Kashmir Kahani
کشمیر کہانی

رؤف کلاسرا ایک منجھے ہوئے صحافی اور لکھاری ہیں۔ جس ٹاپک پر انہوں نے اب قلم اٹھایا ہے وہ واقعی اس بات کا متمنی تھا کہ اس پر ایک مستند سامنے آنی چاہیے۔ گو کہ انگریزی میں اس ٹاپک ہر کافی کچھ مواد موجود ہے مگر اردو میں کم ہی لوگوں نے اس طرف توجہ دی۔ جس کی کمی کافی حد تک اس کتاب نے پوری کر دی۔
اس کتاب نے مزہ تو بہت کرایا کہ اس کا انداز بیان شاندار روانی لیے ہوئے تھا مگر مجھے کہنے دیجیے کہ اس نے مزے سے زیادہ تشنہ کرکے رکھ چھوڑا۔ کتاب بہت چھوٹی سی ہے جس کے تمام واقعات اپنی اپنی جگہ ایک بم کی حیثیت رکھتے ہیں مگر کافی کچھ ایسا ہے جو ابھی بیان ہونا باقی ہے۔ چند ایک واقعات درج ذیل ہیں۔
چرچل نے ماؤنٹ بیٹن کی خوب کلاس لی کہ اس نے کشمیر کے مسئلہ کو صحیح سے حل نہیں کیا۔ چرچل کے نزدیک مسلمان ان کے اتحادی تھے جب کہ نہرو اور پٹیل تاج برطانیہ کے دشمن۔ چرچل کے اس بیان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کانگریس پہلے دن سے ہی سامراج سے جان چھڑوانے کے چکر میں تھی جب کہ جناح اس معاملے میں مفاہمت کے قائل تھے۔
ایک طرف تو جناح برٹش گورنمنٹ کے ساتھ مفاہمت کے قائل تھے دوسرے طرف آپ بہت سی جگہوں پر اپنی ضد پر اڑے رہے جس نے نئی نویلی حکومت کو سخت نقصان سے دوچار کیا۔ اس کے پیچھے کیا عوامل تھے وہ بھی نظروں سے اوجھل ہیں۔
جونا گڑھ اور حیدر آباد کی ریاستیں جو پاکستان کے ساتھ الحاق کی خواہشمند تھیں ان کا بھی پاکستان کے ساتھ الحاق نہ ہو سکا۔ جناح کا سٹانس اس میں بھی کوئی خاص نظر نہیں آیا۔
اس کتاب کے مطالعے سے یہی سامنے آتا ہے کہ پاور ٹرانسفر کے وقت ماؤنٹ بیٹن، نہرو اور پٹیل ہی سرگرم تھے اور جناح صاحب بالکل خاموش تھے۔
میرا خیال ہے کلاسرا صاحب کو سنجیدہ قاری کا خیال کرتے ہوئے درج ذیل عوامل کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔
اس کتاب میں زیادہ تر زور نہرو، پٹیل اور ماؤنٹ بیٹن کے درمیان ہونے والی گزارشات اور کشمکش پر دیا ہے اور جناح صاحب قریباً نظر انداز ہی رہے ہیں۔ ان کا سٹانس زیادہ تفصیل کا متقاضی ہے۔
وائسرائے ہند اور نہرو ہر وقت شیر و شکر رہے جب کہ ماؤنٹ بیٹن جناح سے کھنچا کھنچا ہی رہا۔ یہاں پر بھی جناح کا نقطہ نظر ہمارے سامنے نہیں ہے کہ کیا وجہ تھی کہ پاکستان کی تاریخ کے شاید سب سے اہم بندے سے جناح اس طرح کھنچے رہے؟
اس کتاب نے ایک کام ضرور کیا، جہاں مسئلہ کشمیر کی جڑ کو تفصیل سے بیان کیا ہے وہیں بہت سے نئے نکات ایسے اٹھا دیے ہیں جو موجودہ دور کے محقق کو کچوکے لگاتے رہیں گے اور وہ ان کی تلاش میں سرگرداں ہو جائے گا۔