Sahafti Yaadein Az Jabbar Mirza
صحافتی یادیں از جبار مرزا

کسی بھی ریاست کا ڈھانچہ تین ستونوں پر کھڑا ہوتا ہے۔ قانون بنانے والے، قانون نافذ کرنے والے اور عدلیہ۔ بہت سے پروفیسر حضرات ایک اور شعبہ کو چوتھا ستون بھی مانتے ہیں اور وہ شعبہ ہے صحافت۔
صحافی معاشرے کا وہ اہم ستون ہوتا ہے کہ جس کے بارے میں یہ بات بالکل صادق آتی ہے کہ "اگر عورت اپنا جسم بیچے تو تو صرف اس کا خاندان تباہ ہوتا ہے جبکہ صحافی (یا ادیب) اپنا قلم بیچ دے تو پوری قوم تباہ ہو جاتی ہے"۔
صحافت ہی وہ شعبہ ہے جو مذکورہ بالا تین اداروں کے کالے چٹھے عوام کے سامنے کھول رکھتا ہے۔ اگر تو وہ اپنا ایمان بیچ دے تو عوام کو سب اچھا اچھا ہی دکھاتا ہے اور اگر وہ اپنے قلم کا سودا نہ کرے تو عوام کو پتہ چلتا رہتا ہے کہ ان کے سامنے "لٹھا پہنے چوہدری صاحب" کتنے پانی میں ہیں۔ انگریزی میں اس کے لیے "Whistle Blower" کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے جیسے کوئی چوکیدار چور ڈاکوؤں کو دیکھ کر سیٹی بجا دیتا ہے۔
جبار مرزا بھی ایسے ہی ایک دبنگ قسم کے صحافی ہیں جنہوں نے ساری زندگی اپنے اصولوں پر سمجھوتا نہیں کیا (جن کا خمیازہ ان کو کیا بھگتنا پڑا یہ وہی جانتے ہیں)۔ یہ آپ کی دوسری کتاب میری نظر سے گزری ہے اس سے پہلے میں آپ کی کتاب (پاکستان کا آخری بڑا آدمی: ڈاکٹر عبدالقدیر خان) پڑھ چکا ہوں اور اس کے مطالعہ کے بعد ڈاکٹر صاحب سے میری عقیدت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔
مذکورہ کتاب (جیسا کہ نام سے ظاہر ہے) آپ کی صحافتی اور ذاتی یاد داشتوں پر مشتمل ہے جس میں حیرتوں کا ایک جہان آباد ہے۔ زیادہ تر واقعات تو آپ کی صحافی برادری کے ہیں جو کھوٹا کھرا ہمارے سامنے الگ الگ کرکے رکھ دیتے ہیں۔ "میں نہ کتی تھی" کے عنوان سے جو آپ نے کہانی بیان کی ہے وہ مجھے فوراً شورش کاشمیری کی کتاب "اس بازار میں" کی طرف لے گئی۔ جیسے کاشمیری صاحب نے معاشرے کے پسے طبقے کی دادرسی کا بیڑا اٹھایا تھا بعینہ مرزا صاحب نے اپنے ایک دوست کی خاطر جس جانفشانی سے اس کیس کو حل کیا، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ساتھ ہی اس کا افسانوی بیان کہانی کو مزید جاندار بنا دیتا ہے۔
اس کتاب نے جہاں بڑے بڑے برج الٹ دیے ہیں وہیں دو شخصیات بارے پڑھ کر واقعی حیرت ہوئی کہ "ایسا بھی ہوتا ہے"۔ ایک تو پروفیسر احسان اکبر صاحب جن کا نام پاکستان کے تعلیمی حلقوں میں بڑے احترام سے لیا جاتا ہے، ان کا سود اور قبضہ خوری میں ملوث ہونا حیرتوں کے پہاڑ توڑ دیتا ہے (اس واقعہ کی تصدیق یا تردید کے لیے مصنف سے رابطہ کیا جائے)۔ دوسرا طاہر القادری صاحب نے جو شان رسالت ﷺ میں جو لغویات بیان کی ہیں وہ بھی قاری کی آنکھیں کھولنے کو کافی ہیں (قادری صاحب کے بارے جو مرزا صاحب نے بیان کیا اس کا تو ویڈیو کلپ بھی یوٹیوب سے مل گیا)۔
اس کے بعد آپا رفعت اور امرتا پریتم کی بحث پڑھ کر بہت مزہ آیا کہ پنجاب کی دو بیٹیوں نے اپنے اپنے نقطہ نظر کس خوبصورتی سے بیان کیا اور ظہور الہیٰ صاحب کا بیچ بچاؤ کرانا (ویسے میری نظر میں تو سیاستدان پڑھائی سے دور ہی رہتے ہیں ایسے میں ظہور صاحب کا اس خالص ادبی بحث میں ثالث کا کردار ادا کرنا خوشگوار حیرت میں مبتلا کر گیا)۔ مسرت شاہین کا کردار بھی پڑھنے کی چیز ہے کہ کیسے آپ نے عملی سیاست میں اپنا کردار ادا کیا اور شہر کے ایک بڑے مسئلے کو خوش اسلوبی سے حل کروانے میں حکومت کی مدد کی۔
یہ چند واقعات میں نے اس کتاب سے آپ لوگوں کے ساتھ شیئر کیے ہیں اس کے علاوہ کتنے ہی عام لوگ (جو بظاہر عام سے لگتے ہیں مگر ہوتے خاص الخاص ہیں) مرزا صاحب نے ایسی خوبصورتی سے بیان کیے ہیں جو ہمارے سیاسی، سماجی اور معاشرتی رویوں کی خوبصورت عکاسی کرتے ہیں۔ ساتھ ساتھ ناسٹیلجیا بھی مرزا صاحب سے پوری طرح لپٹا رہا جو جگہ جگہ آپ کے بچپن اور جوانی کے واقعات کی شکل میں ہمارے سامنے آتا رہا ہے۔
الغرض ایک عمدہ کتاب سب کو ضرور پڑھنے چاہیے۔