرتے ہیں ان کی اس کتاب کے اوپر۔

انیسویں صدی کے آخر میں غلام احمد قادیانی نام کا ایکُ فتنہ اٹھا جس نے برصغیر کے مسلمانوں کو جھنجوڑ کر رکھ دیا، کاشمیری صاحب کی یہ کتاب اس فتنے کے رد میں وجود پانے والی تحاریک کا احاطہ کرتی ہے۔

سب سے پہلے مصنف نے بتایا کہ کیسے انگریزوں نے سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل کا زور توڑنے کے لیے ایک جماعت تیار کی اور انہیں وہابی قرار دیا۔ اس کے بعد مولانا فضل حق خیر آبادی (جو کہ غالب کے بے تکلف دوستوں میں سے تھے اور غالب پر ان کا بہت رسوخ تھا) کیسے سید احمد شہید کی تحریک کے سب سے بڑے مخالف بن کر ابھرے اور کیسے اس وقت کے جید علما اور فضلا کو انگریز سرکار اپنے عزائم کے لیے استعمال کرتی تھی۔

اس کے بعد میرزا غلام احمد کی زندگی کے بارے بیان کیا کہ وہ کیا تھے، کیسے انگریزوں کے ہاتھ چڑھے، کیسے وہ پہلے امام مہدی بنے، پھر مسیح موعود بنے اور اس کے بعد آخری نبی کا دعویٰ کر بیٹھے۔ استعماری قوتوں نے ان کو کس طریقے سے استعمال کیا اس کا مفصل بیان اس کتاب میں پڑھنے کو ملتا ہے۔

جب مرزا نے نبوت کا دعویٰ کر دیا تو اس کے جواب میں پورے برصغیر سے مسلمان علما اور فضلا نے کھلا چیلنج کر دیا کہ مرزا ہم سے مناظرہ کرے اور اپنے اس دعوے کو واپس ہے ورنہ وہ واجب القتل ہے۔ ان علما و فضلا میں مولانا محمد حسین بٹالوی، مولانا محمد بشیر سہوانی، قاضی محمد سلیمان منصورپوری، مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی اور مولانا ثناءاللہ امرتسری قابل ذکر ہیں۔

یہ سب حضرات وقتاً فوقتاً مرزا کو مناظرے کا چیلنج کرتے رہتے تھے اور اس کے غیر اسلامی عقائد پر گرفت کرتے رہتے تھے۔ ان سب کے بعد پیر مہر علی شاہ صاحب نے مینار پاکستان میں مرزا کو چیلنج دے کر اس کی فرار کی تمام راہیں مسدود کر دیں۔ مرزا کو نہ آنا تھا اور نہ آیا تو وہاں پر پیر صاحب نے ختم نبوت کے اوپر زوردار تقریر کی جس کے چیدہ چیدہ نکات پیر صاحب کی کتاب "سیف چشتیائی" میں دیکھے جا سکتے ہیں جس کے بارے مولانا اشرف علی تھانوی نے فرمایا تھا "حیات و موت عیسوی کی بحث میں سیف چشتیائی قابل مطالعہ ہے۔

اس کے بعد مولانا ظفر علی خان کا کردار بھی قابل ذکر ہے کہ انہوں نے سیاسی بنیادوں ہر کس طرح اس مسئلہ کو اجاگر کیا اور ہر فورم پر اس کے بارے آواز اٹھائی۔

اس دور کی اخباروں کی کارستانی بھی کھل کر بیان کی گئی ہے کہ کون سی اخبار اس مسئلہ کے حق میں بیان شائع کرتی تھی اور کون سی مخالف۔

یہیں پھر علامہ اقبال کے بیانات بھی اس کتاب کا حصہ ہیں جس میں انہوں نے نہ صرف اس فتنے کے اوپر بات کی، بلکہ ملائیت، تصوف اور مسلمُ ملوکیتوں کے اوپر بھی کھل کر بحث کی۔

تحریک راست اقدام، اسلامی (پاکستانی) حکومت کا اسے کچلنا، مولانا مودودی کا قادیانی مسئلہ لکھنا، مولانا کو پھانسی کی سزا سنانا، قادیانی نمائندوں کی پاکستانی کیبینٹ میں شمولیت، قادیانی جاسوسوں کی کارستانیاں، ملک کو کمزور کرنے کی سازشیں اور بالآخر ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں قومی اسمبلی کا قادیانیوں کو کافر قرار دینا، یہ تمام واقعات اس کتاب کا حصہ ہیں۔

میرے خیال میں یہ کتاب ہر چھوٹے بڑے کو ضرور پڑھنی چاہیے تاکہ اسے اس فتنے سے آگاہی حاصل ہو سکے اور یہ معلوم ہو سکے کہ ماضی میں کن لوگوں ُ نے اس فتنے سے نپٹنے کے لیے کیسے کیسے اقدامات کیے۔

Check Also

Koi Darmiya Nahi Chahiye

By Abu Nasr