Surkhab
سرخاب
یہ عرفان جاوید کی پہلی کتاب ہے، جو میری نظر سے گزری ہے۔ ویسے تو قریب سال سے اوپر ہوگیا تھا۔ ان کی دو کتابیں میری لائیبریری میں پڑی ہوئی تھی، مگر کوئی تحریک نہیں مل رہی تھی پڑھنے کی۔ اب جب کچھ دن پہلے ناطق صاحب نے آپ کی نئی کتاب "آدمی" پر کچھ ان الفاظ میں تبصرہ کیا۔
"دوستو یہ عرفان جاوید کی خاکوں کی کتاب ہے۔ میں مولوی محمد حسین آزاد کی مثال تو نہیں دوں گا کہ وہ اردو نثر کا دیوتا ہے، البتہ اِس کتاب سے پہلے مجھے مرزا فرحت اللہ بیگ کے خاکے، جوش کے خاکے، خواجہ حسن نظامی، اشرف صبوحی، اسلم فرخی کا خاص کر "صاحب میرے" والا خاکہ اور منٹو کے گنجے فرشتے بہت زیادہ اپنے اندر کھینچ لے گئے تھے۔ عرفان جاوید کے "آدمی" کے خاکوں کو مَیں ہر صورت اُنھی میں رکھوں گا"۔
تو میں نے کہا بس اب یہ کتاب ہر حال میں پڑھنی چاہیے۔ آئیے اب ذرا اس کتاب پر تھوڑی بات ہو جائے۔ اس کتاب میں کچھ خاکے ہیں کچھ مضامین ہیں کچھ تذکرے ہیں۔ یوں تو مشہور ادیبوں اور شاعروں جیسے پروین شاکر، منٹو، جون ایلیا، منشایاد کے واقعات ویسے ہی پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں، کیونکہ ان کی زندگی میں ویسے ہی اتنا مواد ہوتا ہے۔ جو انسان کو بور نہیں ہونے دیتا۔ ان کے برعکس میں جن خاکوں پر الگ سے بات کرنا چاہوں گا وہ نسبتاً کم معروف لوگوں کی کہانیاں ہیں۔ جو آج تک ہمارے نگاہوں سے اوجھل ہیں رہی۔
اس کتاب کا پہلا ہی مضمون بہت زبردست تھا، جو مجھے "خالد حسن" سے واقف کروا گیا۔ خالد حسن جو کہ بھٹو کا قریبی ساتھی تھا، سفارتکار تھا، صحافی تھا اور بہت سے بین الاقوامی اداروں میں رہ چکا تھا۔ بڑے بڑے لوگوں کے ساتھ روابط تھے مگر ان سب کے بیچ اس نے اپنا امیج برقرار رکھا۔ تیکھی طبیعت کاٹ دار جملوں اور اپنی بات بےدھڑک بول دینے والا خالد حسن جب اپنی سرزمین سے ہزاروں میل دور امریکا کے ایک ہسپتال میں اپنی آخری سانسیں لے رہا تھا، تو نہ صرف اس کی زندگی کا چراغ گل ہو رہا تھا، بلکہ اس کے ساتھ وہ لوگ بھی مر گئے، جو صرف خالد حسن کے قصوں اور کہانیوں میں زندہ تھے۔
استاد دامن کا مضمون بھی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ پنجاب کے ایک سادہ سے شاعر کی کہانی جس نے اپنے ابتدائی دنوں میں پنڈت جواہر لعل نہرو کے جلسے اپنی شاعری سے گرمائے۔ بعد ازاں ظہور الہیٰ کے مقرب ٹھہرے، بھٹو کے عتاب کا شکار ہوئے، فیض کے دوست ہوئے، مختار مسعود اور دیگر دانشوروں کے قریبی دوست تھے اور سادگی کی انتہا کہ شاہ حسین سے منسوب ایک کوٹھری میں اپنی زندگی کے آخر دن گزار دیے۔
اس کے علاوہ گلزار کی کہانی، محمد الیاس کا مضمون اور ایوب خاور کی زندگی کے نشیب و فراز بھی اس کتاب کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں۔