Maa Az Maxim Gorki
ماں از میکسم گورکی
کامریڈ، بورژوا، اشتراکیت، سامراجی طاقتیں، سرمایہ دارانہ نظام، سرخے، ان الفاظ سے میرا تعارف کوئی آج سے تیرہ برس قبل ہوا تھا۔ جب ہم ان الفاظ کو سامنے رکھتے ہوۓ طاغوتی طاقتوں سے سینہ سپر ہوۓ تھے۔ ان سب کے بارے میں بکھری ہوئی معلومات تو میرے پاس تھیں، مگر یک جان و قالب ہو کر کسی ایک جگہ یہ تمام باتیں مجھے کہیں نہیں ملی تھیں، جب تک میں نے اس ناول کا نام نہیں سنا تھا۔
اب جب یہ ناول پڑھنے کی ٹھانی تو میرے استاد جی نے کہا یہ ناول بہت ہی زیادہ ڈیپریشن میں لے جاتا ہے۔ آپ کی بات سن کر پھر کافی عرصہ یہ لائیبریری میں پڑا رہا مگر پڑھنے کی ہمت نہیں ہوئی۔
پھر ایک دن بغیر کچھ سوچے سمجھے اسے نکالا اور سوچا کہ دیکھتے ہیں کتنا ایک ڈیپریس کرتا ہے اور پڑھنا شروع کر دیا۔ اگر صحیح پوچھیں تو آدھے تک تو اس ناول نے بہت زیادہ مزا کروایا اور کہانی خوب رواں چلتی رہی(سواۓ روسی ناموں کے جو تراجم میں سب سے بڑا مسئلہ ہوتا ہے) آدھے میں پہنچ کر ناول کچھ سست ہوگیا، بلکہ بوریت کی حد تک چلا گیا۔ شروع شروع میں ایسا لگا کہ یہ کہانی "پاویل" جو اس ناول کا مرکزی کردار ہے۔ اس کے گرد گھومتی ہیں اور جب اسے جیل ہو جاتی ہے تو کہانی تھوڑی پھیکی پڑ جاتی ہے۔ مگر اس کے جیل جانے کے کوئی ساٹھ ستر صفحات گزارنے کے بعد آہستہ آہستہ سمجھ آتی ہے کہ کہانی کا مرکزی کردار پاویل تو ہے ہی نہیں بلکہ اس کی "ماں" ہے۔ پاویل نے تو اپنی سوچ، اپنا عزم، اپنا غرور سب کچھ اپنی مرضی سے گزارا اور جیل کو بھی خود سے گلے لگایا۔
مگر دوسری جانب اگر اس کی ماں کی بات کی جاۓ تو اس بیچاری کو تو پاویل کے جانے کے بعد اس کے حصہ کا سارے کا سارا کام کرنا پڑا۔
نلونا جو کہ ایک سیدھی سادھی گھریلو عورت تھی، جس نے کبھی اپنے شعور کے پرندے کو پہچانا نہیں تھا، پاویل کے جانے کے بعد نہ صرف اس کے دوستوں کو اس کی کمی نہیں محسوس ہونے دی بلکہ اپنے بیٹے کے عزائم اور الفاظ تمام مزدوروں تک پہنچاۓ۔ اور اس تمام جدوجہد میں نہ صرف پیش پیش رہیں، بلکہ مزدوروں اور کسانوں کو زار کے سامنے اکٹھا کیا۔ صدیوں سے پسی ہوئی روحوں کو یہ احساس دلایا کہ آزادی کے کیا معنی ہیں اور یہ تاج ہم پر تب تک ہے جب تک ہم جھکے ہوۓ ہیں، جوں ہی ہم کھڑے ہو گۓ یہ عمارت دھڑام سے گر جاۓ گی۔
کہانی جس خوبصورتی سے پاویل سے نلونا کو ٹرانسفر ہوئی ہے وہ اس کتاب کی جان ہے۔